اس کی بیوی کو کس کی تلاش تھی؟


کہر میں لپٹی ہوئی رات اپنے جوبن پر تھی۔ سردیوں میں یوں بھی جلد ہی ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ شادی والا گھر تھا مگر رات کے بارہ بجے تک تمام ہنگامے موقوف ہو چکے تھے۔ آفاق احمد ابھی تک اپنے دیرینہ دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ کئی بار جانے کے لیے اٹھے تھے مگر آفاق انہیں ہر بار روک لیتا تھا۔ آخر جب اس کی ماں کا صبر جواب دے گیا تو اس نے اپنے شوہر سے بات کی۔ چناں چہ اس کے باپ کونہ چاہتے ہوئے بھی آ کراس کے دوستوں کو رخصت کا مشورہ دینا پڑا۔ ظاہر اس کے بعد رکنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ دوستوں کے جانے کے بعد آفاق کے پاس اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ دلہن کے پاس جائے۔ وہ بوجھل قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو بیڈ پر ایک سرخ گٹھڑی کی صورت اس کی نوبیاہتا بیوی موجود تھی۔ اس کی آہٹ سنتے ہی وہ کسمسائی اور گھونگھٹ ٹھیک کیا۔ کمرہ بڑے خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا۔ بیڈ پر گلاب کی پتیاں تھیں۔ کمرے میں مسحور کن خوشبو پھیلی تھی۔ وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے پھر اس کے لب ہلے۔

”روبی! آپ کو شادی مبارک ہو۔ “
”آپ کو بھی، لیکن پہلے میرا گھونگھٹ تو اٹھائیے۔ “ دلہن نے کہا۔
”اوہ سوری“ اس نے جلدی سے کہا۔ پھر دھیرے دھیرے گھونگھٹ ہٹا دیا۔
”آپ نے مجھے بہت انتظار کروایا۔ “ روبی نے اپنی پلکیں اٹھاتے ہوئے پیار سے شکوہ کیا۔

”یہ دوست بھی عجیب ہوتے ہیں۔ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے تھے۔ ابھی ان سے جان چھڑا کر آیا ہوں۔ “ آفاق نے وضاحت کی۔
” خیر جانے دیجیے، آپ نے بتایا نہیں میں کیسی لگ رہی ہوں؟ “ وہ میٹھی نظروں سے اسے تک رہی تھی۔

”بہت اچھی لگ رہی ہو۔ میرا مطلب ہے بہت پیاری لگ رہی ہوں۔ شاید میں تھوڑا نروس ہوں۔ پلیز تم برا مت ماننا۔ “ آفاق نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”آپ کچھ تھکے تھکے سے بھی لگ رہے ہیں۔ میری بھی کمر اکڑ گئی ہے۔ “ روبی بولی۔

”تم یہ بھاری بھرکم کپڑے اتارو اور لائٹ سے کپڑے پہن لو، میں بھی چینج کر لیتا ہوں۔ “
”ٹھیک ہے۔ “

آفاق واقعی تھکا ہوا تھا۔ بارات اس کی پھوپھی کے گھر گئی تھی اور وہ ایک قریبی شہر میں ہی رہتی تھیں۔ سفر زیادہ نہیں تھا پھر بھی آفاق کا دل چاہ رہا تھا لمبی تان کر سو جائے۔ روبی اس کی کزن تھی۔ برسوں پہلے اس کے باپ نے اپنی بہن سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے گھر انہی کی بہٹی بہو بن کر آئے گی۔ آج اس وعدے کی تکمیل ہوئی تھی۔ آفاق کی ساری کوششیں ناکام ہوئی تھیں۔ آفاق کا انکار اس کے باپ کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ چناں چہ باپ بیٹے کی اس حوالے سے مختلف مرحلوں میں گھنٹوں بات چیت ہوئی تھی۔ بالآخر اس کی ماں کے واسطے کامیاب رہے اور آفاق شادی کے لیے مان گیا تھا۔

روبی کپڑے بدل کر آئی تو ایک بار پھر تعریف طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ آفاق نے اس بار اسے مایوس نہیں کیا اور دل کھول کر اس کی تعریف کی۔ روبی شرماتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔ آفاق نے بھی اپنے الفاظ کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے گرم جوشی دکھائی۔ روبی نے اپنی تیز سانسوں کو بمشکل نارمل کیا اور بولی۔

”آپ کو پتا ہے میں کتنے برسوں سے اس وقت کا انتظار رہی تھی۔ سب یہی کہتے تھے کہ میں آپ کی دلہن بنوں گی۔ آج میرا سپنا پورا ہوا ہے۔ “
”میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا۔ خیر ماضی کی باتیں چھوڑو۔ کل کی سوچو۔ کل ولیمہ ہے اور میں تھکن سے چور ہوں۔ “ آفاق نے کہا۔
”سچ پوچھیے تو میرا بھی برا حال ہے۔ “ روبی نے تائید کی۔

وہ بیڈ پر دراز ہو گئے۔ دس پندرہ منٹ بعد آفاق سو چکا تھا اور روبی سوچ رہی تھی کہ اس کا ایک سپنا تو پورا ہو گیا مگر دوسرا ابھی ادھورا ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ زندگی پڑی ہے سپنے پورے کرنے کے لیے۔

دن گزرتے گئے۔ ان کی شادی شدہ زندگی دھیمی رفتار سے گزر رہی تھی۔ روبی جس والہانہ محبت کی متلاشی تھی وہ اسے ابھی تک نہیں ملی تھی۔ اگرچہ آفاق اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ اس کی ہر خواہش کو پورا کرتا تھا لیکن اسے کبھی اس میں گرم جوشی کا پہلو نظر نہ آیا تھا۔ وہ پڑھا لکھا تھا۔ ایم فل کیمسٹری تھا اورایک کالج میں لیکچرار تھا۔ وہ روزانہ صبح ساڑھے سات بجے گھر سے نکلتا تھا۔ چھٹی کے بعد ایک اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھاتا تھا لہٰذا دوپہر کا کھانا باہر ہی کھاتا تھا۔ پھر آٹھ بجے کے قریب گھر واپس آتا تھا۔

کھانے کے بعد ٹی وی دیکھنا اور کتابیں پڑھنا بھی اس کے معمولات میں شامل تھا۔ روبی کے لیے اس کے پاس بہت کم وقت ہوتا تھا۔ نئی نئی شادی تھی تب بھی وہ اپنی خواہش کا اظہار شاذ و نادر ہی کرتا تھا۔ مگر روبی کیا کرتی اس کی آرزوئیں تو اکثر بے قابو ہونے لگتی تھیں۔ ایسے میں اسے خود ہی پیش قدمی کرنی پڑتی تھی۔ تاہم اتنا ضرور تھا کہ آفاق نے اس معاملے میں بھی روبی کو کبھی مایوس نہیں کیا تھا۔ پھر بھی روبی ایک شدید قسم کی کمی محسوس کرتی تھی۔ جذبات تو منہ زور بھی ہوا کرتے ہیں۔ جب کوئی بدن لمس کی چاہ میں تڑپتا ہے تو جسم کا رواں رواں آگ میں جلنے لگتا ہے۔ وہ تپش کہاں تھی؟ وہ بے تابی کہاں تھی؟ آفاق تو گویا ایک فرض ادا کرتا تھا۔ محض ایک فرض۔

جہاں تک روبی کی بات ہے جذبات اپنی جگہ ہیں لیکن وہ بہت سادہ سی لڑکی تھی۔ گھر کے کام کاج کرنا، کھانا بنانا ٹی وی دیکھنا بس یہی اس کی زندگی تھی۔ وہ کھانا بہت اچھا بناتی تھی۔ سادہ کپڑے پہنتی تھی۔ آفاق کے بر عکس اس نے کبھی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ کپڑوں کی طرح اس کے مزاج میں بھی شوخی نام کو نہیں تھی۔ ہنسی مذاق کرنا اسے ذرا بھی پسند نہیں تھا۔ چٹکلے چھوڑنا یا فقرے چست کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔

روبی نے زندگی میں پہلی بار سوچنا شروع کیا۔ اس نے سوچا کہ شاید وہ زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور میں تو انڈر میٹرک ہوں۔ وہ مجھے اس قابل نہیں سمجھتے کہ مجھ سے زیادہ بات کریں یا ہنسی مذاق کریں۔ اس نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کر دیا۔ آفاق نے بڑے تحمل سے اس کی ساری باتیں سنیں پھر بڑے پیار سے اسے تسلی دی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ اس سے محبت بھی کرتا ہے اور اس کی عزت بھی کرتا ہے۔ آفاق نے عملی طور پر اپنی محبت کا اظہار بھی کیا۔ اس کے باوجود روبی مطمئن نہیں تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4