ایجوکیٹر کی سیٹیں اور کمپیوٹر سائنس


شنید ہے کے محکمہِ تعلیم حکومت پنجاب نے راولپنڈی اور میانوالی کے اضلاع میں ایجوکیٹر کی سیٹوں کا ا علان کر دیا ہے۔

اور اس دفعہ مستقبل کے اساتذہ کا انتخاب این ٹی ایس ( (NTSنہیں بلکہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کرے گا۔ چلیں یہ بات تو خوش آئند ہے کہ امیدوار این ٹی ایس کے پرچے میں بائیولوجی کے حصے میں اسلامیات کے سوالوں کے جواب نہیں دیں گے۔ لیکن اطلاع یہ بھی ہے کہ سکیل چودہ (BPS۔ 14 ) پہ ای ایس ای سائنس اور آرٹس کی سیٹوں پر کمپیوٹر سائنس کے امیدوار اپلائی ہی نہیں کر سکتے۔ سنتے ہیں کہ دنیا کمپیوٹر کی طرف جا رہی ہے لیکن محکمہ تعلیم کے اربابِ اختیار، اللہ جانے کیا سوچ کے چھوٹی کلاس کے طلبہ کو کمپیوٹر سائنس پڑھے اساتذہ سے دور رکھنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

میرا تعلق رحیم یار خان سے ہے اور صرف اس تحصیل کے اندر دو یونیورسٹیاں ہر سال، صبح اور شام کے پروگرام میں ایم سی ایس (MCS) اور بی ایس سی ایس (BSCS) کے تقریباً چار سو سے بھی زیادہ طلبا و طالبات کو ڈگری دے رہی ہیں۔ دو عدد سرکاری کالج بھی ہر سال کم و بیش اتنے ہی طلبہ و طالبات کوجبکہ کم و بیش چھ پرائیوٹ کالجز بھی ایم سی ایس کے پروگرام میں ہر سال تقریباِِ تین سو ڈگریاں دیتے ہیں۔ رحیم یار خان تو دور پورے جنوبی پنجاب کے اندر سافٹ ویئر انجیرنگ کی مارکیٹ ہمارے سامنے ہے اورامیدوار ای ایس ای پربھی اپلائی نہیں کر سکتے تو پھر ایسی خبروں کی امید رکیں کے نوجوان سافٹ ویئر انجینئر نے ’شوارما پوائنٹ‘ کھول لیا۔

دوسری طرف دیکھیں تو حکومت پنجاب پورے محکمہ تعلیم کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے مصمم ارادے میں نظر آ ٓرہی ہے۔ یونین کونسل کے سروے میں بچوں کا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ کرنا ہو یا ایم ای اے (MEA) کے پرفارمے کا ڈیٹا اندراج کرنا، ایچ آر ایم ایس (HRMS) پراساتذہ کا ڈیٹا ویری فائی کرنا ہو یا ایف بی آر (FBR) پر ٹیکس ریٹرن کا کام ”سکول کی ٹیبلٹ میں طلبا کی حاضری، داخلہ یا ایل این ڈی (LND) کا کام، الیکشن کی ڈیوٹی ہو یا گندم کے گوداموں پر گندم کی بوریوں کی گنتی، ہر جگہ پر آئی ٹی ٹیچر کی خدمات ہی (زبردستی) وصولی جاتی ہیں اور طرفہ تماشا یہ کہ سکول کے سٹاف کے خراب موبائل کی درستی، ان کے لیپ ٹاب میں انسٹالیشن یا ان کے گھر کے کمپیوٹر کی ونڈو ایک آئی ٹی ٹیچر ہی نے کرنی ہے لیکن ایک کمپیوٹر پاس امیدوار ای ایس ای پر اپلائی نہیں کر سکتا؟

حضورِ والا! دنیا ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مستقبل قریب میں مریخ پر بستیاں بسائی جا رہی ہیں، بلیک ہول کی تصاویر لی جا چکُی ہیں، تھری ڈی پرنٹر اپنے تجرباتی دور سے گزر چکے ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اپنی منازل طے کر رہی ہے، فزکس، کمیسٹری اورتمام شعبہ جات میں کمپیوٹر کے ساتھ اشتراکی ریسرچ جاری ہے۔ ٹوٹے ہوئے تارے، مہ کامل بننے کے لئے ستاروں کو حیراں کرتے ہوئے خلا نوردی کر رہے ہیں جب کہ ہم شاید بلی کے خوف سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے گزشتہ تہذیب میں جا کہ موجودہ زمانے کی ترقی سے پریشان ہوئے بغیر سکون سے سونا چاہتے ہیں۔ ہمارا ارتقائی سفر شاید پیچھے کی طرف دگنا سپیڈ سے جاری ہے۔ ایسے نظام تعلیم کے بعد ہم پانی پر گاڑی چلانے والے تجربات کی ہی امید کر سکتے ہیں۔ اختر عثمان صاحب کے اس شعر پہ بات ختم کروں گا

جدید عہد میں الٹا ہے ارتقا کا سفر

عجب نہیں ہے پھر انسان جانور بن جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).