مہذب معاشرہ


انسان جس معاشرے میں رہتا ہے۔ اس پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو اس کی شخصیت سے نمایاں نظرآتے ہیں۔ مگر ایسا شخص کس معاشرے کی عکاسی کرے گا جو اپنی معنویت کھو چکا ہو۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں آ ج ایسے ایسے دلخراش واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ سرشرم سے جھک جاتا ہے۔ دن بدن پاکستانی معاشرہ زوال پذیرہوتا جارہا ہے۔ لا قانونیت بڑھتی چلی جا رہی ہے اورانسانوں کے دلوں سے خوف خداختم ہو گیاہے۔ آج معاشرہ معاشرتی، سماجی و معاشی طبقہ بند ی، فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی، لسا نیا ت اور علاقائی تعصب کی آگ میں جل رہا ہے۔

وڈیرے، فوجی جرنیل، سردار، سرمایہ داراور حکمران طبقہ اپنے بینک یلنس میں اضافہ کرنے، جاگیروں میں برہوتری۔ مالیاتی غلبہ اور اقتدار کی ہوس میں مصروف ہیں۔ ایسے لوگوں نے پاکستان کی خوبصورت تہذیب و تمدن اور ثقافت کی تعمیر و ترقی کی راہیں بند کر دی ہیں۔ پیار و محبت اوررقص وموسیقی کی جگہ نفرتوں اور خانہ جنگیوں نے لے لی ہے۔ بھوک و افلاس کا دور دورہ ہے۔ عام لوگوں میں برتری اور کمتری کا احساس پیدا کر دیا گیا ہے۔

معاشرتی، سماجی، معاشی اور قانونی نا انصافیوں نے تشدد کی راہیں ہموار کر دی ہیں اوراخلاقی قدریں تباہ و برباد ہو کررہ گئی ہیں۔ بین المذاہب میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ عجیب گھٹن کا شکار ہوگیا ہے۔ مدینہ کی راست کے چرچے بس سننے کی حد تک رہ گئے ہیں۔ جس معاشرے کے محافظ خود رہزن بن جائیں، وہاں مہذب معاشرہ اور انسانی قدریں کیسے قائم رہ سکتی ہیں۔ مذہب ایک مہذب معاشرے کی تشکیل میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے مگراسکے پیروکاروں نے مذہب کو فوبیا بنا کررکھ دیا ہے۔

تہذیب و تمدن، رسم ورواج اور ادب و ثقافت پیار و محبت کو فروغ دینے میں مدد دیتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ا س میں تبدیلی آنا معمول کا حصہ ہے۔ برصغیر پاک ہند میں رہنے والے مختلف مذاہب سے منسلک لوگوں کی اکثریت کے آباؤ اجداد کا تعلق ہندومذہب سے تھا تو ان پر ہندؤانہ رسم و رواج، تہذیب و تمدن کا رنگ آنا لازمی تھا۔ لیکن مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود لوگ پیار اور محبت سے رہتے تھے اور ایک دوسرے کا احساس کرتے تھے۔

مذہبی بنیاد پرستوں نے ہندؤوں کی رسم و رواج اور ایک دوسرے کی ثقافت اور ادب کو اپنانے کے خلاف احتجاجی تحریکوں کو جاری رکھا۔ پاک و ہند میں مذاہب اور مسلک میں موجود بنیاد پرستوں نے مہذب معاشرہ بنا نے کی بجائے متعصب اور فرقہ واریت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے مذاہب میں ہم آہنگی کی بجائے نفرت اور تعصب نے لے لی۔ دوقومی نظریے کی پاداش میں اور مذہب کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان کا بٹورا ہوا۔

بہت سے مسلمان ہندوستان میں رہ گئے۔ سندھ اور بلوچستان میں رہنے والے ہندووں نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔ اسی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مسیحیوں کی تاریخ تقریباً دو صدیوں پر محیط ہو گی۔ جن کا اپنا نہ ادب ہے نہ ہی اپنی رسم و رواج و ثقافت ہے۔ وہ جس مذہب سے کنورٹ ہو کر آئے ان پراسی مذہب کی چھاپ ہے۔ اور ان میں اسی مذہب یعنی سکھ، ہندو، مسلم کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستانی سماج آج کی نسبت قدر ے بہتر تھا۔ تب مذہبی جنونیت اتنی درندہ صفت نہ تھی۔ پھر ایک سازش کے تحت نصابی سلیبس میں نفرت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والا مواد شامل کیا گیا جس نے بین المذاہب کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ گلوبل ملاپ سے آہستہ آہستہ مشرقی اقدار اور رویوں میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئیں۔ آج معاشرہ طرح طرح کی موذی عفریتوں کا شکار ہو چکا ہے۔ معاشرے میں باہمی ہم آہنگی، محبت اوربھائی چارے کی جگہ قومیت اور مذہب نے لی ہے۔

ہم دوسروں کوتو اسلامو فوبیاکے لئے موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں مگر اپنے مذہبی فوبیا کا علاج نہیں کر تے۔ مذہبی تنظیموں نے عوام کی مذہبی رہنمائی چھوڑ کر انتہا پسندی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ چونکہ مذہب رسم و رواج اور ثقافت کی نفی کرتا ہے۔ لہذامذہبی رہنماؤں کی غفلت اور شدت پسندی نے نوجوانوں نسل کو شدت پسند بنا دیا ہے۔ وہ دن بدن بے راہ روی کا شکار ہوتی گئی جس کی وجہ سے لاقانونیت میں اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ عوام کے محافظ بھی وردی کی آڑ میں کالے بھیڑیئے بن گئے۔

کمسن بچوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ پورا معاشرہ جنسی و نفسیاتی بیماریوں مبتلا ہو گیا ہے۔ جرم اور کرپشن نے معاشرے کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب معاشرہ مثبت یا منفی طرز عمل اپنا تا ہے تو اس سے رویوں میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ مذہب کو مہذب معاشرے کی تعمیر میں بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے اور دنیا کے مذاہب امن پسندی کا درس دیتے ہیں۔ مہذب نہ بننے کے حقائق کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

معاشرے کی تشکیل حکمرانوں کے اندازِ حکمرانی کی محتاج نہیں ہوتی۔ معاشرہ منفی یا مثبت کوئی بھی روش اپناتا ہے تو وہ معاشرتی اکائیوں کی مدد سے پاتا ہے۔ عوام، خواص، ارباب اختیار، سرمایہ دار، مزدور سب معاشرے کی اکائیاں شمار ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی اگر یہ کہے کہ معاشرہ حکمران بناتے ہیں، یا یہ کہے کہ صرف عوام ہی معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں تو سراسر غلط ہے۔ اسی طرح اکیلا سرمایہ دار یا مزدور بھی معاشرے کی تشکیل نہیں کرپاتا۔ تمام اکائیاں ایک ربط میں آپس میں جڑ جاتی ہیں تو معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ سب کو بلا امتیاز انصاف ملے۔ مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا ملے۔ احساس برتری اور احساس کمتری ختم کی جائے، غربت کے خاتمے کی تدبیریں کی جائیں۔ جو مہذب معاشرے کی تشکیل نو میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ صدیاں گزر جانے کے باجود آج تک ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ ایک ہی خطے میں صدیوں سے اکٹھے رہنے کی وجہ سے مختلف مذاہب کے لوگوں میں ادب وثقافت اور رسم و رواج میں مماثلت تو پائی جاتی ہے مگر تا حیات ان میں مذہبی ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکی۔ جو وقت کا اہم تقاضا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).