یہ مزاجوں کا ملک ہے


سنا کرتے ہیں کہ بادشاہوں کے مزاج پر ان کی ریاست کی تقدیریں منحصر ہوا کرتی تھیں۔ بادشاہ خوشگوار موڈ میں ہے تو سائل کوآدھی سلطنت تک عنایت کر دی جاتی تھی اور بادشاہ کا مزاج گرم ہوا تو قابل ترین لوگ بھی زیر عتاب آ گئے۔ لہذا عقل مند درباری بادشاہوں سے اپنی مرضی کا کام کروانے کے لئے ان کے مزاج دیکھا کرتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ بات اب بھی دنیا میں لاگو ہوتی ہو گی یا نہیں لیکن ہمارا ملک مزاجوں کا ملک اب بھی ہے۔ یہاں عنایت کے لئے آپ بادشاہ ہیں یا نہیں ہیں لیکن آپ کا موڈ اتنا شاہانہ ضرور ہے کہ اگلے کی تقدیر کا فیصلہ کر دے اور آپ کو پرواہ تک نہ ہو۔ لہذا یہاں بھی آپ کو اپنے جا ئز یا نا جائز کام کے لئے بادشاہ وقت کے اچھے مزاج کا انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

یہاں ہر چیز مزاج پر منحصر ہے اور مزاجوں کے اس کھیل میں غریب، امیر، با اختیار، گداگر اور شاہ کی کوئی قید نہیں۔ ہم بحیثیت قوم ہی اپنے سب کام مزاجوں پر ہی کرتے ہیں۔ ہمارا مزاج ہے تو نوکری پر اپنے فرائض منصبی ادا کر دیے ہمارا مزاج نہیں ہے تو کوئی ہم سے کام کروا کر دکھا دے، سو بہانے اور سو طریقے ہیں راہ فرار کے۔ آپ اپنے ارد گرد دیکھ لیں اور بتا دیں کون سا ایسا انسان ہے جو مزاج کے مخالف بھی پوری ایمانداری سے اپنے فرائض پورے کرتا ہو۔

ہمارے ہاں تو گھروں میں آپس میں سنجیدہ گفتگو کرنے سے پہلے بھی مزاج دیکھنے پڑتے ہیں۔ گھر میں مفت خورہ بیٹا بھی موجود ہو تو اس سے گفتگو کرنے سے پہلے بھی ماں باپ کو مزاج دیکھنا پڑتا ہے کہ مزاج اچھا ہے تو کوئی نصیحت کی جائے ورنہ نہیں۔ مزاج اچھا ہے تو شاید آج افسر آپ کے جائز بل پر سائن کر دے۔ مزاج اچھا ہے تو شاید آپ کا باس آپ کی غلطیوں کو نظر انداز کر جائے۔ مزاج اچھا ہے تو شاید کلرک آپکی جائز فائل آگے پہنچھا دے۔ مزاج اچھا ہے تو شاید آپ کا کام بن جائے۔ ہمارے ہاں ہر با اختیار اور بے اختیار انسان مزاج پر چلتا ہے۔ کام تب ہی ہو گا جب موڈ ہو گا۔

کلرکس کے پاس چلے جایئں ان کا مزاج جب تک ”گرم“ نہ کریں آپ کی فائل کو پہیے نہیں لگتے۔ سول ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں جانے کا اتفاق ہوتو وہاں بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبان بھی شاہی فطرت کے مالک ہیں جب تک کہ ان کا مزاج نہ ہو وہ مریض کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ مریضوں کے لواحقین کئی بار جا کر ان سے درخواست کرتے رہیں لیکن اس وقت ان کا مزاج محض ساتھی اسٹاف یا موبائلز کی حد تک محدود ہو تو آپ چاہ کر بھی ان سے مزاج کے خلاف کوئی کام ٹھیک نہیں کروا سکتے۔

پچھلے دنوں کسی کام کے سلسلہ میں ایک با اختیار اعلی تعلیم یافتہ بادشاہ وقت سے کچھ سائن کروانے درکار تھے۔ حسب معمول بارش اور دیگر مسائل سے الجھی ہوئی جناب عزت ماب بادشاہ سلامت کے آفس کے سامنے پہنچھے تو پتا چلا کہ پچھلے کئی گھنٹوں سے طلبا کی لمبی قطار موجود ہے۔ تھیسز جمع کروانے کی آخری تاریخ اور اندر سے خوفناک آوازیں آرہی ہیں۔ بیچارہ کلرک اپنی سبکی کروا کر چہرہ لٹکائے شرمندہ سا باہر آیا اور کہتا کہ جناب بادشاہ سلامت کا مزاج برہم ہے۔

کہتے ہیں جب تک میرا موڈ ٹھیک نہیں ہو گا میرے پاس کوئی بھی کام نہ لایا جائے۔ اس کے بعد کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ بادشاہ کو جا کر چیلنج کیا جائے۔ مرتے کیا نہ کرتے سب طالب علم بادشاہ وقت کے مزاج کی بہتری کا انتظار کرتے رہے۔ جو ہونا تھا نہ ہوا۔ اگرچہ ان کو اختیار اور تنخواہ کام کرنے کے لئے دی جاتی ہے نہ کہ مزاج کی افزائش کی۔ یہ ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص کی بات ہے جس کو بار منصب اٹھاتے ہوئے اپنی سب ذمہ داریوں کا باخوبی ادراک ہوتا ہے چلو وہ تو با اختیار ہیں بادشاہ ٹھہرے۔ لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ غریب، ان پڑھ اور بے اختیار شخص بھی ہمارے ہاں مزاجوں پر چلتے ہیں۔ کسی بھی غریب آدمی یا فقیر تک کو آپ اس کے مزاج کے بغیر ترقی کرنے یا رزق کمانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔

اگرچہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان کو اس کے مزاج کے خلاف کام کرنا پسند نہیں۔ لیکن ہم بحیثیت قوم یہ بات افورڈ کرنے کی گنجائش ہی نہیں رکھتے۔ کام کرنے کے بغیر ہمارے ہاں اپنی اور ملک کی تقدیر بدلنے کا کوئی چارہ ہی نہیں، کوئی اور راستہ ہی نہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے حالات ہماری محنت اور ایمانداری سے منسلک ہیں لیکن ہمارے مزاج آرام پرستی اور شاہی اطوار میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔

مزاج ہے یا نہیں ہے لیکن اگر آپ ٹیچر ہیں، کلرک ہیں، ڈاکٹر ہیں تو منصب اور اختیار کا تقاضا ہے کہ اپنا کام بخیر کسی موڈ کے مکمل کریں۔ اگر آپ غریب ہیں تو چاہے کوئی کام چھوٹا ہے یا بڑا اپنے مزاج کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شروع کریں پوری ایمانداری اور محنت سے کریں اور پھر دیکھیں کہ کامیابی کیسے آپ کے قدم چومتی ہے۔

ہمارے برعکس ترقی یافتہ قومیں مزاجوں کے بجائے ہمت اور محنت پر زیادہ ایمان رکھتی ہیں۔ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ان کا مزاج کسی خاص دن کیسا ہے لیکن وہ اپنا کام اسی تندہی اور ایمانداری سے ادا کریں گے جو ان کے منصب کا تقاضا ہے۔ اور اس کے برعکس ہمارے ہاں جو کچھ نہیں بھی کرتے وہ بھی شاہانہ مزاج رکھتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یہاں بس وہ ہی کامیاب ہے جو اگلے کے مزاج کو بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے چاہے وہ پیسہ دکھا کر یا طاقت دکھا کر ہو۔ اگر آپ نے کچھ کام کروانا ہے تو اگلے کا مزاج بدلنا سیکھیں۔ ہم بادشاہ ہوتے توشاید مزاجوں کی یہ ادائیں ہم پراچھی بھی لگتیں۔ لیکن ہمارے حالات یہ ہیں کہ جان کنی کی کیفیت ہے اور ہم محض مزاجوں کی وجہ سے اپنے تابوت میں کیلیں خود گاڑتے پھر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).