”گُڈ مارننگ پاکستان“۔ روشن پاکستان کا زبردست چہرہ


یہ 2017 ء کی بات ہے جب ہم نے گرمیوں کی چھٹیوں میں ”ہمارا خواب، پڑھا لکھا چکوال“ نامی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور چکوال آرٹس کونسل میں پہلے سالانہ کیرئیر کونسلنگ سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس روز چکوال آرٹس کونسل کے دو اور مہمانوں نے ہماری اس کاوش کو سراہنے کے لیے ہمارا ساتھ دیا۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر حسن زی تھے۔ ڈاکٹر حسن زی کا تعلق چکوال کے گاؤں تترال سے ہے اور اس وقت امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ جب ہمارا سیمینار ختم ہوا تو ان کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی جس میں انہوں نے اپنے آنے والے نئے پراجیکٹ کی کہانی اور حال احوال بتلائے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ امریکہ میں رہ کر پاکستان کا روشن چہرہ دنیا بھر کو دکھانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو پلا بڑھا تو امریکہ میں مگر اسے اپنی مٹی کی محبت واپس پاکستان لے آئی۔ دراصل اس کے پاکستان آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ماں باپ اور عمومی میڈیا نے پاکستان کے بارے میں کوئی اچھے تاثرات قائم نہیں کر رکھے تھے۔ اس کہانی کو انہوں نے انتہائی شاندار طریقے سے چکوال کے مضافات میں فلمایا، مقامی لوگوں کو فلم میں کاسٹ کیا، سکرپٹ بھی لکھا اور ہدایات بھی خود ہی دیں۔ وہ اس سے پہلے ہالی ووڈ میں تین فلموں پہ کام کر چکے ہیں۔ ایوارڈز بھی جیتے ہیں۔ اسی فلم ”گُڈ مارننگ پاکستان“ نے بھی دنیا بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے ہیں۔

پاکستان کے روشن چہرے اور تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے یہ فلم حالیہ دور کی پاکستان کی سب سے بہترین فلم قرار دی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر حسن زی اگرچہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں مگر انہوں نے پاکستانی معاشرے کے متنوع رنگوں کو فلم کے اس میڈیم کا زبردست استعمال کرتے ہوئے اجاگر کیا ہے۔ اس دور میں بننے والی دیگر فلموں کے پروڈیوسروں اور ہدایتکاروں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ لگا کر یورپ اور دیگر جدید ترین مقامات پہ شوٹنگ کی جائے مگر میں دنگ رہ گیا یہ فلم دیکھ کر کہ جس کی ساری شوٹنگ ایک دیہات میں ہوئی، چکوال کے مختلف خوبصورت ترین علاقے جن میں کلرکہار، چواسیدن شاہ، بھون، تترال اور اس کے مضافات شامل ہیں، کو بھرپور انداز میں بہترین سنیمیٹوگرافی کے ذریعے فلمایا گیا۔

مزارات اور دربار جو خاص کر آج کل کے پاکستان کے مضافاتی علاقوں کا کلچر ہیں، خصوصی طور پر وہاں سین سیٹ کیے گئے۔ سرسبز وشاداب کھیت اور کھلیان، چکوال کی وادیاں اور پہاڑ، دورافتادہ جنگل، لہلہاتی فصلیں، گڈرئیے اور چرواہے، پرانے بیلوں والے کنویں، مقامی لوگوں کے طور طریقے اور خاص کر ٹھیٹھ چکوالی لہجے کا تڑکہ اس فلم کو بار بار دیکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ وہی عمومی رویے جن میں لڑکی پیدا ہونے پہ پریشانی و اضطراب، خواتین کا نا محرموں سے بات کرنے پر گھریلو جھگڑے، بچوں کی تعلیم کے لیے مقامی سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے لوگوں کی جدوجہد، بات بات پہ گاؤں کے جھگڑوں کا کسی ایک بارعب شخصیت سے مناسب اور بروقت حل نکلوانا حتی کہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کی بنیادی چھچھوری وجوہات کو خاص کر عکسبند کیا گیا ہے۔

پرامن اور خوف و دہشتگردی سے پاک فضا میں ایک نوجوان امریکہ کی بجائے یہیں اپنے گاؤں میں رہنے اور وسائل پیدا کرنے پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایسے کمالات ہیں جنہیں دیکھ کر ایک پاکستانی کی اپنے وطن سے محبت اور اپنی ثقافت اور کلچر سے بے پایاں جُڑت کھل کر سامنے آتی ہے۔ ایک مقام پر فلمساز نے کہانی گاؤں سے نکالی اور چکوال شہر لے گیا، پھر وہاں پہلوان ریوڑی، پرانا بابِ چکوال، نان بائیوں کے عارضی ٹھکانے، مونگ پھلی کے ٹھیلے، پھولوں کی دکانیں، رکشے اور دیگر مقامی ذرائع آمدورفت کو خوب فوکس کیا۔ میں یقین سے کہتا ہوں آپ اس فلم کو دیکھیں گے تو اس کے سحر میں جکڑ جائیں گے۔

ہیرو اور ہیروئن کے طور پر نئے کرداروں کو سامنے لایا گیا اور دونوں نے بہت کامیابی سے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ کافی جگہوں پر ڈبنگ کے مسائل دیکھنے کو ملے اور آواز کی ٹون بھی اچانک بدلتی دیکھی مگر میرا خیال ہے کہ یہ تکنیکی مسائل کہانی اور منظرنامے سے توجہ ہٹانے کا سبب نہیں بنتے۔ سب سے زیادہ جاندار اور دلچسپ کردار کپتان صاحب (دادا ابو) ، کلثوم (دادی اماں ) اور دل بہار (ملازم کھسرا) کے تھے۔ کپتان صاحب کا کردار شبیر مرزا، کلثوم کا کردار نغمہ اور دل بہار کا کردار سعید انور نے نبھایا۔

کپتان صاحب کی شکل میں چکوال کے روایتی دیہاتوں میں فوجی ریٹائرڈ لوگوں کی زندگی اور وطن سے وابستگی کو اجاگر کیا گیا، یہ بڑا ہی پُرلطف کردار تھا، کپتان صاحب نے سارے ڈائیلاگز بڑے جاندار اور بارعب انداز میں بولے اور چہرے کے تاثرات ہمیشہ کہانی کے ماحول کے عین مطابق رہے۔ میں یہ سب باتیں اس لیے بھی لکھ رہا ہوں کہ جب اس فلم کے رائٹر اور ہدایتکار سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا تھا کہ ان سب کرداروں میں مقامی لوگ بھی شامل ہیں، اس لیے ان لوگوں کا فلم کی ڈیمانڈ اور میرٹ پر پورا اترنا بھی یقینا ہدایتکار کی بڑی کامیابی ہے۔

دل بہار کی صورت میں ہمارے معاشرے میں موجود کھُسروں کی سماجی و معاشی پژمردگی دکھائی گئی ہے، یہ ایک مزاحیہ کردار ہے جو جا بجا آپ کے چہروں پہ زبردست تبسم لے آتا ہے، بہت ہی معصوم اور بھولا بھالا، مددگار، بے ضرر اور قابلِ ہمدردی۔ ایک جگہ یہ بھی دکھایا کہ کس طرح باہر سے آئے لڑکے پر خاندان والے ڈورے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقامی حجام کی انٹری دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کا حجام ”سَینا نائی“ یاد آ گیا جس کے ساتھ ہمارے دادا ابو کا ماہانہ یا سالانہ معاہدہ ہوا کرتا تھا اور ہر دفعہ ہمارے بال وہ ایسے کاٹتا جیسے بھیڑ یا دنبے کی اون کاٹی جاتی ہے۔

ہیرو کا نام عمر (علی رضا) جبکہ ہیروئن کا نام دِیا (میرب) ہے جس کا تعلق جھگیوں میں رہنے والے کسی قبیلہ سے ہے۔ وہ ایک ناآسودہ روح کی صورت میں درباروں، مزاروں اور بیابانوں میں بنجارن بنی گھومتی ہے اور معاشرے میں ظلم کا شکار ہونے والی عورتوں کی مدد کرتی ہے۔ دل بہار اور دِیا نے خوبصورت رقص بھی پیش کیے۔ فلمساز نے مہدی حسن، میڈم نور جہان، نصرت فتح علی خان، صابری میاں قوال، راحت فتح علی خان اور چند دوسرے پاکستانی عظیم گلوکاروں اور موسیقاروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے گائے گئے لازوال گانوں، دھنوں اور قوالیوں کو بھی شامل کیا۔ الغرض قصہ مختصر یہ فلم ”گُڈ مارننگ پاکستان“ پوری دنیا میں پاکستانی معاشرے اور ثقافت کی نمائندہ فلم کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے اور یقیناً جب اس کی نمائش یورپ اور امریکہ میں مختلف جگہوں پر ہوئی ہو گی تو وہاں کے لوگوں نے حیرت سے اپنی ہی انگلیاں دانتوں میں دبائی ہوں گی۔

اوپر بیان کی گئی سب باتیں ایک عام فہم تبصرہ ہے مگر فلم پر تنقید اس کی تکنیکی جزئیات پر بات کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ فلم میں بارہا کیمرہ کی رف موومنٹ سے بڑی الجھن ہوئی، اضطراب یا پریشانی کی کیفیت دکھانے کے لیے کیمرہ کو ٹِلٹ یا مسلسل شیک کیا جاتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی کئی مقامات پر غیر ضروری شیکنگ ہوئی، اکثر فریمز ٹیڑھے ہوتے رہے حالانکہ مجھے ان چیزوں کی بالکل بھی امید نہ تھی، ڈاکٹر حسن زی عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہیں اور ہالی ووڈ کے کئی پراجیکٹ بھی کر چکے ہیں مگر شاید محدود ترین وسائل اور دیہاتی بے قاعدہ شوٹنگ سائٹس کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔

اس کے علاوہ چار پانچ جگہوں پر کٹس بھی ایسے یک دم لگے ہیں کہ پچھلی بات کٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لائٹنگ کے مسائل بھی بہت جگہوں پر نظر آئے، خاص کر گانوں میں بدلتے مناظر کے دوران لائٹنگ کے ایشوز کا سامنا رہا۔ ایک جگہ پر موسیقی بھی یک دم روکنے سے یوں لگا جیسے بیٹس خراب ہوئی ہوں۔ چند ڈرون شاٹس بھی لیے گئے جو بہت شاندار رہے، اکثر ضرورت کے باوجود ڈولی کا استعمال شاید نہیں کیا جس کی وجہ سے کیمرہ گھماتے ہوئے شیک ہوتا بھی محسوس ہوتا ہے اور خاص کر چکوال کے سیاحتی و تاریخی مقامات کو ڈرون سے دکھاتے ہوئے کیمرہ کی ریزولیشن کافی حد تک کم یا غیر مبہم رہی جس سے ان مناظر کو واضح دیکھنے کی حسرت رہتی ہے۔

ہاں البتہ سنیمیٹوگرافی کی کیا بات ہے، بہت عمدہ اور اعلی درجے کی سنیمیٹوگرافی جا بجا دیکھنے کو ملتی ہے۔ ضرورت کے مطابق ہارر بھی بہت بہتر اور کامیاب طریقے سے پیدا کیا گیا۔ بہرحال ”گُڈ ماننگ پاکستان“ ان چند تکنیکی خامیوں کے باوجود محدود ترین وسائل اور کم ترین بجٹ کے ساتھ بننے والی ایک شاندار اور اپنے مقصد کے حوالے سے کامیاب ترین فلم ہے۔ اس فلم کو ہر حال میں پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر نمائش کے لیے پیش ہونا چاہیے مگر ڈاکٹر حسن زی کے مستقل امریکہ میں ہونے اور مقامی سنیما مالکان و دیگر اربابِ اختیاران سے تعلقات اور مذاکرات نہ ہونے کے سبب ایسا ہونا مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).