افغان طالبان کا دورہ پاکستان


وزیر اعظم عمران خان نے 23 ستمبر کو نیو یارک میں کونسل آف فارن ریلیشنز نامی تنظیم کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ انہیں طالبان اور امریکا کے درمیان کوئی ڈیل نہ ہونے کی خبر کا علم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ٹویٹ سے ہوا تھا۔ انہوں نے کہا، ”اچھا ہوتا کہ مذاکرات کا سلسلہ ختم کر دینے سے پہلے ہم سے مشاورت کی جاتی۔ “ عمران خان نے کہا کہ جب جنگ اور مذاکرات دونوں ساتھ ساتھ جاری رکھے جائیں، تو نتیجہ اکثر یہی نکلتا ہے۔

افغان مفاہمتی عمل کے سلسلے میں ملا محمد برادر کی سربراہی میں طالبان کا اعلی سطحی وفد اسلام آباد پہنچا، جب کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان زلمے خلیل زاد بھی پاکستان میں تھے۔ افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹ کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ سینئر رہنما ملا محمد برادر کی سربراہی میں اعلی سطح کا وفد 03 اکتوبر تا 6 اکتوبر کو پاکستان کا سرکاری دورہ کررہا ہے۔ افغان طالبان نمائندے پاکستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے جس میں افغان امن عمل سمیت متعدد اہم امور پر بات چیت کی جارہی ہے۔

زلمے خلیل زاد سے افغان طالبان کے وفدکی غیررسمی ملاقات ہوئی۔ امریکی صدر کے خصوصی ایلچی نئے مینڈیٹ کے ساتھ افغان طالبان سے دوبارہ مذاکرات جاری رکھنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ان کی دورہ امریکا میں وزیر اعظم کی زلمے خلیل زاد سے بھی ملاقات ہوئی تھی جس میں افغان مفاہمتی عمل کو دوبارہ جاری رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔ پاکستان میں زلمے خلیل زاد کی موجودگی اسی حوالے سے تصور کی جا رہی ہے۔ دریں اثناسہیل شاہین نے کہا کہ طالبان کو اس دورے کے لئے سرکاری طور پر مدعو کیا گیا ہے۔

پاکستانی وزرات خارجہ نے بھی افغان طالبان کے دورے کی تصدیق کی ہے۔ افغان طالبان رہنما شیخ الحدیث مولوی شہاب الدین دلاور کا کہنا ہے کہ ”موجودہ دورہ رسمی و سیاسی ہے۔ دورے کا مقصد پاکستانی حکام سے افغان عوام کو درپیش سفری مشکلات، افغان مہاجرین کی تعلیم، صحت عامہ، رہائشی سہولیات اور ایسے افغان مہاجرین جنہیں پولیس نے گرفتار کیا اگر سنگین جرائم میں ملوث نہیں تو ان کی رہائی پر بات چیت کرنا ہے“۔ افغان طالبان کا وفد دوحہ مذاکرات کے دوران بھی پاکستان آنا چاہتا تھا لیکن غنی انتظامیہ کے اعتراض کی وجہ سے دورہ نہ ہوسکا۔

حالیہ دورے پر صدارتی ترجمان نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پاکستان کی مہمان نوازی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے واضح رہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے افغان طالبان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی، جس پر ترجمان افغان طالبان نے عندیہ دیا تھا کہ اگر پاکستان رسمی طور پر دعوت دے تو افغان طالبان وزیراعظم سے ملاقات کرسکتا ہے۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سمیت اعلیٰ سول و عسکری حکام سے سائیڈ ملاقاتیں ہوئیں تاہم رسمی ملاقات تاوقت دفتر خارجہ میں ہی ہوئی ہے جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ اور وزیر خارجہ بھی موجود تھے۔

جنہوں نے افغان مفاہمتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق کا مشترکہ اعلامیہ دیا ہے۔ افغان طالبان نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر امریکا مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی رضامند ہیں۔ افغان امن کے سلسلے میں طالبان اس سے پہلے تین ممالک روس، چین اور ایران کا دورہ کرچکے ہیں جس کے بعد اب وہ چوتھے ملک پاکستان پہنچے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغان طالبان مزید ممالک کے بھی دورے کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ امریکا اور طالبان کے درمیان افغان امن معاہدے پر اتفاق ہوگیا تھا اور مذاکرات کامیاب ہونے والے تھے، تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں پورا مفاہمتی عمل متاثر ہوگیا۔

افغان طالبان کو کیمپ ڈیوڈ میں نائن الیون تقریبات سے قبل مدعو کرنے پر صدر ٹرمپ و امریکی اسٹیبلمشمنٹ کے درمیان شدید اختلاف پیدا ہوا تھا۔ جس کے بعد صدر ٹرمپ سارے عمل کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور اپنے مشیر برائے قومی سلامتی کو بھی برطرف کردیا۔ اگر دوسرے لفظو ں میں کہا جائے کہ امریکی صدر نے اسٹیبلشمنٹ سے کہا ہوگاکہ 18 برسوں میں حل نہیں نکال سکے تو آپ دوبارہ کوشش کرلیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو غنی انتظامیہ نے یقین دلایا تھا کہ افغان صدارتی انتخابات امریکی منشا کے مطابق ہونے پر انہیں عوامی حمایت حاصل ہوجائے گی، لیکن جس طرح امریکی صدر نے دوحہ مذاکرات کا مسودہ طے پانے کے بعد یو ٹرن لیا تھا اس سے افغانی عوام میں خوف و بد اعتمادی کی فضا قائم ہوئی اور افغان طالبان کی سیاسی و عسکری قوت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔

مسودے پر دستخط نہ کرنے کے باعث امریکا کی اخلاقی و سیاسی پوزیشن خراب ہوئی۔ مسودے کو جن بنیادوں پر ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز کو زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ نیز امریکی و افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے فضائی حملوں کے متعدد واقعات میں عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں سے امریکا و غنی انتظامیہ کا بیانیہ متاثر ہوا۔ اور افغان عوام میں امریکا اور غنی انتظامیہ کے خلاف بداعتمادی بڑھی۔

جس کا فائدہ براہ راست افغان طالبان کو پہنچا۔ افغان طالبان نے عوام سے صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی اور صدارتی انتخابات کو ناکام بنانے کے لئے 500 سے زاید پولنگ اسٹیشنوں کو نشانہ بنایا۔ جس سے غنی انتظامیہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی زائد ترپولنگ اسٹیشنوں میں ویرانی دیکھی گئی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق افغان صدارتی انتخابات کی تاریخ کا ٹرن آؤٹ کم ترین سطح پر رہا۔ 15 سے 20 فیصد ٹرن آؤٹ کی وجہ سے صدارتی انتخابات کی حیثیت غیر موثر ہے کیونکہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے دیگر امیدواروں، خاص طور پر گلبدین حکمت یار نے انتخابی عمل پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حالات میں کشیدگی بڑھنے کا عندیہ دیا۔ دوسری جانب عبوری نتائج آنے سے قبل ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نے کامیابی کے دعوے کردیئے ہیں جس سے 2014 کی طرح صورتحال پیدا ہونے کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔ جس پر جان کیری کو مداخلت کرکے شراکتی فارمولا بنانا پڑا تھا۔ اور اقتدار اشرف غنی و ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ میں تقسیم کیا۔

افغان مفاہمتی عمل کو امریکی صدر کی جانب سے ختم کیے جانے کے بعد افغان طالبان نے مذاکرات ادوارکے اہم اسٹیک ہولڈر سے ملاقاتیں شروع کیں اور سب سے پہلا دورہ روس کرکے سرپرائز دیا۔ روس امریکا و افغان طالبان کے درمیان مسودے کا ضامن تھا۔ اس لئیماسکو میں طالبان وفد کے تین رکنی وفد نے نے روس کے ایلچی برائے افغانستان ضمیر کوبلو سے ملاقات کی اور افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کی۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے روسی ٹی وی ’رشیا ٹوڈے‘ کو بتایا کہ طالبان اور امریکہ کے مذاکرات مکمل ہو چکے تھے۔

ان کے بقول وہ معاہدے کے لیے دستخطوں کی تقریب کی تیاری کر رہے تھے جب اچانک صدر ٹرمپ نے حیران کن طور پر مذاکرات کو مردہ قرار دے دیا۔ طالبان مذاکرات کار محمد عباس نے پہلی مرتبہ معاہدے سے متعلق بعض تفصیلات بھی بتا دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت افغانستان میں مکمل فائر بندی پر اتفاق ہو گیا تھا۔ جب کہ امریکی فوج کے انخلا کے لیے محفوظ راستہ دینے اور 23 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر بھی معاملات طے پا گئے تھے۔

افغان طالبان نے دوسرا دورہ اہم اسٹیک ہولڈر چین کا کیا۔ افغان طالبان کا نو رکنی وفد بیجنگ گیا جہاں افغانستان کے لیے چین کے خصوصی نمائندے برائے افغان امورڈینگ ژی چُن سے ملاقات کی۔ امریکہ سے مذاکرات کے حوالے سے طالبان کے وفد کے سربراہ ملا بردار نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بات چیت کے ذریعے جامع امن معاہدے کا معاملہ طے کر لیا تھا۔ ملا برادر کے بقول اگر امریکی صدر وعدوں کا پاس نہیں رکھتے تو افغانستان میں تشدد کے ذمہ دار بھی وہی ہوں گے۔

طالبان ترجمان کے مطابق طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ہی افغانستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کا راستہ ہے۔ چین بھی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مسودے کے ضمانت دینے والوں میں سے ایک اہم فریق کی حیثیت رکھتے تھے۔ افغان طالبان نے اپنے تیسرے دورے میں قطر سے سیاسی دفتر کے وفد نے تہران میں ایرانی وزارت خارجہ کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کی۔ افغان طالبان کے چار رکنی وفد سیاسی دفتر کے نائب عبدالسلام حنفی کی قیادت میں کو ایرانی حکام سے افغانستان میں پائیدار امن، افغانستان میں ایرانی ترقیاتی منصوبوں کی سیکیورٹی اور امن عمل پر تبادلہ خیال کیا۔

روس، چین اور ایران کے دوروں پر افغان صدر اشرف غنی و حکومتی عہدے داروں نے افغان طالبان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان کے دوروں کو بے مقصد قرار دیا۔ تاہم صدارتی انتخابات کے بعد اشرف غنی نے دوبارہ افغان طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی کہ وہ کابل انتظامیہ سے براہ راست مذاکرات کریں۔ کیونکہ اس وقت بھی افغانستان کی سیاسی صورتحال واضح نہیں ہے۔ افغان طالبان سے 03 اکتوبر کو پاکستا نی دورے کے پہلے مرحلے میں وزرات خارجہ کے اعلیٰ حکام نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں دفتر خارجہ میں مذاکرات ہوئے۔

جبکہافغان طالبان کے 12 رکنی وفد کی قیادت ملا عبدالغنی بردار نے کی۔ فریقین کے درمیان افغان مفاہمتی عمل کے دوبارہ جاری کرنے پر اتفاق رائے پایا گیا۔ وزیر خارجہ نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات کا عمل جلد ازجلد شروع ہو، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ واضح رہے کہ افغان طالبان پر امریکا دوبارہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ جنگ بندی کریں اور کابل انتظامیہ سے مذاکرات کریں۔

جب کہ افغان طالبان کا موقف ہے کہ طویل ترین مذاکراتی عمل کے بعد ایک متفقہ مسودہ طے پا چکا تھا۔ افغان طالبان اپنے معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ امریکی صدر نے اچانک مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا۔ تاہم اس کے باوجود افغان طالبان نے امریکا کو طے شدہ مسودے پردستخط کرنے اور افغان مفاہمتی عمل میں طے پانے والے نکات پر مذاکرات جاری رکھنے کی پیش کش کی کہ مذاکرات کے خاتمے سے نقصان امریکا کو پہنچے گا۔ افغان طالبان سے اگر امریکا جنگ چاہتا ہے تو افغان طالبان تو گذشتہ 18 برسوں سے امریکا سے جنگ کررہا ہے اور امریکا کے افغانستان سے نکالنے کے لئے جنگ کو جاری رکھے گا۔

افغان طالبان کا شروع سے موقف رہا ہے کہ کابل انتظامیہ کٹھ پتلی حکومت ہے۔ اس لئے ان سے مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ اس کی وجہ بھی بتاتے ہیں کہ جس وقت امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو اُس وقت افغانستان کے 90 فیصد حصے پر امارات اسلامیہ افغانستان کی حکومت قائم تھی۔ دوحہ میں 9 مذاکراتی دور اور ایک بین الافغان مذاکرات ہوچکے تھے۔ دوحہ میں مذاکرات کا اختتام ایک متفقہ مسودے پر ہوا چکا تھا۔ جب کہ 23 ستمبرکودوسری بین الافغان مذاکرات کا انعقاد کی تاریخ بھی طے پا چکی تھی۔

جس کے بعد افغانستان کی سیاسی و غیرسیاسی قوتوں کے ساتھ افغانستان کے نظام و انصرام پر متفقہ لائحہ عمل کی راہ نکلنے کا قوی امکان تھا۔ کیونکہ افغان طالبان عندیہ دے چکے تھے کہ افغان عوام کے نمائندے، دانشور اور علما آپس میں بیٹھ کر افغانستان کے نئے نظام کو طے کرلیں گے۔ اس سے قبل افغان طالبان مغربی نظام کے کسی متعین شق پر متفق نہیں تھے تاہم دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کے بعد افغانستان کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی اہم شخصیات نے اعتراف کیا کہ ماضی کے مقابلے میں افغان طالبان کے موقف میں تبدیلی آئی ہے۔

ماضی میں سخت گیر پالیسیوں کے مقابلے میں افغان طالبان نے  یہ بھی عندیہ دیا تھا کہ وہ جبراً پورے افغانستان پر حکومت بھی نہیں چاہتے۔ ایسے اچھی پیش رفت قرار دیا گیا۔ دوحہ کے نویں مذاکراتی دو ر میں افغان طالبان اور اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں سے سائیڈ لائن غیراعلانیہ مذاکرات کے دور بھی ہوئے تھے جس میں فریقین کے درمیان افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اتفاق رائے پایا گیا تھا۔

افغان طالبان کے رہنما عباس ستانگزئی نے واضح موقف دیا کہ ”ہم مستقبل کے سیاسی نظام میں اہم کردار ادا کریں گے۔ جس کی فی الحال نشان دہی قبل از وقت ہوگی۔ ’افغان عوام کے مشترکہ سیاسی نظام‘ کے معنی یہ ہے کہ افغانستان کے تمام طبقات کے نمائندے اس نظام میں ہوں گے۔ تمام نمائندے اسلام و ملک اور عوام کی خدمت کریں گے۔ سب لوگ بغیرکسی تنازع کے نظام میں اپنے نمائندوں کو دیکھ لیں گے۔ البتہ ماضی میں جو مسائل سامنے آئے تھے، وہ تمام حقائق نہیں تھے۔

اکثر حصوں میں پروپیگنڈے ہوئے تھے۔ کچھ مسائل بھی تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نئے آئے ہوئے تھے یا تب ہم جو کر رہے تھے، وہ تب کے معاشرے کی ضرورت تھی، اس سے پہلے بہت وسیع جنگیں اور فساد گزر چکے تھے۔ اس کی دوبارہ اصلاح میں کچھ ضرورت تھی۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ عوامی آگاہی کی سطح بلند ہوئی ہے۔ کافی تجربات حاصل ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد مردوں اور خواتین کے حقوق کی فراہمی میں کوئی مسئلہ نہیں آئے گا ”۔ عباس ستانگزئی کا کہنا ہے کہ“ پاکستان ہمارا ہمسائیہ ملک ہے۔

پاکستان روس خلاف جہاد کے زمانے میں مہاجرین کے لیے سب سے بہترین جگہ رہی ہے۔ حتی کہ افغانی اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ ہم مستقبل میں پاکستان کے ساتھ ایک برادر اور ہمسائیہ ملک کے طور پر پیش آئیں گے۔ ہم باہم برابری کی سطح کے احترام سے بھرے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی معاملہ ہوگا۔ امارت اسلامیہ کے دوراقتدار میں غیرافغان مجاہدین کی حفاظت اور انہیں ٹھکانہ دینے بارے معاملہ یہ ہے کہ جو مجاہدین روس کے ساتھ جہاد کے زمانے میں افغانستان آئے تھے اور یہاں ہمیں میراث میں ملے تھے، ان کے ساتھ تعاون ایک مذہبی ضرورت اور روایتی مطالبہ تھا۔

اب ان میں سے کوئی ایسا شخص یہاں نہیں ہے۔ جسے پناہ دینے کی ضرورت ہو۔ البتہ ہم نہایت صراحت سے کہتے ہیں کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی ”۔ افغان طالبان کا موجودہ دورہ پاکستان گذشتہ ممالک کے دوروں کا تسلسل ہے۔ جس کا مقصد امریکا کودوحہ مذاکرات کے اختتامی پوزیشن پر لانے کے لئے اپنے موقف کا اظہارکرنا ہے۔ افغان طالبان کسی صورت مسودے پر دستخط سے قبل جنگ بندی پر تیار نہیں ہیں اور نہ ہی کابل انتظامیہ کے ساتھ نئے مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔

امریکا کے دونوں مطالبات کا تعلق پہلے امریکا کی جانب سے طے شدہ مسودے پر دستخط سے ہے۔ روس، چین اور ایران افغان مفاہمتی عمل کی بحالی کے لئے امریکا سے مطالبہ کرچکے ہیں۔ افغان طالبان بھی پاکستان سے یہی چاہتے ہیں کہ امریکا طے شدہ مسودے پر دستخط کردے۔ مسودے پر دستخط کے بعد ہی جنگ بندی و بین الافغان مذاکرات کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں صدارتی انتخابات جس بُری طرح ناکام نظر آرہے ہیں وہ افغانستان کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔

کیونکہ افغانستان کی آبادی، تین کروڑ 49 لاکھ چالیس ہزار 8 سو 37 کے قریب بتائی جاتی ہے۔ جس میں 25 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں اور 24 لاکھ ایران، متحدہ عرب امارات میں تین لاکھ، جرمنی میں ایک لاکھ کم و بیش، امریکا میں 90 ہزار، برطانیہ میں 56 ہزار کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر یورپی ممالک میں قانونی و غیر قانونی طور پر پناہ گزین ہیں۔

حالیہ صدارتی انتخابات میں غنی انتظامیہ کے زیر کنٹرول 30 فیصد کم و بیش علاقے بھی (امن سے دور) ہیں جب کہ افغان طالبان 60 فیصد سے زائد رقبے پر عمل داری رکھتے ہیں۔ 10 فیصد ایسے علاقے ہیں جہاں دیگر مسلح جنگجو داعش سمیت موجود ہیں۔ حالیہ انتخابات میں ایک کروڑ ووٹر کا اندراج کروایا گیا۔ لیکن بائیو میٹرک سسٹم کے تحت شناختی عمل میں بے ضابطگیوں سامنے آچکی ہیں۔ ووٹرلسٹ غیر شفاف و غیر مصدقہ ہے۔ نیز ذرائع کے مطابق صدارتی انتخابات میں 80 فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا۔

ان حالات میں کہ افغانستان کے 34 صوبوں میں غنی و ٹرمپ انتظامیہ کی رٹ قائم نہ ہو اور صرف چندلاکھ افراد کے ووٹ دینے کے کمزور ترین عمل پر پورے افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا تو اس سے امن و امان کی صورتحال و سیاسی حالات میں تبدیلی کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوگا۔ نسلی و گروہ بندی میں اضافے کے ساتھ پُر تشدد واقعات میں اضافے کے امکانات واضح ہیں۔ تاہم غیر ملکی افواج کے انخلا اور بین الافغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں امن کا چراغ جلنے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ افغان طالبان کا سیاسی دورے جاری رہنے کا امکان ہے جس میں ملائشیا، انڈونشیا، ترکی، ازبکستان، تاجکستان، جرمنی، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی جاسکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ، امریکی اسٹبلشمنٹ اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغان طالبان کے موجودہ موقف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ جنگ بندی کرکے کابل انتظامیہ سے مذاکرات کا آغاز کریں۔ یہی وجہ ہے افغان طالبان نے امریکی دباؤ و مطالبہ دو ٹوک انداز میں مسترد کردیا ہے کہ پہلے طے شدہ مسودے پر دستخط کریں اس کے بعد بین الافغان مذاکرات سے افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ و جنگ بندی کی جائے گی۔ پاکستان نے اپنا محدود و موثر کردار ادا کیا ت۔

اس کے باوجودامریکی صدر نے بڑا فیصلہ کرتے وقت پاکستان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا اور دورہ امریکا میں بھی وزیر اعظم سے ملاقات میں اپنے فیصلے میں لچک پیدا کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا بلکہ طے شدہ دوسری ملاقات بھی نہیں کی۔ اس لئے افغان طالبان و امریکی ایلچی کے درمیان طے پانے والے مسودے پر امریکا کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ کابل انتظامیہ کو زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے افغان عوام کو غیر ملکی قوتوں کی وجہ سے افغانستان میں مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے لئے اپنے بیانات و رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جب تک تمام فریقین کچھ لو، کچھ دو پر اتفاق رائے پیدا نہیں کریں گے، مسئلے کا حل نکلنے کے بجائے مزید گنجلگ ہونے کا امکان زیادہ ہے، جس سے بچنے کی ضرورت تمام فریقین کے حق میں بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).