خیبر پختونخوا میں سیاحت کا متنازع ’نیا قانون‘


خیبر پختونخوا، جنگلات

حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے خیبر پختونخوا ٹورازم ایکٹ 2019 کو اکثریت سے منظور کر لیا ہے جس کے بعد صوبائی ٹورازم بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

اس قانون میں ٹورازم بورڈ کو اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ محکمہ جنگلات اور محکمہ وائلڈ لائف کے محفوظ قرار دیے گئے جنگلات اور نیشنل پارکس کی حیثیت ختم کر کے ان پر سیاحتی زون قائم کر کے ان کو سیاحوں کے لیے کھلا علاقہ قرار دے سکتی ہے۔

ماہرین نے اس قانون پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو پاکستان کی ماحولیات کے لیے زہر قاتل اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے مگر خیبر پختونخوا حکومت کے وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ اس ایکٹ سے ہر کسی کو ماحول تباہ کرنے کی آزادی ہوگی بلکہ اس میں کچھ پابندیاں بھی ہیں جن کے تحت کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ وہ جنگلات کو چھیڑ سکے۔

خیبر پختونخوا ٹورازم ایکٹ 2019 میں کیا ہے؟َ

خیبر پختونخوا ٹورازم ایکٹ 2019 صوبائی اسمبلی میں سیاحت کے صوبائی وزیر محمد عاطف نے پیش کیا، جس کی اپوزیشن نے پہلے مخالفت کی اور بعد ازاں اس میں مختلف ترامیم پیش کیں، مگر اسمبلی نے ان ترامیم کو مسترد کیا اور ایکٹ کو اکثریت سے پاس کردیا۔

اب یہ ایکٹ دستخط کے لیے گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کے پاس بھجا جائے گا جس کے بعد یہ نافذ العمل ہوجائے گا۔

اس ایکٹ کے تحت صوبائی اسٹریجٹی بورڈ، کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس بورڈ کو وسیع پیمانے پر اختیارات دیے گئے ہیں جس میں اس کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ محکمہ جنگلات اور محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے محفوظ قرار دیے گئے جنگلات، نیشنل پارک، گیم ایریاز وغیرہ کے کسی بھی حصے کو سیاحتی زون قرار دے کر سیاحوں کے لیے کھلا علاقہ قرار دے سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

’انڈین حملے سے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے‘

‘بلین ٹری سونامی منصوبے میں بے قاعدگیوں کا انکشاف’

کراچی کا ساحل سرنجوں اور طبی فضلے کی آماجگاہ

اسٹریٹجی بورڈ اس کے لیے صوبائی حکومت کو سفارش کرے گا اور صوبائی حکومت ایک نوٹس جاری کر کے مذکورہ علاقے کو سیاحتی زون قرار دے کر سیاحوں کے لیے کھلا علاقہ قرار دے سکے گی۔

خیبر پختونخوا ٹورازم ایکٹ 2019 کے ذریعے سے خیبر پختونخوا فارسٹ ایکٹ 2002 اور وائلڈ لائف ایکٹ 2015 میں موجود کئی دفعات کا خاتمہ کردیا ہے جس میں محکمہ جنگلات اور محکمہ وائلڈ لائف پر یہ قانونی ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ نیشنل پارک، جنگلات کی حفاظت کریں گے۔

خیبر پختونخوا ٹورازم ایکٹ 2019 پر اعتراضات

اس ایکٹ کی منظوری سے قبل رائے طلب کرنے پر محکمہ جنگلات، ماحولیات اور جنگلی حیات نے بھی اس ایکٹ پر شدید اعتراضات اٹھائے تھے۔

سرکاری خط، جس کی کاپی بی بی سی کے پاس موجود ہے، میں کہا گیا تھا کہ محفوظ جنگلات اور نیشنل پارکس کا قیام کم از کم 17 بین الاقوامی معاہدوں کے نتیجے میں عمل میں لایا گیا ہے، جس کے لیے مختلف اوقات میں بین الاقوامی برادری نے نباتات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے امداد اور تعاون بھی فراہم کیا ہے۔

خط کے مطابق علاقے میں سیاحتی سرگرمیوں کی بڑی وجہ محفوظ قرار دیے گئے نیشنل پارک اور جنگلات ہیں جہاں پر سیاحوں، محققین اور طالب علموں کو آنے جانے سے نہیں روکا جاتا تاہم یہاں پر تعمیرات کی اجازت نہیں ہے۔ مگر کسی بھی موقع پر قانون میں تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاحتی زون قرار دے کر عمارتوں، ہوٹلوں اور ریستورانوں کا راستہ کھولا گیا تو اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے جس کا بعد ازاں کوئی بھی ازالہ نہیں ہوگا۔

خط میں کہا گیا خیبر پختونخوا ٹورازم ایکٹ 2019 کی کئی دفعات محکمہ جنگلات، محکمہ وائلڈ لائف اور محکمہ ماحولیات کے پیشہ ورانہ کاموں میں مداخلت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے متصادم ہے۔ ان دفعات کے لاگو ہونے کے بعد متعلقہ محکموں کے لیے اپنے پیشہ ورانہ فرائض یعنی جنگلات، جنگلی حیات اور ماحول کا تحفظ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

خیبر پختونخوا، جنگلات

ماحولیاتی کارکنان کا کیا کہنا ہے؟

ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی کارکن عافیہ سلام کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کی جانب سے عجلت میں کی جانے والی قانونی سازی شکوک و شہبات سے پُر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور ملک بھر میں محفوظ قرار دیے گئے جنگلات اور نیشنل پارکس کے پیچھے ایک لمبی جدوجہد ہے اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ محفوظ علاقوں میں سے کچھ کو سیاحتی زون قرار دے کر وہاں پر عمارتیں وغیرہ تعمیر کر کے معشیت کو ترقی دے گی تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے کیونکہ سیاحت سمیت کوئی بھی صنعت قدرتی وسائل کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

ممتاز قانون دان اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والے ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ پریشان کن ہے کہ کس طرح کوئی حکومت محفوظ قرار دیے گئے جنگلات اور نیشنل پارکس وغیرہ کی حیثیت کو ختم کرنے کا اختیار کسی بھی محکمے اور ادارے کو دے سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے علاوہ دنیا بھر کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ کوئی بھی حکومت سرکاری جنگلات، زمینوں اور نیشنل پارکس کی مالک نہیں ہوتی بلکہ اس کی حیثیت صرف اور صرف ایک نگہبان کی ہوتی ہے اور اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود وسائل کو محفوظ انداز میں آنے والی نسلوں کو منتقل کردے۔

ان کا کہنا تھا کہ صاف ماحول بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے جس کو کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا، چنانچہ اس قانون کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کا کیا کہنا ہے؟

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا ٹورازم ایکٹ 2019 کے مقاصد بڑے واضح ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ پوری دنیا آئے اور ہمارے سیاحتی مقامات دیکھے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جہاں پر جنگلات اور جنگلی حیات ہیں ان مقامات کو نہیں چھیڑا جا رہا۔ ‘جیسے کے ہمارے پاس شانگلہ ہے، شانگلہ میں بہت زیادہ جگہیں ہیں۔ جنگل نہیں کاٹنا پڑ رہا۔ اور اس سے پورا خیبر پختونخوا اٹھ جائے گا اور ہماری معیشت بہت بہتر ہوجائے گی۔’

ان کا کہنا تھا کہ یہ نیا قانون بین الاقوامی معاہدوں اور بلین ٹری سونامی کے منصوبے کے بھی خلاف نہیں ہے۔ ‘جنگل کو تو ہم چھو بھی نہیں رہے۔ صرف تھوڑا سا حصہ ہوگا، مثال کے طور پر [کوئی جگہ ہے] وہاں پر صرف دو درخت ہیں چھوٹے چھوٹے، وہ [راستے میں] آ رہے ہیں اور اب ایک قانون بنا ہوا ہے کہ نہیں کاٹ سکتے، جس کی وجہ سے مسائل آرہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت مالم جبہ سے یخ تنگی شانگلہ کے علاقے کے لیے ایک روڈ بنا رہی ہے جو مالم جبہ سے صرف 15 منٹ کا راستہ ہوگا۔ ‘اگر یخ تنگی روایتی راستے سے جائیں تو وہ ڈھائی سے تین گھنٹے کا دشوار گزار راستہ ہوگا مگر جب مالم جبہ سے روڈ بنے گا تو یہ 15 سے 20 منٹ کا ہوگا۔ اس میں کوئی درخت بھی نہیں کٹ رہا، پہلے سے راستہ موجود ہے مگر پختہ نہیں ہے۔’

شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اسی طرح کی جگہیں اور بھی موجود ہیں اور خیبر پختونخوا ٹوارزم ایکٹ 2019 سے اس طرح کی سہولتیں ملیں گی کہ وہاں پر سیاحت کو ترقی دی جا سکے۔

‘اسی طرح شانگلہ میں پیر سر وہ جگہ ہے جہاں پر سکندر اعظم رکے تھے اور وہاں پر اس کے باقاعدہ نشانات ہیں۔ یہ کچھ چیزیں ہیں جہاں پر اگر ہم انفراسٹرکچر ٹھیک کرلیں تو یہ نہ صرف سیاحت کے لیے بہترین جگہیں ہوسکتی ہیں بلکہ ملکی و غیر ملکی لوگ تحقیق کرنے آئیں گے۔’

خیبر پختونخوا، جنگلات

صوبہ خیبر پختونخوا کے جنگلات

سرکاری ذرائع کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کا کل رقبہ 74 لاکھ 50 ہزار ایکڑ ہے جس میں سے 15 لاکھ 10 ہزار ایکڑ کا رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ ان جنگلات کو خیبر پختونخوا فارسٹ ایکٹ 2002 کے تحت مختلف زمروں میں تقسیم کر کے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ ان جنگلات کے انتظامی امور محکمہ جنگلات کے سپرد ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں نباتات اور جنگی حیات کے تحفظ کے لیے 196,649 ایکڑ رقبے پر چھ نیشنل پارک ایبٹ آباد، چترال، مانسہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم ہیں، جبکہ 8605 ایکڑ رقبہ پر آٹھ وائلڈ لائف پارک تعمیر کیے گئے ہیں۔

ان سب پارکس کا انتظام خیبر پختونخوا وائلڈلائف ایکٹ 2015 کے تحت چلایا جاتا ہے۔ ان سب میں عام افراد، سیاحوں، طالب علموں، تحقیق کرنے والوں کو آنے جانے کی اجازت ہے ماسوائے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم وائلڈ لائف سینکچوریز کے۔

خیبر پختونخوا فارسٹ ایکٹ 2002 میں تمام اقسام کے جنگلات میں پیدوار، آمدن وغیرہ کے حوالے سے قوانین مختلف ہیں مگر ان سب میں ایک قانون مشترک ہے کہ ان پر تعمیراتی سرگرمیاں نہیں ہوسکتی ہیں اور یہاں جنگلات کے علاوہ کوئی اور سرگرمی ممکن نہیں ہے۔ تاہم اب خیبر پختونخوا ٹورازم ایکٹ 2019 میں اس قانون کو تبدیل کردیا گیا ہے۔

لینڈ کور اٹلس آف پاکستان کے مطابق صنوبری یا نمی والے قیمتی ترین جنگلات کا بڑا حصہ بھی صوبہ خیبر پختونخوا میں ہے، جو کل پاکستان کا 52فیصد ہے اور 15 لاکھ 10 ہزار ایکڑ میں سے 11 لاکھ 42 ہزار ایکڑ پر واقع ہیں۔

حالیہ عرصہ میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والی قبائلی اضلاع کے تین لاکھ 26 ہزار ایکڑ حصے یعنی کُل 15 فیصد رقبے پر صنوبری یا نمی والے جنگلات واقع ہے جن میں دیار، بیاڑ جیسے قیمتی درخت پائے جاتے ہیں۔

محکمہ ماحولیات صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق اسٹنٹ ڈائریکٹر نعمان رشید کے مطابق موسمی تبدیلیوں کے علاوہ پانی کی سطح کو برابر رکھنے کے لیے صنوبری یا نمی والے جنگلات کا بہت بڑا کردار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘خاص طور پر جب گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہوں تو دیار اور بیاڑ پر مشتمل جنگلات پانی کو جذب کرتے ہیں اور اس کے پھیلاؤ کو روکتے ہیں۔’

ڈاکٹر نعمان رشید کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر یہ جنگلات ختم ہوجائیں تو پھر ان کو دوبارہ لگانا عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ ‘حد سے زیادہ انسانی مداخلت اور تعمیرات ان جنگلات کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp