سب کچھ ہو لیکن محبت نا ملے تو ادھورے ہیں ہم


درختوں سے چھن کر آتی چاندنی کی کرنیں ٹھنڈی خنک ہوا لان میں بکھرے خزاں رسیدہ پتے اور ان پتوں میں چلنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ آج وہ وہ اپنے آپ کوکتنا مکمل تصور کررہی تھی اس کی روح میں جیسے کوئی جذب ہوگیا تھا۔ کوئی تھا جواس کے درد کو اپنے اندر سمیٹ کے لے گیا تھا۔ یقینا وہ خوش نصیب ہے اسے بنا مانگے سب کچھ مل گیا تھا۔

بچپن میں سکول جاتے ترسی نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھتی کہ شاید کچھ روپے اسکول میں لنچ لینے کے لئے مل جائیں لیکن ماں تھی یا پتھر کبھی جوان بولتی آنکھوں کو پڑھا ہو۔ جلدی جلدی اسکول کے لئے تیار کیا اور دروازے سے باہر۔ وہ بھی ایک چھلاوے کی طرح اچھلتے کودتے سکول پہنچ جاتی۔

پڑھنے میں اچھی تھی لیکن محنت کرنے سے بھاگتی تھی ہوم ورک کیاتو کیا ورنہ استانی کے چار ڈنڈے ہاتھوں پہ کھا لینا زیادہ آسان لگتا تھا۔ شومئی قسمت غریب کے گھر پیدا ہوئی تھی تو نا کوئی ٹیوشن کا سین تھا نا اور کوئی پوچھنے والا۔

باپ ایک چھوٹی سی نوکری کرتے تھے۔ شام پانچ بجتے ہی گھر تشریف لے آتے۔ چائے بنتی سب بیٹھ کر چائے پیتے۔ اس زمانے میں ایک ہی چینل آیا کرتا تھا اور پانچ بجے قرات کے بعد بچوں کا کارٹون۔ ایک لگی بندھی زندگی تھی۔ آٹھ بجتے ہی محلے میں سناٹا ہوجاتا سب لوگ ٹی وی کے آگے بیٹھ کرڈرامہ دیکھتے۔ وہ بھی بڑے شوق سے ڈرامے دیکھتی ان ڈراموں میں وہ کھو جاتی ایک گھنٹے کاڈرامہ اسے غریب محلہ سے نکال کرامیروں کے محلوں میں لے جاتا۔ اسے احساس بھی نہیں ہو پاتا تھا اور وہ ڈرامہ دیکھتے دیکھتے سوجاتی تھی۔ آنکھ توتب کھلتی تھی جب ابو کی چھڑکیاں کانوں میں پڑتی۔

امی ابو اپنی غریبی کو کم کرنے کے جتن کرتے رہتے تھے۔ ابھی وہ میٹرک میں آئی تھی کہ امی ابو کو آلو کے چپس کا کاروبار کرنے کی سوجھی۔

امی صبح تین بجے سے ہی کڑھائی گرم کرکے بیٹھ جاتی۔ اب بچوں کو اسکول بھیجنے تک اور اس کے بعد بھی ان کا یہ ٹارگٹ ہوتا کہ تین سے چار بڑے بڑے کڑھاؤ آلو کے چپس تل کے رکھ لیں تاکہ جب وہ اور اس کے باقی بہن بھائی اسکول سے آئیں تو آلو کے چپس تھلیوں میں پیک کرنے کا کام انجام دیں۔

کاروباراچھا تھا سب مل کرکام کررہے تھے لیکن بچو ں کی پڑھائی ختم ہوتی گئی۔ ماں باپ اپنے کمانے میں ایسا مگن ہوئے انہیں احساس تک نہ ہوا کہ وہ بچو ں کا مستقبل داؤ پہ لگا بیٹھے ہیں۔

لڑکیاں تو پڑھ ہی لیتی ہیں بیٹے کمانے میں ایسا لگے کہ کتابیں بستہ ایک طرف رکھ دیا۔

وہ بھی کالج میں آچکی تھی۔ اردو میڈیم سے پڑھ کر جب کالج میں سارا ہی کورس انگلشن میں پڑھنے کو ملا تو جیسے گدھی پہ کتابیں لاد دی ہوں۔ کچھ احساس ندامت کچھ اساتذہ کا ساتھ کھسٹ کھسٹ کر گریجویشن کرہی لیا۔

قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور ترش مزاج باپ اور پتھر دل ماں سے وہ ایک قدم اوپر چلی گئی۔

شادی کیا ہوئی جیسے وہ ایک ملکہ بن گئی۔ گھر کاسارا انتظام اس کے ہاتھ میں آگیا۔ کیاکھانا ہے کیا پہننا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شوہر چونکہ عمر میں پندرہ سال بڑے تھے تو شوہر کم اسے ان میں اپنے ابا کی جھلک نظر آتی تھی۔

شوہر عمر میں بڑے تھے لیکن اپنی پوری کوشش کرتے تھے کہ وہ رانی بن کر رہے اس کے آرام کے لئے نوکر چاکر رکھ لئے گئے۔

محل نما گھر دوطرفہ برآمدہ۔ برآمدے سے آگے باغیچہ۔ چمبیلی کی بیلیں اس پہ مہکتے پھول۔ وہ شام کو روز یہاں چہل قدمی کرتی۔ سب کچھ تھا اس کے پاس بس وہ غربت نہی تھی اب یہاں دالان میں سب ایک ساتھ بیٹھ کر شام کی چائے پیتے تھے۔ اکثر اپنے بہن بھائیوں اور گھر والوں کو یاد کر کے وہ اداس ہو جاتی۔

اپنے آج سے وہ خوش تھی۔ لیکن مطمئن نہیں تھی۔ شوہر کی خدمت اس کا نصب العین تھا۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتی تھی کہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوئی کمی نا لائے۔ شوہر محترم بھی ہر ضرورت پوری کردیتے تھے لیکن ان دونوں کے بیچ میں ایک خلا تھا۔

وہ خلا دونوں محسوس کرتے تھے لیکن پر نہیں کرپاتے تھے۔

وہ ایک سرد رات تھی ٹھٹرتی خنک ہوا۔ کھڑکیوں کی جھریوں سے سیخ کی طرح اس کے بدن میں کھس رہی تھی۔ وہ پردے برابر کرنے کو اٹھی۔ وہ آج صبح سے اپنے شوہر کے رویے میں بے چینی محسوس کررہی تھی اور بالآخر اس بے چینی کی وجہ بھی اس رات سامنے آگئی۔

ایک بند لفافے کے ساتھ کچھ الودائی کلمات کہ کر اس کا شوہر اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کے چلا گیا۔ اسے اپنی بچپن کی محبت مل گئی تھی جس کی شادی کی شرط ہی یہی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے۔ یہ تو اس کی مہربانی تھی کہ حق مہر میں یہ گھر اس کے نام کرگیا

وہ کپکپاتے ہاتھوں سے لفافہ پکڑے پتھر بنی کھڑی تھی۔ اس نے روکنے تک کی مہلت نہی دی اسے۔ وہ تو اپنی خدمت کے واسطے بھی نا دے سکی اور وہ اسے چھوڑ کے چلاگیا۔

وقت کب رکتا ہے اس کے لئے بھی نہیں رکا کب بہار آئی کب گزر گئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔

وہ اکیلے رہنے کی عادی ہوچکی تھی۔ سر شام خزاں رسیدہ پتوں کواپنے قدموں تلے روندنے کی آواز اسے ایک سکون دیتی تھی۔ چائے کے کپ کولئے وہ اکثر اپنی زندگی کا حساب لگاتی کہاں کب کیا پایا کیا کھویا۔ اپنے ماں باپ اپنے بہن بھائی سب کھو دیے ایک شخص کے لئے اور کتنی آسانی سے وہ شخص اسے تنہاچھوڑ کر چلا گیا۔

کاروبار زندگی یونہی رواں دواں تھا کچھ انوسمنٹ کر کے وہ اپنا کاروبار بڑھا رہی تھی۔ بزنس سوسائٹی میں اپنی ایمان داری سے وہ اپنا ایک مقام بنا چکی تھی۔ پیسہ اس کے آس پاس پانی کی طرح بہتا تھا۔ زندگی کی ہر آسائش اس کے پاس تھی۔ اب تو اپنے بوڑھے والدین کو بھی اپنے پاس لے آئی تھی۔

بچپن سے لے کر آج تک زندگی نے اسے سب دیا تھا سوائے پھر پور محبت کے۔ یہ سوچ اسے بے چین کر جاتی۔ بیچ منجدھار میں اکیلا چھوڑ کر جانے والے شوہر کو یاد کرکے وہ افسردہ ہوجاتی اس نے اب تک اس کی جگہ کسی کو نہیں دی تھی۔ وہ دینا بھی نہیں چاہتی تھی لیکن جبران کی آمد کو وہ روک نہیں پائی۔

جبران اس کے قانونی معاملات دیکھتا تھا۔ اکثر شام کو اس کے گھر آجاتا اس کے والدین اور وہ شام کی چائے لان میں بیٹھ کر پیتے۔ غیر محسوس طریقے سے وہ ان کے گھر کافرد بن گیا ماں باپ بھی اس کی آمد سے خوش ہوتے وہ تھا بھی خوش مزاج۔ جب بھی آتا قہقے بکھیر دیتا۔ جبران اور وہ ہم عمر ہی تھے اس لئے مزاج زیادہ ملتے۔ آہستہ آہستہ اسے بھی جبران اچھا لگنے لگا۔ عمر کاتقاضا بھی تھا کہ اب کسی مرد کا اس کی زندگی میں ہونا ضروری ہے۔

جبران بھی یہی چاہتا تھا وہ اسے پسند کرنے لگاتھا۔

شادی کا پرپوزل دینے کی دیر تھی کہ ماں باپ نے فورا ہاں کردی وہ چاہتے تھے اپنی زندگی میں ہی دوبارہ اس کا گھر بستا دیکھ لیں۔ وہ اپنے فرض سے باخوبی فارغ ہوئے۔

جبران نے اسے بھرپور محبت دی۔ اس کی محبت پاکر اسے یہ احساس ہوا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود محبت اگر آپ کو نہیں ملی تھی تو آپ نامکمل ہیں۔ وہ اب اپنے آپ کودنیا کی خوش قسمت عورت تصور کررہی تھی۔

آج بھی وہ چاندنی کی کرنوں کواپنے اندر جذب کرتی چہل قدمی کررہی تھی۔ دور سے آتی جھینگر کی آواز اور خزاں رسیدہ پتے ایک ترنم سا گا رہے تھے لیکن آج ہوا کی خنکی اسے بہت اچھی لگ رہی تھی۔ یہ سردیوں کی چاندنی رات اس کی روح میں اتر رہی تھی اس کے وجود کا خلا پر ہوچکا تھا وہ سیراب ہو چکی تھی اس نے محبت پالی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).