مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے خلاف حکومت کے جارحانہ بیانات


خاموش سیاسی منظر نامے میں یک طرفہ ٹریفک دونوں ٹریکوں پر اس طرح چل رہی ہے کہ کسی رول اور قانون کا کوئی پاس ہے نہ پرواہ۔ طاقت کے مراکز کی اندھی آشیر آباد نے سیاسی ماحول کو ایسا سنسان اور سناٹے دار بنارکھا ہے کہ اٹھنے و الی کوئی بھی آواز یک لحظہ پہچان لی جاتی ہے اور فورا دھر لی جاتی ہے گویا شہاب ثاقب تیار بیٹھے ہوں۔ آواز کے پہچاننے والے اداروں سے لے کر پکڑنے اور کیفر کردار تک پہچانے کا ایسا انتظام ہے کہ جو کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔ یہ انتظام قانونی شکل میں ہے، اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرسکتا۔ حکومت، عدالت، میڈیا اور ادارے سبھی ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ جب پلیٹ اور فارم دونوں ایک ہوں تو سب اوکے کی رپورٹیں ہی آتی ہیں اگر چہ حالات ابتری کی انتہاء تک پہنچ چکے ہوں۔

ایسے ماحول میں ایک سیاست دان جس چیز کو غلط سمجھ رہا ہو اس کو نہ صرف غلط کہہ رہا ہو بلکہ اس کے خلاف مضبو ط آواز بن کر کھڑا ہو جائے تو اس کا یہ جرات مندانہ اقدام یقینا بہت بڑا اقدام ہے جس کو جس قدر بھی سراہا جائے کم ہے۔ عزیمت کی راہ کا انتخاب، نان کمیٹڈ رویہ، مضبو ط و آہنی عزم اور غیر متزلل قدموں کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کا آگے بڑھنا بہت سے حلقوں کے لئے یقینا حیرت انگیز ہے۔ مولانا نے اپنی ایک سالہ محنت سے ایسی اتھل پتھل پیدا کردی ہے کہ سیاسی منظر نامے میں اب ان کو پہلے والی جگہ پر رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔

مجھے مولانا فضل الرحمن کی تعریف و توصیف کے پل نہیں باندھنے لیکن جو واقعی صورتحال ہے اور اس کو بیان کرنے سے جس قدر بخل سے کام لیا جار ہا ہے اس کی درست عکاسی ضرور ی ہے۔

میں یہ تو نہیں کہتا کہ عمران خان کی سیاست ختم ہوچکی ہے لیکن انہوں نے جس قدر وعدے کیے ان کو پورا کرنے میں وہ ابھی تک ناکام رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اگلے سالوں میں خان صاحب کچھ کر دکھائیں لیکن ابھی تک وہ ملکی اور عالمی ہر دو جگہ پر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اگر وہ کچھ کرنا چاہتے بھی ہیں تو ان کی ٹیم میں اس قدر پوٹینشل ہے؟ الیکٹیبلز کے نام پر خان صاحب کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا اور حکومت میں آنے کے لئے انہوں نے جس طرح ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے، اس سے ان کی پوزیشن اور ساخت بری طرح متاثر ہوئی۔ پی ٹی آئی اب تک کوئی ایسا جماعتی نظم یا عصبیت نہیں پیدا کرسکی جو مستقبل میں بھی اس کے سرواؤ کرنے میں مدد کرسکے۔

ان سب چیزوں کے باوجود کیا مولانا فضل الرحمن کوآزادی مارچ کرنا چاہیے؟ جمہوری حکومت کے عدم استحکام اور مدت پوری کیے بغیر اس کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کسی بھی کوشش کے میں حق میں نہیں ہوں۔ مولانا فضل الرحمن کے مارچ کو بھی اسی نظر سے دیکھتاہوں جس طرح خان صاحب کے دھرنے کو دیکھتا تھا۔ لیکن جمہوری حکومت کے آنے سے لے کر کام کرنے کے طریقے کسی میں بھی ادنی درجہ کی جمہوریت نظر نہیں آتی۔ سبھی جمہوری پارٹیوں اور مخالف سیاستدانوں کو ایسی یرغمالی صورتحال میں رکھنا کہ حکومت جو چاہے کرتی رہے جمہوریت نہیں آمریت ہے۔ ملک میں جمہوریت کو جس طرح ڈی ٹریک کیا گیا ہے اور طاقت کے ایوان جس قدر کھلا کھیل رہے ہیں ان کو چیلنج کرنے والی کسی آواز کی ضرورت تھی کہ نہیں؟

ان سب باتوں سے ہٹ کر میرے خیال میں زیادہ اہم یہ ہے کہ اس مارچ کے ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟

یہ بات تو واضح نظر آرہا ہے اورمولانا بھی اس سے بخوبی واقف ہیں کہ اس مارچ میں دیگر جماعتیں ان کا ساتھ نہیں دیں گی۔ پیپلز پارٹی نے تو واضح انکار کردیاہے، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بھی کوئی خاطر خواہ ریسپانس نہیں ہے اگر ہو بھی تو یہ مارچ اصلا جمعیت کی طرف سے ہوگا ان کی طرف سے نہیں ہوگا۔ جمعیت علماء اکیلی اس مارچ کو کامیاب کر پائے گی؟ مولانا کا کارکن پرجوش اور پر عزم نظر آرہا ہے، مولانا بھی بہت متحرک نظر آرہے ہیں، مولانا کے جن نعروں کے لے کے آزادی مارچ کرنے جارہے ہیں وہ بھی خاصے اٹریکٹو اور عوامی ہیں۔

مدارس، علماء اور دینی طبقہ کا گزشتہ پندرہ بیس سال سے جس انداز سے استحصال کیا جارہا ہے وہ بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی طرف جاسکتے ہیں۔ مذہبی طبقے کو کوئی بڑی تحریک چلائے عرصہ دراز ہی گزر چکا ہے ان کی نسل نو پرانی تحریکوں کی رومانوی داستانیں سنتی ہے، ان کی تربیت تعلیمی کے ساتھ تحریکی انداز میں کی جاتی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عرصہ دراز سے چلے ہوئے یہ اوزار اب کس قدر کارآمد ہیں، اداروں کے مسلسل کاری واروں کے بعد ان میں تحریک چلانے کا کوئی دم خم باقی رہا ہے کہ نہیں؟

مولانا کی کامیابی کے چانسز کہ حکومت چلی جائے یہ بہت مشکل نظر آتاہے، لیکن حکومت نہ بھی جائے مولانا اگر طاقت کا شاندار مظاہرہ کردیتے ہیں تو طاقت کے مراکز بھی سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ مولانا کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے اور آئندہ کی سیاست میں مولانا اچھی پوزیشن پر ہوں گے اور فرنٹ پر کھیلیں گے۔

اگر بالفرض حکومت گرجاتی ہے تو ملک میں انتشار و انارکی مزید بڑھ جائے گی اور ملک شاید اس قدر عدم استحکام و انارکی کا متحمل نہ ہو۔ بہرحال جو بھی ہو یہ توحالات بتائیں گے لیکن حکومت کی جانب سے اس مارچ کے حوالے سے جس قدرجارحانہ بیانا ت دیے جارہے ہیں اور ادارے اس مارچ کو ابھی سے جس غیر جمہوری طریقے سے ٹیکل کررہے ہیں یہ انتہائی نامناسب ہے اور طاقت کے بادل چھٹنے پر اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).