گُڈ مولوی، بیڈ مولوی


جمیعت علمائے اسلام کبھی بھی پاکستان کے لبرل طبقے کی پسندیدہ جماعت نہیں رہی۔ مفتی محمود صاحب کی وفات کے بعد جب سے مولانا فضل الرحمن نے کارزار سیاست میں قدم رکھا، بینظیر سے لے کر نواز شریف اور مشرف سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک، کم و بیش تمام حکومتوں کا وہ ’اٹوٹ انگ‘ ہی رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود مولانا کا ذکرِ خیر ہمیشہ کراہت و کڑواہٹ سے ہوتا رہا۔ روشن خیال طبقے کی نظر میں مولانا دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کے نمائندہ راہنماء رہے جن کو دیکھ کر انہیں پاکستان کے ہزاروں مدرسوں میں پڑھنے والے لاکھوں طلباء یاد آ جاتے تھے جو بقول ان کے شدت پسند بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔

افغان طالبان سے روابط، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی حمایت کے علاوہ مولانا کے دامن پر خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک کے چھینٹے بھی پڑتے رہے۔ مشرف کی آمریت کے دوران خیبرپختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کے اقتدار کے دوران شریعت بل پاس کروانے پر مولانا و ہمنوا، بائیں بازو کی طرف سے چلائے جانے والے نشتروں کا بطور خاص نشانہ رہے۔ نہ صرف مولانا خود، بلکہ ان کے سیاسی ساتھی بھی روشن خیال طبقے کے ہدف ملامت رہے۔

مثال کے طور پر، بیویوں کے ساتھ ہلکے پھلکے تشدد والے مولانا شیرانی صاحب کا تعلق مولانا کی ہی جماعت سے تھا۔ وکی لیکس نے جس مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے امریکیوں کو وزیراعظم بنانے کی شرط پر اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا، وہ مجموعی طور پر مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ لیکن یہ سب زمانہ ماضی بعید اور صیغہ مذکر واحد غائب کی باتیں ہیں۔

چبھیس جولائی سنہ دو ہزار اٹھارہ کی صبح مولانا نیند سے بیدار ہوئے تو قدرتِ حق سے ان پر عیاں ہوا کہ ملک میں اصل حکومت اسٹیبلشمنٹ کی ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ عوام کے حقِ رائے دہی کو غصب کرتے ہوئے الیکشن میں دھاندلی کرتی ہے اور اپنی مرضی کے حکمران ملک پر مسلط کرتی ہے۔ اپنے پچیس تیس سالہ سیاسی کریر میں پہلی دفعہ مولانا کو کشف ہوا کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے والے نہیں بلکہ ووٹ گننے والے حکومتیں بناتے ہیں۔ انہیں پہلی دفعہ خیال آیا کہ عوام کے کچھ حقوق بھی ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے فرائض بھی ہوتے ہیں۔

پچیس سالہ خوابِ غفلت سے جاگنے ہر مولانا کو معلوم پڑا کہ قوم کو حقوق دلانے کی جدوجہد ان کے نازک کندھوں پر آن پڑی ہے اور کراچی کے ساحل سے لے کر گلگت بلتستان کی چوٹیوں تک مائیں منتظر نگاہوں سے ان کی راہ تک رہی ہیں۔ یہ سب دلچسپ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ یہ ہے کہ روشن خیال طبقہ کو اپنا وہ مسیحا مل گیا جس کا انہیں قیام پاکستان سے انتظار تھا۔ مولانا کی شکل میں ایک ایسا جمہوری لیڈر اب دستیاب ہے جو کہ ووٹ کو عزت دلا کر ہی رہے گا۔

پاسباں مل گئے صنم خانے کو کعبے سے۔ مدرسوں میں درسِ نظامی پڑھنے والے طلباء کے ہاتھوں جمہوری جدوجہد کا آخری معرکہ لڑا جائے گا۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) کی زیرِ قیادت پاکستان کی اقلیتیں اپنے حقوق حاصل کریں گی اور حافظ حمداللہ کے توسط سے بیویاں اپنے متعلقہ شوہروں سے حقوق زوجیت وصول کریں گی۔ بس کوئی وقت آیا چاہتا ہے کہ جب یہ جوانمرد، عمران حکومت کی اس گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دے کر گرا دے گا اور ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھے گا جہاں نہ صرف یہ کہ ووٹ کی حرمت، انسانی جان کی حرمت کے برابر ہو گی بلکہ قادیانی اور دیوبندی ایک ہی کٹورے سے پانی پیویں گے۔

ایک مذہبی شدت پسند کے ہاتھوں گولی کھانے والے احسن اقبال، دوسرے شدت پسند کے ہاتھوں ماں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے بلاول اور سبین محمود جیسے بیشمار نگینے گنوانے والے روشن خیالوں کی خدمت میں، دوسری جنگِ عظیم کے حوالے سے مشہور ایک لطیفے کی معرفت، عرض ہے کہ جمہوری جدوجہد اور انسانی حقوق کی بات اگر مولانا تک آ ہی گئی ہے، تو صلح کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).