’مصباح ٹھیک کہتے ہیں، لیکن۔۔۔‘


مصباح دو روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں خاصے آزُردہ نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا بڑے شوق سے تنقید کرے لیکن وہ صرف اگلے ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کا سوچ رہے ہیں اور پلئینگ پوزیشنز کے حساب سے پلئیرز تیار کرنا چاہ رہے

ہیں۔

مصباح کا شکوہ درست ہے۔ میڈیا کے کچھ حلقے ان کے تقرر سے پہلے ہی دلائل و براہین سے مسلح کھڑے تھے اور پہلی ہی ہار نے الزامات اور کوسنوں کی ایک پٹاری کھول دی۔ ہم میڈیا والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کائنات کی ہر گتھی اپنے فہم کے مطابق کسی نہ کسی طرح سلجھا کر ناظر اور قاری کی پلیٹ میں رکھنا ہوتی ہے۔ اب فہم ہر کسی کا اپنا اپنا ہے اور تعصبات بھی اپنے اپنے۔ اس ٹی ٹونٹی ٹیم سے پہلے جب ون ڈے سکواڈ کا اعلان ہوا تو ماضی کے کئی سپر سٹارز نے جرح باندھی کہ یہ سری لنکا کی بی ٹیم ہے، پاکستان کو چاہیے تھا کہ نئے لڑکوں کو موقع دیتا مگر مصباح نے سلیکشن میں دلیری نہیں دکھائی۔

اس کا جواب مصباح نے یوں دیا کہ ٹی ٹونٹی ٹیم میں نسبتاً نئے لڑکوں کو موقع دے دیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ عجیب فیصلہ بھی کیا کہ عمر اکمل اور احمد شہزاد کو بھی موقع دے ڈالا۔ اس پہ تنقید تو ہونا ہی تھی، ہوئی بھی۔ کسی نے زیادہ کی تو کسی نے کم۔ مگر کچھ نے بہت ہی زیادہ کر دی۔ اس پہ مصباح کی افسردگی بھی بجا تھی۔ مگر میچ کا نتیجہ ان کے حق میں نہیں تھا۔ دو روز گزر گئے۔ دوسرا میچ بھی ہو گیا۔ پاکستان ہار بھی گیا اور سال میں تیسری ٹی ٹونٹی سیریز ہار گیا۔ سری لنکا سے پہلی بار ٹی ٹونٹی سیریز ہار گیا۔

اگر یہ مدِنظر رکھا جائے کہ پاکستان ٹی ٹونٹی کی انٹرنیشنل رینکنگ میں اول درجے کی ٹیم تھی اور سری لنکا، جو کہ نہ صرف آٹھویں نمبر کی ٹیم تھی بلکہ اپنے دس ریگولر پلئیرز سے محروم ٹیم تھی، تو اس ہار کا صدمہ کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان کرکٹ کی جڑوں میں بیٹھا قدیمی مسئلہ یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو مسائل کی جڑ قرار دے کر سارے زوال کی تشخیص کر لی جاتی ہے اور فیصلہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں کہانی کے بے شمار پہلو ہوتے ہیں جنہیں تہہ در تہہ کھول کر گیرائی سے جھانکے بنا مکمل تجزیہ ممکن نہیں ہوتا۔

اس ٹی ٹونٹی ٹیم کو آخر ایسا ہوا کیا ہے کہ یہ بالکل اپنی شناخت ہی کھو بیٹھی ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے سال کے آغاز کی جنوبی افریقہ سیریز میں بھی کھوجنا ہوگا کہ جہاں سے یہ زوال کا سفر شروع ہوا۔ اس کے بعد سے پاکستان پے در پے میچز ہارنا شروع ہوا، سرفراز کی بہترین کپتانی کو گرہن لگنا شروع ہوا اور یکایک شاداب خان اوسط سے درجے کے بولر رہ گئے جو نہ تو اٹیک کر سکتا ہے نہ ہی بند باندھ سکتا ہے۔

بھلا ہوتا کہ سری لنکا کے خلاف نئے چہرے آزماتے وقت احمد شہزاد اور عمر اکمل کو بھلا دیا جاتا۔ شاید سری لنکا کے نوجوانوں کی طرح پاکستان کے نوجوان بھی کچھ بہتر کارکردگی دکھا دیتے اور پاکستان یہ ہوم سیریز ہارنے سے بچ جاتا۔ مصباح کے ذہن میں اگلا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شعیب ملک اور محمد حفیظ کے تجربے کے متبادل پلئیرز کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ممکن ہے وہ صحیح سمت میں جا رہے ہوں مگر یہ بات یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ تجربات کی رو میں بہتے بہتے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ٹیم اپنی شکل ہی بھول جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).