میرے چند سخت گیر اور مہربان اساتذہ


ہفتے کے روزمیں تقریبا چار بجے دفتر سے گھر پہنچا۔ کھانا کھا رہا تھا کہ ٹی وی پر اساتذہ کے عالمی دن سے متعلق خبر چلی۔ جسے سن کرپاس بیٹھی میری بیوی گویا ہوئیں: ذرا سوچیں اگر استاد نہ ہوتے تو آج ہم کہاں اور کیا ہوتے؟

بیگم صاحبہ کی بات سن کر میری آنکھوں کے سامنے اپنی طالب علمی کے زمانے کے کئی اساتذہ کے چہرے گھوم گئے۔ تھوڑی دیر تک ان ہستیوں کے متعلق ہی سوچتا رہا۔ جنہیں میں نے اپنی عملی زندگی میں کبھی شاید بہت زیادہ اہمیت نہیں دی۔ ان کے متعلق سوچا اور نہ کبھی جاننے کی کوشش کی کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہوں گے؟

نصف بہتر (بیٹر ہاف) کے استادوں سے متعلق تبصرے کے باعث سوچوں کے دریچے کھلتے چلے گئے۔ اور سکول کالج اور یو نی ورسٹی کے زمانے کی کئی ایسی شخصیات یاد آئیں جن کی تربیت اور رہنمائی نے میری زندگی پر گھرے نقوش چھوڑے ہیں۔ انہی شخصیات میں سے چند ایک کے متعلق کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

مس بہراور

جب سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو والدہ صاحبہ نے گھر کے قریب ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کروا دیا۔ امداد پبلک سکول کی وائس پرنسپل مس بہراور تھیں۔ فربہ جسامت اور گوری رنگت کی مالک۔ تاہم سرخ و سفید چہرے پر کبھی مسکراہٹ دیکھنے کو نہیں ملی۔ ہر وقت غصے میں رہتیں اور ہم بچوں کو جی بھر کر مارتی تھیں۔

ہم بچے ان سے مار کھانے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں انہیں مختلف ناموں سے پکار کر تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ معذرت چاہتا ہوں وہ نام کچھ ایسے ہیں کہ یہاں بیان کرنا ممکن نہیں۔ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔

میں نے ABC اور اے فار ایپل (A for apple) جیسے ابتدائی اسباق انہی سے سیکھے۔ آج سوچتا ہوں شاید (بلکہ یقیناً) انہی سے پڑھی انگریزی کی بدولت میں اپنی عملی زندگی میں دس سال سے زیادہ عرصے تک ملک کے تین بڑے انگریزی اخبارات اور بیرونی دنیا کے جرائد اور ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو سکا۔

نثار عادل صاحب

امداد پبلک سکول سے چار جماعتیں کرنے کے بعد مجھے پشاور کے قصہ خوانی بازار سے متصل محلہ خداداد میں واقع ایک سرکاری سکول میں داخل کروایا گیا۔ یہاں چھٹی جماعت میں ہمارے کلاس ماسٹر نثار عادل صاحب تھے۔ وہ ہمیں انگریزی پڑھاتے۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ زبردستی پڑھاتے تھے۔

سخت سردیوں میں چند منٹ لیٹ آنے پر ٹھٹھرتے ہاتھوں پر ڈنڈے مارنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ہوم ورک نہ کرنے کی سزا بھی ہاتھوں پر ڈنڈے۔ اور کلاس میں شور اور شرارت کی سزا بھی ڈنڈے۔

ڈنڈوں کے علاوہ نثار عادل صاحب نہایت نفیس انسان تھے۔ سکول کے دوسرے اساتذہ کے برعکس ہمیشہ بڑے ویل ڈریسڈ رہتے۔ رنگوں کا انتخاب بھی خوب کرتے تھے۔ انگریزی بھی اچھی بولتے تھے۔

انہیں اپنی کلاس کو سجانے کا بھی بڑا خبط رہتا تھا۔ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے کلاس روم میں رنگ کرواتے اور دیواروں پر تصاویر بنواتے تھے۔

صلاح الدّین صاحب

خداداد سکول کے بعد میرا داخلہ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 2 میں ہوا۔ اس وقت یہ پشاور کے سرکاری سکولوں میں ایک اچھا سکول تھا۔ صلاح الدّین صاحب ہمارے کلاس ماسٹر تھے۔ اور ہمیں میتھس (حساب) پڑھاتے تھے۔

مجھے حساب کے مضمون سے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ پہاڑے کبھی یاد نہیں ہوتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے کسی نہ کسی طرح جمع اور تفریق کرنا سکھا دیا تھا۔

لیکن صلاح الدّین صاحب سے پڑھنا شروع کیا تو میتھس اچھا لگنے لگا۔ اس مضمون کی نئی نئی جہتیں میرے اوپر کھلنے لگیں۔ جیسے دماغ میں نئے نئے دروازے کھل رہے ہو۔ پہاڑے بھی یاد ہونے لگے اور ماں کی سکھائی ہوئی جمع تفریق تو جیسے بچوں کا کھیل بن گئی۔

صلاح الدّین صاحب تختہ سیاہ پر سفید چاک کی مدد سے میتھس کا سوال حل کرنا شروع کرتے۔ سوال کا ہر دوسرا مرحلہ مکمل کر کے پوری کلاس کا چکر لگاتے۔ اور بہ آواز بلند پوچھتے ”سمجھ آئی؟“

ان کی ہینڈ رائٹنگ بہت خوبصورت تھی۔ اور میتھس کا سوال کرتے ہوئے پورے تختہ سیاہ کو استعمال کرتے۔ نہایت نفاست اور ترتیب سے سیدھی سیدھی لائنوں میں لکھا کرتے تھے۔

میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ صلاح الدّین صاحب کو میتھس کی پوری کتاب ازبر ہے۔ آپ سوال بولیں اور وہ آپ کو ایکسر سائز نمبر اور بعض اوقات صفحے کا نمبر بھی بتا دیتے تھے۔ انہیں بڑی اچھی طرح یاد تھا کہ کون سا سوال بورڈ کے کس سال کے امتحان میں آیا تھا۔

صلاح الدّین صاحب کی وجہ سے مجھے میتھس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ جس کے باعث مجھے فزکس میں بھی مدد ملی۔ میں آج کل اپنا جو مختصر دستخط کرتا ہوں وہ وہی ہے جو صلاح الدّین صاحب اپنے initials کے طور پر کیا کرتے تھے۔

عبدالرحمٰن صاحب

سکول نمبر 2 میں ہی عبدالرحٰمن صاحب ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے۔ گھنگریالے بال، سفید رنگت اور مسکراہٹ سے بھرا چہرہ۔ نہایت ہی شفیق انسان۔ غصہ تو انہیں جیسے کبھی آتا ہی نہیں تھا۔ وہ کبھی کبھی اپنے گھر پر ختم قرآن کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اور مجھ سمیت دس بارہ لڑکوں کو ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ ہم ایک ایک سپارہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے تھے۔

ان سے سیکھے ہوئے انگریزی کے ٹینسز، اکٹیو وائس اینڈ پیسو وائس اورڈائرکٹ اینڈ ان ڈائرکٹ سپیچز کا میں کثرت سے استعمال کرتا ہوں۔ ان کی کلاس میں مجھے ہمیشہ لطف آتا تھا۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے مجھے کلاس کا مانیٹر بھی مقرر کیا تھا۔

خٹک صاحب

ایف ایس سی کے لیے پشاور صدر میں ایف جی ڈگری کالج فار بوائز میں داخلہ لیا۔ ایف جی کالج کی ہر دلعزیز شخصیت خٹک صاحب تھے۔ ان کا پورا نام مجھے یاد نہیں۔ شاید بہت کم لوگوں کو ان کا پورا نام معلوم تھا۔ مجرد زندگی گزار رہے تھے۔ کالج کی عمارت میں ہی ایک کمرے میں رہتے تھے۔ اور لڑکوں کے ساتھ دوستوں کی طرح گپ شپ لگاتے تھے۔ بلکہ بعض ایک منچلے تو ان کے ساتھ بدتمیزی پر بھی اتر آتے تھے۔ لیکن مجال جو خٹک صاحب برا مان جائیں۔ عجیب درویش صفت انسان تھے۔

ان کی شخصیت کی خاص بات لنڈے کے کپڑے تھے۔ ہمیشہ لنڈے سے خریدے ہوئے رنگ برنگے کپڑے زیب تن کرتے تھے۔ آوٹ آف فیشن اور بھڑکیلے رنگوں والی شرٹس اور ٹائیاں اور عجیب و غریب ڈیزائن کے جوتے پہنا کرتے تھے۔

نوشہرہ کے خٹک پختون ہونے کے باوجود خٹک صاحب کے منہ میں ہر وقت پان ہوتا تھا۔ پڑھانے کے دوران بھی پان چباتے رہتے۔ اور اکثر پان کی پیک پھینکنے کے لیے کلاس روم سے باہر کو دوڑ لگایا کرتے تھے۔ خٹک صاحب ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے۔ اور وہ واقعی انگریزی کے ماسٹر تھے۔

ان چند ناموں کے علاوہ بھی کئی دوسرے اساتذہ تھے جن کی بدولت آج میں ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہوں۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے راجہ صاحب، خلیل الرحمان صاحب، جان صاحب، فیض محمود صاحب، جان محمد صاحب، فیاض صاحب، شفیق صاحب، شاہد صاحب، کرم اللہ صاحب جیسے نام بھی یاد آئے لیکن مضمون کی طوالت کے ڈر سے ان کا تفصیلی نہیں کر پا رہا۔

بہت سے اساتذہ ایسے بھی ہیں جن کی مجھے شکلیں تو یاد ہیں۔ نام یاد نہیں۔ ان خواتین و حضرات کا بھی میری زندگی پر بہت بڑا اثر ہے۔ بلکہ ان سب کا میرے اوپر قرض ہے۔

اس تحریر کا مقصد استاد کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ جومیرے جیسے کئی ناتراشیدہ پتھروں کی اس خوبصورتی سے تراش خراش کرتے ہیں کہ سنگ ہیرا بن جاتا ہے۔ اور اپنی چمک دمک سے نہ صرف دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے بلکہ دنیا کی چکاچوندمیں ان ہاتھوں کو بھی بھول جاتا ہے جو اسے تراشتے ہیں۔ اور بقول شاعر

میرے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).