کیا حکومت مولانا سے خائف ہے؟


مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان کرکے ان لوگوں کو سرپرائز دیا ہے جو کہہ رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں دھرنا نہیں دیں گے، مولانا فضل الرحمان کے مخالفین یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کی نوبت ہی نہیں آئے گی، اس سے پہلے مولانا فضل الرحمان کے مخالفین کی طرف سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مدارس نے اپنے طلباءکو آزادی مارچ میں شرکت سے روک دیا ہے، پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بارے متعدد خبریں پھیلائی گئیں کہ مولانا کو تنہا ہی آزادی مارچ کرنا پڑے گا، آزادی مارچ کی تاریخ سامنے آجانے کے بعد اب وہی لوگ مولانا فضل الرحمان پر تنقید کے نشتر چلاتے نظر آتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان آخر کیوں حکومت کا تختہ دھڑن کرنا چاہتے ہیں۔

یاد رہے مولانا فضل الرحمان سے آزادی مارچ نہ کرنے کا سوال وہی طبقہ کررہا ہے جسے تاریخ کے سب سے بڑے دھرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ جب 2014 ءمیں تحریک انصاف اور اس کے اتحادی طاہر القادری لاولشکر کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہے تھے تو دانشور اورغیر جانبدار طبقہ کی طرف سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ مسلم لیگ ن کی منتخب حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے کیونکہ اگر منتخب حکومت کو نان ایشوز میں الجھا کر رکھا جائے گا تو حکومت کے لئے اہداف کا حصول مشکل ہوجائے گا لیکن تحریک انصاف کی قیادت نے ایک نہ مانی اور اسلام آباد کی طرف چڑھائی کر دی جس سے ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔

تحریک انصاف مگر اس بات پر خوش تھی کہ اس نے دھرنا سے سیاسی مقصد میں کامیابی حاصل کرلی تھی لیکن شاید تحریک انصاف حالات کے جبر سے واقف نہیں تھی، حالات نے آج تحریک انصاف کو اسی دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے، جس پر کل وہ خود کھڑی تھی، آج تحریک انصاف کے لوگ وہی باتیں کر رہے ہیں کہ ملکی معیشت پہلے ہی خراب ہے اگر مولانا فضل الرحمان نے دھرنا دے دیا تو مزید تباہی کا شکار ہو جائے گی۔

جس طرح گزشتہ دور حکومت میں تحریک انصاف دھرنے سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ تھی، آج مولانا فضل الرحمان بھی آزادی مارچ سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کل تحریک انصاف عوام کو بتا رہی تھی کہ دھرنا اس کا آئینی، اخلاقی اور جمہوری حق ہے، آج مولانا فضل الرحمان لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ آزادی مارچ ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تحریک انصاف اپوزیشن میں رہتے ہوئے کل جس عمل کو درست تصور کرتی تھی آج حکومت میں ہونے کی وجہ سے وہ عمل اس کے نزدیک درست نہیں رہا ہے، کیا حکومت کے اس طرز سیاست میں اہل سیاست کے لئے واضح پیغام نہیں ہے؟

آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان ہو چکا، رہا یہ سوال کہ کیا مولانا فضل الرحمان اپنے دعوے کے مطابق بڑے پیمانے پر لوگوں کو آزادی مارچ میں لانے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ اس کا مختصر جواب ہے ہاں۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شرکت کے اعتبار سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اگرچہ فی الوقت پیچھے نظر آرہی ہیں لیکن دھرنے کا وقت قریب آتے ہی یہ جماعتیں بھی مولانا فضل الرحمان کے دھرنا میں بھر پور طریقے سے شامل ہوں گی کیونکہ ایک تو یہ کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، دوسرے یہ کہ انہی دو جماعتوں کے قائدین پس زندان ہیں، تیسرے یہ کہ ایوان میں اصل اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن ہے وہ کسی صورت نہیں چاہے گی کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جو سیاسی اعتبار سے اس سے بہت چھوٹی ہے وہ عملی طورپر اپوزیشن جماعت ہونے کا تاثر دے۔

اس طرح قوی امید ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا ورکر بھی شامل ہو جائے گا۔ ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملک کا وہ طبقہ جو مولانا فضل الرحمان کی جماعت سے وابستہ ہے اورنہ ہی مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی سے اس کا کوئی تعلق ہے لیکن حالات کا ماراہوا اور مہنگائی کا ستایا ہوا ہے، مولانا فضل الرحمان کو قوی امید ہے کہ ان کے آزادی مارچ میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہوں گے جو کسی سیاسی جماعت سے باقاعدہ وابستہ نہ ہونے کے باوجود بھی حکومت کے خلاف ہیں یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے سوچ سمجھ کر اکتوبر کے مہینے کا انتخاب کیا گیا ہے کہ جس ماہ میں بجلی کے بل دیگر مہینوں کی نسبت کئی گنا زیادہ آئے ہیں۔

رہی بات مولانا فضل الرحمان کی اپنی جماعت کی تو ہمارے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی اپنی جماعت (جے یو آئی) اپنے وسائل کے بل بوتے پر بڑے جلسے اور مارچ کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ کوئی راز کی بات نہیں انہوں نے ماضی میں کئی بار بڑے جلسے کرکے اورلاکھوں لوگ جمع کر کے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت مولانا فضل الرحمان کے لوگ زیادہ کمٹڈ ہیں تو بے جا نہ گا کیونکہ پاکستان کے حالات میں ہمیشہ مذہبی وابستگی سیاسی وابستگی کی نسبت پختہ اور قابل اعتبار تصور کی جاتی ہے یہ مذہبی وابستگی محض مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اس سے قبل جب ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو پی ٹی آئی کے ورکرز کی نسبت پاکستان عوامی تحریک کے لوگ اپنے قائد کے ساتھ زیادہ پختہ اور کمٹڈثابت ہوئے تھے۔

دریں حالات مولانا فضل الرحمان نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں اور ایوان میں اپوزیشن جماعت کی موجودگی کے باجود اپنی اہمیت منوا لی ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ ایوان میں اگرچہ مسلم لیگ ن اپوزیشن جماعت ہے لیکن عملی طور پر اپوزیشن کی جماعت جے یو آئی ہے، مولانا فضل الرحمان نے موجودہ حالات میں ثابت کردیا ہے کہ جے یو آئی ہی وہ واحد جماعت ہے جو حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس مولانا فضل الرحمان کو آزادی مارچ سے روکنے کے لئے کوئی ٹھوس جواز موجود نہیں ہے، ان حالات میں اگر مولانا فضل الرحمان کو گرفتار کرنے کے لئے کوئی جواز تلاش کیا جاتا ہے تو اس کا نقصان خود حکومت کو ہو سکتا ہے کیونکہ ان حالات میں ادنیٰ عقل اور سمجھ بوجھ والا انسان بھی یہی سمجھے گاکہ مولانا کو آزادی مارچ سے روکنے کے لئے حکومت رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ مولانا کا آزادی مارچ لازم ٹھہر چکا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس آزادی مارچ کے نتائج کیا نکلتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).