کیا حکومت اور فوج ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں؟


اختیار کھو دینا بہت آسان ہے مگر واپس لینا مشکل۔ آج تک وطن عزیز کے اداروں پر سیاست میں مداخلت کرنے، عدالتوں کو ڈرانے اور دھمکانے، فارن پالیسی پر قبضہ کرنے جیسے الزامات لگا کرتے تھے۔ جس کی بنیاد پر کسی بھی خرابی میں مخصوص اداروں کے کردار سے متعلق مختلف کہانیاں گردش کرتیں۔ حیران کن طور پر اداروں نے خود کو بدلنے یا الزامات پر غور کرنے کی بجائے اسے دشمن کی سازش اور ففتھ جنریشن وار قرار دیا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ وطن عزیز میں آمریت نے جمہوریت کو بالغ نہیں ہونے دیا لہذا ہم ایک نظام نہیں پاسکے جس پر چل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے۔ مختلف افراد نے ساری قوم کے ارتقا کو روک دیا۔ تو کیا وہ دشمن کا ایجنٹ ہے یا کسی جنگ کا حصہ ہے؟ کسی کو بھی ایسا کہنے کا جواز ہی کیوں فراہم کیا گیا؟

ہم نے بہت سنا اداروں نے کچھ سبق سیکھا ہے، اب ملک میں آمریت نہیں آئے گی۔ آمریت کیا صرف مارشل لا ہی کو کہا جاتا ہے؟ یہ تو ایک سوچ کا نام ہے۔ قبضہ کرنے کی سوچ، دھونس اور دھمکی کی سوچ، عدم برداشت کی سوچ، دلیل اور مباحثے سے انحراف کی سوچ۔ ضروری نہیں کوئی با وردی شخص ہی آمر ہو۔ کسی گاؤں میں بیٹھا کوئی زمیندار بھی ان خصوصیات کا مالک ہوسکتا ہے۔ یہی نظریات کسی پروفیسر کے بھی ہوسکتے ہیں۔ اب اگر ملک میں علانیہ مارشل لا نہ بھی ہو مگر معاملات کو اس ہی سوچ اور طریقے کے ساتھ چلایا جا رہا ہو بلکہ فروغ بھی آمریت کے نظریے کو دیا جارہا ہو تو پھر ادارے بھلا کیسے بری الزمہ ہوسکتے ہیں؟ ایسے میں سوال اٹھانے والوں کو غدار کب تک کہا جا سکتا ہے؟

پہلے معاملہ مختلف تھا کہ سیاست، میڈیا، عدلیہ اور خارجہ پالیسی پر فوج کا قبضہ سمجھا جاتا تھا۔ ان معاملات سے ایک عام پاکستانی کا واسطہ کم پڑتا ہے۔ سب ان پیچیدگیوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ لہذا حقائق کو پراپیگنڈے یا حب الوطنی کے تاثر سے مسخ کیا جا سکتا ہے۔ معیشت مگر سب کا سانجھا مسئلہ ہے۔ روپے اور روٹی کی زبان سب کو سمجھ میں آتی ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر ملکی معیشت زوال کا شکار ہے۔ ایسی صورتحال میں فوج کے سربراہ کا معیشت سے جڑے معاملات کے ساتھ خود کو منسلک کرلینا، میٹنگز کرنا اور کمیٹیوں میں شرکت کرنا ادارے کے ساخت کے لیے انتہائی تباہ کن ہوسکتا ہے۔

یہ احساس کہ معیشت میں بگاڑ کی ایک وجہ فوج بھی ہے عام آدمی کے جذبات کو کسی بھی نہج تک لے جا سکتا ہے۔ ایسے میں کس کس کا منہ بند کروایا جا سکے گا؟ خارجہ پالیسی آج تک ہم فوج سے لے کر پارلیمنٹ کے سپرد نہیں کرسکے تھے نہ جانے اب معاشی پالیسی کو واپس عوامی نمائندوں تک منتقل ہونے میں کتنا وقت درکار ہوگا اور اس باعث ہم کس قدر نقصان اٹھائیں گے۔

وزیر ریلوے جناب شیخ رشید نے بیان دیا ہے کہ فوج اور حکومت ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ جو کہ جمہوری فلسفے کی سراسر نفی ہے۔ بلکہ یہ کسی بھی قسم کے نظام میں ممکن نہیں۔ اگر پاکستان کو ایک گاڑی تصور کرلیا جائے تو بھی اس میں ایک پہیہ عدلیہ، ایک مقننہ، ایک میڈیا اور ایک انتظامیہ ہوگی۔ انتظامیہ سے مراد فوج ہر گز نہیں ہے۔ اور اس گاڑی کا ڈرائیور ایک ہی ہوگا۔ وہ یا تو فوج ہو سکتی ہے یا پھر منتخب حکومت۔ اگر فوج گاڑی چلائے گی تو ہم اسے مارشل لا کہیں گے اور اگر منتخب حکومت کے پاس اختیارات ہوں گے تو جمہوریت۔

اس وقت ریاست کے ایک ستون صحافت کا یہ عالم ہے کہ بڑے نام خاموش کروا دیے گئے ہیں اور بہت سے اداروں میں برطرفیاں جاری ہیں۔ عدلیہ کی مثال سامنے رکھیں تو چیف جسٹس صاحب کہہ چکے کہ احتساب کا عمل شفاف نہیں۔ اور پھر واٹس ایپ پر ججز کے تبادلوں، فیصلوں اور ججز کی ویڈیوز نے عدلیہ کی ساخت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ پارلیمنٹ غیر فعال ہے، ڈپٹی اسپیکر کے حلقے میں بے ضابطگیوں پر انہیں ہٹایا جاچکا اور اسپیکر منتخب ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ قانون سازی صدارتی آرڈینینس کے ذریعے کرنے کی بھونڈی کوشش کی جارہی ہے۔ انتظامیہ کا یہ عالم ہے کہ افسران فائلوں پر دستخط نہیں کررہے لہذا نظام مفلوج ہورہا ہے۔

جمہوری گاڑی کے چاروں پہیہے پنکچر کردیے جائیں تو گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ پھر چاہے ڈرائیور ایک آمر ہو یا منتخب نمائندہ۔ لہذا ایسے میں شفاف انتخابات کے علاوہ دیگر تجربات مزید مسائل کا سبب بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).