افغانستان میں جنگ اورخشک سالی کے باعث کمسن بچیوں کی شادیوں کا بڑھتا رحجان


نازنین

نازنین کی جب منگنی ہوئی اس وقت اس کی عمر پانچ برس اور شادی کے وقت عمر دس برس تھی۔ وہ اب اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے

جب نازنین کی منگنی ہوئی تو وہ پانچ سال کی تھیں۔ 10 سال کی عمر کو پہنچنے تک وہ ایک 12 سالہ لڑکے کی بیوی بن چکی تھیں۔ ان کے کمسن شوہر کے خاندان نے انھیں چھ سال قبل 3500 ڈالر میں خریدا تھا۔

نازنین کے والدین نے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے پیسے جمع کرنے کے لیے انھیں فروخت کر دیا تھا۔

مغربی افغانستان میں ہرات کے قریب شھرکِ سبز پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی نازنین کی والدہ کہتی ہیں، ’میرا بیٹا ناقابلِ برداشت تکلیف میں تھا۔ جب میں نے اس کے چہرے کو دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ مجھے پیسے لے لینے چاہییں۔ نازنین کے والد ہچکچاہٹ کے شکار تھے مگر میں نے انھیں قائل کیا کہ وہ ہماری بیٹی کے بدلے پیسے قبول کر لیں۔‘

نازنین کے والدین کے سات بچے ہیں، یعنی تین بیٹیاں اور چار بیٹے۔ وہ کبھی بھی سکول نہیں گئے اور لکھ اور پڑھ نہیں سکتے۔ ان کے پاس نہ ہی پیسے ہیں اور نہ ہی ملازمتیں۔

بی بی سی نے ان سے اپنی بیٹی فروخت کرنے کے فیصلے کے بارے میں بات کی ہے۔

پچھتاوا

نازنین کے والد کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا چار سال کی عمر سے ہی مرگی کے مرض کا شکار تھا اور ہمارے پاس اس کے علاج کے لیے کوئی پیسے نہیں تھے۔

نازنین

خشک سالی کے باعث افغانستان کے بہت سے دیہات ویران ہو چکے ہیں

اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش میں اس خاندان نے اپنی بیٹی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

ان کی والدہ کہتی ہیں کہ ’میں نے پیسے لے لیے اور اپنی سب سے بڑی اولاد نازنین کو شادی کے لیے دے دیا۔ میں نے اس پیسے کو اپنے بیٹے کے علاج کے لیے استعمال کیا مگر نہ ہی میرا بیٹا صحت یاب ہوا اور نہ ہی میں اپنی بیٹی کو ساتھ رکھ سکی۔‘

یہ بھی پڑھیے

‘ہر سات سیکنڈ میں 15 سال سے کم عمر کی ایک بچی بیاہ دی جاتی ہے’

کم عمری کی شادی کے خلاف آگاہی کا انوکھا انداز

’وہ تین ہفتے تک میرا ریپ کرتا رہا‘

کم عمری کی شادیوں کے واقعات میں نمایاں کمی: یونیسیف

ان کے والد نے بیچ میں لقمہ دیا: ’اگر کوئی اپنے چھوٹے سے بچے کو اس طرح فروخت کر دے تو ظاہر ہے پچھتاوا تو ہوگا۔ مجھے بھی پچھتاوا ہے مگر اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

کم عمری کی شادیاں

افغانستان میں شادی کی قانونی عمر لڑکیوں کے لیے 16 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال ہے مگر کئی شادیاں کم عمری میں ہو جاتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے چلڈرن فنڈ (یونیسیف) کی جانب سے 2018 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 35 فیصد افغان لڑکیاں 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل جبکہ نو فیصد 15 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل بیاہ دی جاتی ہیں۔

نازنین

اس کے علاوہ نائیجر ان ممالک میں ہے جہاں حالات اس سے زیادہ خراب ہیں۔ وہاں پر 76 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل کر دی جاتی ہے۔ حالیہ سالوں میں زبردست اقتصادی ترقی کرنے والے ملک بنگلہ دیش میں اس رپورٹ کے مطابق یہ شرح 59 فیصد ہے۔

’دلہن کی قیمت‘

افغانستان کئی دہائیوں سے جنگ زدہ رہا ہے اور حال ہی میں ایک شدید قحط نے یہاں کے رہنے والوں کے لیے سخت مشکلات پیدا کی ہیں۔ چنانچہ زیادہ تر خاندانوں کے پاس ملازمتیں نہیں ہیں اور انھیں شدید غربت کا سامنا ہے۔

نازنین کی والدہ کہتی ہیں: ’ہمارے قبائلی رواج میں بچوں کے چھوٹے ہونے پر بھی ان کی شادی طے کر دینا کوئی شجرِ ممنوعہ نہیں۔ مگر زیادہ تر اپنی لڑکیوں کی شادی کرتے تب ہی ہیں جب وہ 18 سال کی ہو جائیں۔‘

اسلامی قانون کے مطابق دلہا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شادی ہونے پر دلہن کو ایک تحفہ دے۔ مہر کہلانے والا یہ تحفہ عموماً پیسوں کی شکل میں ہوتا ہے اور یہ لڑکی کی ملکیت ہوتا ہے۔

مگر مہر کے ساتھ ساتھ دلہن کے والد یا ان کے سب سے بڑے بھائی شادی سے قبل دلہا کے خاندان سے ’دلہن کی قیمت‘ بھی مانگ اور حاصل کر سکتے ہیں۔

نازنین

افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک نامی تنظیم کے ساتھ وابستہ محقق فیضل مظہری کہتے ہیں کہ ’دلہن کی قیمت‘ ایک افغان رواج ہے جس کی اسلامی قانون میں کوئی سند نہیں ملتی۔

دلہن کی قیمت کتنے لی جائے گی، اس کا انحصار کئی عوامل بشمول خاندان کی دولت، اور لڑکی کی خوبصورتی، تعلیم اور عمر پر ہوتا ہے۔ اور یہ قیمت کچھ سو ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

ایک ایسا ملک جس میں فی کس سالانہ آمدنی 600 ڈالر سے کم ہے، وہاں کچھ خاندانوں کے لیے ’دلہن کی قیمت‘ ایک ’گیم چینجر‘ ہو سکتی ہے۔’

قحط

نازنین کا خاندان افغانستان کے زیادہ تر حصے کو 2018 میں اپنی لپیٹ میں لے لینے والے قحط سے متاثر ہوا تھا۔

ان کے والد کہتے ہیں کہ ’ہم زرعی زمینوں میں کام کر رہے تھے اور ہمارے پاس کچھ مویشی بھی تھے۔ مگر ہمیں سب کچھ چھوڑنا پڑا۔‘

نازنین

ان کے مویشی پانی کی کمی کے وجہ سے مر گئے اور انھیں شمال مغربی افغانستان کے صوبے بادغیس میں اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑنا پڑا۔ وہ ہجرت کر کے افغانستان کے تیسرے بڑے شہر ہرات میں ایک کیمپ میں پہنچے جو ایران کی سرحد کے قریب واقع ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق مغربی افغانستان سے قحط سالی کے باعث تقریباً پونے 25 لاکھ افراد نے نقل مکانی کی تھی۔ وہاں بہت سے مقامی اور بین الاقوامی ادارے امداد فراہم کر رہے ہیں لیکن نازنین کے والد کا کہنا ہے کہ انھیں اب تک مناسب امداد ملنا باقی ہے۔

قرض کے بوجھ تلے دبے اس جوڑے کو اپنے مستقبل کی فکر ہے کیونکہ ان کی دو اور بیٹیوں کا، جو دس برس کی عمر کو پہنچنے والی ہیں، مستقبل بھی غیریقینی دکھائی دے رہا ہے۔

نازنین کے والد کا کہنا ہے کہ ’اگر میری مشکلات یونہی جاری رہیں اور اگر مجھے کوئی ایسا شخص مل گیا جو میری دیگر بچیوں کے لیے پیسہ دینے کو تیار ہو میں ان کے لیے بھی ایسا ہی کروں گا۔ مجھے قرض دینے والے دن میں مجھے دو سے تین مرتبہ بلا کر قرض واپس کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔‘

’میری بیٹیاں ہی میری واحد دولت ہیں۔‘

ناخوشگوار شادی

خشک سالی اور جبری نقل مکانی کی وجہ سے اس خاندان نے چھوٹی عمر میں شادی کرنے کا انتخاب کیا تاکہ وہ اپنے کھانے کے اخراجات کو کم کر سکیں۔

گذشتہ برس جب نازنین دس برس کی ہوئیں تو اس کے اہلخانہ نے اس کی شادی کے انتظامات کیے تھے جس میں سو سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔

اس کے والد کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنی بیٹی کو وہ سب کچھ دیا تھا جو میں دے سکتا تھا۔ شادی کے لیے جو پیسے ہم نے لیے تھے وہ بھی زیادہ نہیں تھے۔‘

لیکن اس شادی میں خوشی کہیں نہیں تھی۔

نازنین

والد کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ سخت مصیبت میں نا ہوں تو آپ اتنی کم عمر بچی کی شادی کرنے کے لیے کبھی رضامند نا ہوں۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ایسا نہ کرتا لیکن مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔ میں اپنی ضرورت کے ہاتھوں مجبور تھا۔‘

’ہم کیا کر سکتے ہیں؟ میرے پاس صرف ایک یہ ہی راستہ تھا۔ میں اکیلا نہیں ہوں، اور بہت سے لوگوں نے خشک سالی اور معاشی مصائب کی وجہ سے ایسا ہی کیا ہے۔‘

کمزور اور غیر محفوظ گروہ

ناروے کی مہاجر کونسل کی سنہ 2015 کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہری علاقوں میں غیر رسمی بستیوں میں رہنے والی بےگھر خواتین اور لڑکیوں کی خاص طور پر عمررسیدہ مردوں سے شادی کا خطرہ ہے جو ‘دلہن کی قیمت’ ادا کرنے میں زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔

لیکن نازنین جو اب 11 برس کی ہیں کی شادی کسی عمر رسیدہ مرد کے ساتھ نہیں ہوئی۔ شاید پھر بھی یہ ایک افسوس ناک بات ہے۔

نازنین کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے دو برس اپنے سسرال میں گزارے تھے۔ انھوں نے نازنین کا خیال اپنی بیٹی کی طرح رکھا۔ ان کے شوہر کی عمر تقریباً 12 برس تھی۔ وہ بھی کافی شرمیلا تھا اور زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔‘

نازنین کی رضامندی نہیں لی گئی

نازنین سے اس کی شادی کے بارے میں کبھی مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے والدہ اور والد نے اپنی بیٹی کو شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریوں اور رشتوں کے بارے میں کبھی نہیں بتایا اور متوقع طور پر نازنین کو یہ سب جاننے میں محنت کرنا پڑی۔

ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’اس نے کچھ نہیں کہا، ہم نے سوچا کے نازنین خوش نہیں ہے کیونکہ وہ ہمیں یاد کرتی تھی۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ ہماری بیٹی کو چند برسوں کے لیے ہمارے ساتھ رہنے دیں۔

نازنین اپنے والدین کے پاس واپس آ گئی۔ اس کے سسرال نے وعدہ کیا کہ وہ اسے کچھ بڑی ہونے پر دو تین برسوں میں واپس لے جائیں گے۔

اس کی والد کا کہنا ہے کہ ’اسے اپنی ساس، سسر اور شوہر کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے کا علم نہیں تھا کیونکہ وہ بہت کم عمر تھی۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’ وہ افغانستان کے صوبے نمروز میں رہتے ہیں۔ دس روز قبل ہمارا داماد چند دن ہمارے ساتھ رہنے کے لیے آیا تھا۔‘

کم عمر بچوں کی شادیوں میں اضافہ

یونیسیف نے گذشتہ برس جولائی اور اکتوبر کے درمیان ہرات اور بادغیس میں 161 بچیوں کی منگنی اور شادیوں کا ریکارڈ مرتب کیا۔ ان میں سے 155 لڑکیاں اور چھ لڑکے تھے۔

افغانستان میں یونیسیف کے مواصلات کے سربراہ ایلیسن پارکر نے بتایا کہ ’ملک کے کچھ حصوں میں بچوں کی شادی اس معاشرے میں رچی بسی ہے اور اسے ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ یہ صورتحال جنگ اور خشک سالی کی وجہ سے بدتر ہوگئی ہے۔‘

نازنین

’جولائی سے اکتوبر تک کم عمر بچیوں کی شادیوں میں زبردست اضافہ ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے حکومت کی طرف سے سخت مداخلت کی جا رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان شادیوں میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔‘

افغان حکومت 2021 تک تمام کم عمر اور جبری شادیوں کے خاتمے کے لیے ایک پانچ سالہ پرعزم مہم چلارہی ہے۔ ایک ایسا بل جس کے تحت لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہو جائے گی وہ افغان پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے۔

امداد

امداد فراہم کرنے والے ادارے بے گھر ہونے والے افراد کے ذریعہ معاش کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خوراک و زراعت بہت سے صوبوں میں کاشتکاری کے منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مفت بیج تقسیم کر رہا ہے۔

یونیسیف چائلڈ پروٹیکشن کے افسر الفریڈ میوتتی کا کہنا ہے کہ ’چار دہائیوں کی خانہ جنگی نے بنیادی معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے جو آپ کو دوسرے ممالک میں ملتا ہے۔ ملک کے بہت سے حصوں میں دیہی آبادی کو قرضوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ یہ ایک غیر مستحکم ماحول ہے اور کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہے۔‘

الفریڈ کا کہنا ہے کہ ’بیشتر بے گھر خاندانوں پر قرضوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ ان کے لیے قرضوں کی ادائیگی ممکن نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم رقم فراہم کرتے ہیں تو اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہو گا۔‘

ہوشیار لڑکی

وہاں کیمپ میں نازنین کا کنبہ ابھی بھی حکومت یا امدادی اداروں کی مدد کے منتظر ہے۔ صرف ان کے لیے امید کی کرن یہ ہے کہ یہاں ان کے بچوں کے پاس سیکھنے اور پڑھنے کے موقع میسر ہیں۔

والدین کے فخر ہے کہ اب ان کی بڑی بیٹی اپنا اور اپنے والد کا نام لکھ سکتی ہے۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’نازنین ایک ہوشیار لڑکی ہے۔ اسے ہجوں کی پہچان ہے۔‘

ان کے دو بیٹے بھی اب سکول جا رہے ہیں۔

پرامید زندگی

لیکن یہ کنبہ خوش نہیں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی مدد کرنے کے لیے کوئی نہیں ہے۔ یہ بات کم عمر دلہن کو پریشان کرتا ہے۔

ان کی والد کا کہنا ہے کہ ’نازنین کے مجھے بتایا کے امی آپ نے کم عمری میں میری شادی کر دی لیکن میرا بھائی پھر بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ میرا بھائی ٹھیک ہو جائے گا اور میں بھی ایک دن بڑی ہو جاؤں گی۔ میں اس کی کم عمری میں شادی پر پچھتاتی ہوں لیکن میں اب بھی اس کے اچھے مستقبل کے لیے پرامید ہوں۔‘

(نازنین کا نام شناخت چھپانے کے لیے تبدیل کیا گیا ہے۔

اس کہانی کے لیے خاکہ کشی جیلا دستمالچی کی جانب سے کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp