کوئی ایسے فرشتے بھی ہیں جو ایسے مردوں پر لعنت بھیجیں؟


میرا نام چندا ہے اور یہ میری کہانی ہے۔ یہ آپ کی کہانی بھی ہو سکتی ہے۔ یا شاید آپ کی کسی عزیزہ کی کہانی ہو۔

میں عام سے گھرانے کی عام سی لڑکی ہوں۔ پاکستان کے اکثر گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم انہیں پر اعتماد، خودمختار بنانے اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے نہیں بلکہ اچھے رشتے کی امید پر دی جاتی ہے۔ ۔ دوران تعلیم اگر کوئی اچھا رشتہ آ جائے تو تعلیم چھڑا کر لڑکی کو بیاہ دینا بہتر سمجھا جاتا ہے میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اے لیولز کرنے کے بعد وکالت کی تعلیم حاصل کر رہی تھی کہ خالہ نے اپنے بیٹے کا پیغام دیا۔ مجھے تعلیم چھوٹنے کا افسوس تھا لیکن گھر والوں کی خوشی دیکھ کر میں بھی خوش ہو گئی۔

خالہ کا گھرانہ سالوں پہلے کینیڈا شفٹ ہو گیا تھا۔ اس رشتے کے آنے سے گھر بھر میں خوشی کی لہریں دوڑ گئیں۔ اپنے سگے لوگ، چہیتا بھانجا، کینیڈا کا شہری۔ اور کیا چاہیے بھلا۔ ماں نے مجھے گھرداری کے گن سکھانے شروع کردیئے۔

سال بھر بعد عدنان خالہ خالو کے ساتھ پاکستان آیا۔ دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ عدنان نے بہت ہی انجوائے کیا۔ ڈھیر ساری توجہ اور میرے گھر والوں کی طرف سے اتنی آؤ بھگت اور اہمیت دیکھ کر وہ حیران بھی ہوا اور خوش بھی۔ وہ مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ ہر کام، ہر چیز اس کی مرضی سے ہو رہی ہے۔ میرے گھر والے تو بچھے جا رہے ہں۔

شادی کے دو ہفتے بعد عدنان اور اس کے والدین واپس چلے گئے۔ عدنان نے بار بار کہا کہ بس جاتے ہی کاغذات تیار ہو جائیں گے ویزا لگ جائے گا اور تم آ جاؤ گی۔ میرے لئے یہ جدائی سخت تھی لیکن یہی سوچ کر کہ بس چند ہی دنوں کی بات ہے یہ بھی کٹ جائیں گے۔

دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں ڈھلتے گئے۔ تین سال گزر گئے۔ عید بقرہ عید پر یہاں سے کینیڈا عیدیاں جاتی رہیں۔ آخر کو داماد تھا لیکن وہاں سے کچھ نہ آیا۔ ”ارے بھئی یہاں سب چندا کی ہی تو ہے۔ آئے گی تو سب اس کے حوالے“ سنتی رہی اور یقین بھی کرتی گئی۔ تعلیم کا سلسہ دوبارہ اس لئے نہیں جوڑ سکی کہ جانے کب ویزا آجائے اور پھر سلسلہ منقطع کرنا پڑے۔

عدنان نے شروع میں تو خاصی پابندی سے فون کیے۔ فیس ٹائم پر باتیں بھی ہوتی رہیں۔ رفتہ رفتہ ان میں کمی آتی گئی۔ میں نے رابطہ برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن کبھی ٹائم ڈیفرنس اور کبھی ملازمت کے اوقات آڑے آنے لگے۔ تین سال کے بعد میرا ویزا لگ گیا۔ میں ٹورونٹو پہنچ گئی۔ ایرپورٹ پر خالہ خالو اور عدندن آئے۔ استقبال بھی اچھا ہوا۔ مجھے لگا صبر کا پھل مل گیا۔

گھر پہنچ کر عدنان نے سامان فلیٹ میں رکھا۔ میرا حال چال پوچھا اور گاڑی کی چابیاں اٹھائیں۔ میری آنکھوں میں حیرت پھیل گئی۔ ۔
” ڈیوٹی پر جا رہا ہوں۔ چند گھنٹے کی چھٹی پر آیا تھا“ خالہ بھی بولیں کہ کام سے جا رہا ہے آجائے گا جلدی۔
مجھے میرا کمرا دکھایا۔ میں نے کپڑے نکال کر الماری میں رکھے۔ عدنان کے تحفے بستر پر رکھ کر اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔
رات جانے وہ کب لوٹا۔ نیند میں محسوس کیا کہ کوئی آ کر پہلو میں لیٹا ”آ گئے“؟

”ہاں بہت تھکا ہوا ہوں۔ سو جاؤ اور مجھے بھی نیند لینے دو“ اگلی صبح ساس نے ناشتے کے بعد دو بیڈ رومز کے فلیٹ کی سیر کرائی۔ کچن دکھایا۔ باتھ روم ایک ہی تھا۔ عدنان سوتا رہا۔ بستر پر جو تحائف رکھے تھے وہ اب زمین پر پڑے تھے۔ وہ سو کر اٹھا اور ناشتے کے بعد چلا گیا۔

اور پھر یہ روز کا معمول ہو گیا۔ کبھی دن بھر غائب۔ کبھی آدھی رات تک اور پھر پوری پوری رات۔ میں حیران تھی۔ کئی بار بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں سے تلخ جواب آئے۔ ”کام سے جاتا ہوں۔ چھوڑ دوں کیا“؟

ساس بھی بیٹے کی طرفداری کرتیں۔ سسر خاموش تماشائی تھے۔ ماں کے گھر سے فون آتے۔ اور میں سب ٹھیک ہے کی تکرار کرتی رہی۔ ماں نے عدنان سے بات کرنا چاہی تو ”ڈیوٹی پر ہیں۔ گھر نہیں ہیں۔ رات دیر سے آئے سو رہے ہیں۔ شاور لے رہے ہیں“ جیسے بہانے بناتی رہی۔

ساس نے تیسرے ہی دن مجھے ساتھ لیا اور پاس کی گروسری مارکیٹ دکھائی۔ ”بڑے سودے تو عدنان لاتا ہے بس کبھی دودھ، ڈبل روٹی پھل چاہیے ہوں تو یہاں سے لے آنا“۔ اور پھر یہ ذمہ داری میری ہی ہو گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی گھر کے کام کاج کی بھی۔ یہ بھی گوارا لیکن جس کی خاطر گھر، کنبہ، دیس چھوڑ کر آئی ہوں وہ کہاں ہے؟ ایک دن وہ آیا تو بالا آخر بول پڑی۔ ”کہاں ہوتے ہو عدنان؟ یہ کیا وتیرہ ہے؟ کیا کوئی اور ہے تمہاری زندگی میں؟ “

ایسا لگا کہ عدنان خود بھی بات کھولنے کو بے چین تھا۔
”ہاں کوئی اور ہے۔ “ میرے جذبات اور خود داری پریہ بم گرا کو وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ساس نے بات سنبھالنی چاہی۔ ”ارے یہ سب وقتی باتیں ہیں۔ کسی آوارہ نے پھانس لیا معصوم کو۔ وہ ایسا نہیں ہے۔ بس تم صبر سے کام لو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ “

رونے دھونے سے مسئلہ حل ہو سکتا تو کر لیتی۔ کر کے دیکھ بھی لیا۔ ساس نے کہا ذرا بن سنوار کر رہا کرو۔ اس کے ساتھ محبت سے پیش آو۔ وہ خود ہی کھینچا چلا آئے گا۔ یہ بھی کرلیا۔ وہاں وہی لا تعلقی۔ پوچھا آخر کیوں؟ کہا ”تمہارے آنے میں اتنی دیر ہوئی مجھے کوئی چاہیے تھا۔ تنہائی کاٹتی تھی۔ میں مرد ہوں۔ میری ضروریات ہیں۔ “

اس نے مردانگی کا جھنڈا گاڑا۔ اور میں ایک عورت ہوں جس کے نہ خواب ہیں، نہ خواہشات اور نہ ہی ضروریات تنہائی نے تو مجھے بھی کاٹا بلکہ ڈسا لیکن میں تو سہہ گئی تھی اس امید پر کہ ایک دن وہ ہم ساتھ ہوں گے۔

” اچھا اب اسے چھوڑ دو اب تو میں آ گئی ہوں نا“ میں نے اپنی انا کا گلا گھونٹتے ہوئے کہا۔
” کیسے چھوڑ دوں؟ بیوی ہے وہ میری۔ اور مجھے اس سے محبت ہے“
میں ہل کر رہ گئی۔ بیوی؟ پھر میں کون ہوں؟ اپنی اتنی بے وقعتی دیکھ کر دل بھر آیا۔

گھر کا سودا سلف لانے کی اب پوری ذمہ داری میری تھی۔ خالہ کی ایک جاننے والی تھیں مسز خان کبھی کبھار آتی بھی تھیں اسی بلڈنگ کی دوسری طرف ان کا فلیٹ تھا۔ وہ مجھے ایسی دکانیں بھی لے گئیں جہاں قدرے سستی چیزیں مل جاتی ہیں کبھی کبھی ہم ساتھ بھی جانے لگے۔ گھر کے گھٹے ہوئے ماحول اور زندگی کی تلخیوں سے تنگ آ کر یہ جان پہچان بھی غنیمت لگی۔ خاتون سمجھدار تھیں۔ بہت کچھ جانتی بھی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3