کنٹرول لائن عبور کرنے کے لیے آزادی مارچ کے راستے میں رکاوٹیں


پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے آزادی مارچ کو لائن آف کنٹرول عبور کرنے سے روک دیا گیا ہے ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رسک کی بنیاد پر انہیں آگے جانے نہیں دیا جا سکتا۔

مقامی انتظامیہ نے لائن آف کنٹرول چکھوٹی جانے والی مرکزی شاہرائے سرینگر کو جسکول کے مقام سے چھ کلومیٹر قبل پر کٹینیر اور خار دار تاریں لگا کر بند کیا ہے۔ تاہم جے کے ایل ایف کے کارکنان نے اب اس مقام پر دھرنا دے رکھا ہے۔

مقامی انتظامیہ کے درمیان اب تک ہونے والے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں اور جسکول کے مقام پر دھرنا جاری ہے۔

چکوٹھی کی جانب جاتے ہوئے جسکول کے اس مقام پر ایک جانب دریائے جہلم بہتا ہے اور دوسری جانب پہاڑ ہے۔ مظاہرین کے پاس واپسی کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ واپس چناری کی جائیں۔

مزید پڑھیے

’کنٹرول لائن پر جانے کے خواہش مند میری کال کا انتظار کریں‘

پاکستان میں کشمیر کی خودمختاری کی بات کون کرتا ہے؟

لائن آف کنٹرول پر دھرنا کیوں جاری ہے؟

اس مارچ کا آغاز جمعے کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع بھمبر سے ہوا تھا جو کوٹلی، راولاکوٹ اور دھیرکوٹ سے ہوتا ہوا رات گئے مظفرآباد پہنچا، جہاں سے مارچ کے شرکا ایل او سی کے چکوٹھی چیک پوائنٹ کی جانب بڑھے۔

مارچ کے شرکا لائن آف کنٹرول چکھوٹی جانے اور ایل او سی کراس کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر کمشنر مظفرآباد امتیاز چوہدری کے مطابق سکیورٹی رسکے کی بنیاد پر انہیں آگے جانے نہیں دیا جا سکتا۔

مارچ میں لگ بھگ پانچ ہزار افراد موجود ہیں جن کو روکنے کے لیے پندرہ سو اہلکار تعینات ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پایا جانے والا کرب سمجھ سکتے ہیں مگر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پار کرنا انڈین بیانیے کو مضبوط کرنے کے مترادف ہو گا۔

جس مقام، جسکول پر اس مارچ کو روکا گیا ہے وہاں 27 برس قبل یعنی سنہ 1992 میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے اس وقت جب ایل او سی کو کراس کرنے کے لیے کوشش کی تھی تو اسی مقام پر انھیں روکا گیا تھا اور اس مقام پر پولیس کے ساتھ تصادم ہوا۔

اس سے قبل سنہ 1991 میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ایل او سی کراس کرنے کی کال دی تھی اور گیارہ افراد نے ایل او سی کراس کی تھی جن میں تین افراد انڈین فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے مبصر مشن نے بھی آج لائن آف کنٹرول چکھوٹی سیکٹر کا دورہ کیا۔

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1180356675032817664

خیال رہے کہ دو روز قبل خودمختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا آزادی مارچ شروع ہوا تھا۔ یہ مارچ چناری کے مقام پر پہنچا تو مارچ کے منتظمین نےایک جسلے کا انعقاد کیا۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول چکھوٹی کی جانب مارچ اور ایل او سی عبور کرنے کے بارے میں لائحہ عمل طہ کرنے کے بعد یہاں سے آگے نکلیں گے۔

آزادی مارچ میں موجود سلمی طارق جن کا تعلق ڈسٹکرکٹ کوٹلی سے ہے اور وہ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 11 قراردادیں اقوام متحدہ میں موجود ہیں اور کوئی بھی قرارداد اور قانون کشمیریوں کو لائن اف کنٹرول عبور کرنے سے نہیں روکتا۔

انھوں نے کہا کہ یہ کشمیری عوام کی آواز ہے کہ جسے ایل او سی کا نام دیا گیا ہے وہ دراصل ایک خونی لکیر ہے۔ ایک جانب انڈیا نے فوجیں کھڑی کی ہوئی ہیں اور دوسری جانب پاکستان نے ہم۔ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ہماری مزاحمت کے راستے میں نہ آئیں۔ ہم عوام ہیں۔ ہم اس جانب جانا چاہ رہے ہیں ہم کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہے۔ کم ازکم کشمیریوں کے لیے لائن آف کنٹرول کو کھولا جائے۔

مارچ کی سربراہی کرنے والے جے کے ایل ایف رہنما ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ یہ مارچ ایل او سی کی دوسری جانب رہنے والے ان کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہے جو ‘ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود انڈین فوج کے محاصرے میں ہیں۔’

دھرنے سے قبل اس مارچ میں شریک افراد نے جب میرپور سے تیتری نوٹ کی جانب مارچ کیا تو شرکا کو کوٹلی سرساوہ اور ہجیرہ کے بعد داورندری کے مقام پر پولیس نے روکا جس سے دونوں کے درمیان شدید تصادم ہوا اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp