جنسی تعلیم کی ضرورت و اہمیت


بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن پر گفتگو کرنا ہمارے ہاں شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی ان کو زیرِ بحث لائے تو اسے آڑے ہاتھوں لیا جاتا یے۔ دراصل ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں کچھ ایسے نام نہاد معیارات قائم کردیے گئے ہیں جن پر پورا اترنا لازم کردیا گیا ہے اور ان مروجہ حدود سے باہر نکل کر کسی موضوع پر بات کرنا ناقابلِ قبول سمجھا جاتا ہے مگر حالات کے تناظر میں بہت سی ایسی باتیں اور معاملات ہیں جن پر گفتگو اب ضروری ہوچکی ہے اور جن کے متعلق عوامی سطح پر آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔

انہی میں سے ایک جنسی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا ادراک اور اس متعلق آگاہی پھیلانا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ایک لڑکی ہونے کے ناتے میرا اس موضوع پر بات کرنا بہت سوں کو ہرگز اچھا نہیں لگے گا مگر میرا ماننا یہ ہے کہ جنسی تعلیم بھی بنیادی تعلیم کا ایک جزو لاینفک ہے اور اس بارے بات کرنا کسی صورت برا نہیں ہے بلکہ یہ ہم لکھاریوں کا فرض ہے کہ مناسب الفاظ کا سہارا لے کر عوام کو اس بارے میں تعلیم دیں۔

زینب قتل کیس اور بچوں سے جنسی زیادتی کے ایسے سینکڑوں واقعات جہاں ہمارے معاشرے میں اخلاقی قدار کے زوال کی علامت ہیں وہیں ان کی ایک بہت بڑی وجہ بچوں کو جنسی تعلیم نہ دینا بھی ہے۔ ہمارے بچے اگر اس متعلق کچھ بنیادی باتوں سے آگاہ ہوں تو بہت سے ایسے اندوہناک واقعات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کہ دی ہوئی خرافات میں سے ایک اخلاقیات کا زوال بھی ہے اور اب ہم وہ معاشرہ نہیں رہے جس میں اقدار کی پیروی ہو اور جہاں زیادتی کے واقعات محض مذہبی احکامات کی وجہ سے روکنا ممکن ہو۔ اب معاشرہ غلاظت میں جس حد تک لتھڑ چکا ہے اس کے بعد ہمیں اپنے بچوں کو جنسی تعلیم دینا ہوگی تاکہ وہ ایسے کسی مذموم فعل کا ہدف نہ بن سکیں۔

جنسی تعلیم کے کئی درجے ہیں۔ بچپن میں صرف چند بنیادی باتیں نصاب کا حصہ بنائی جائیں۔ بچوں کو بتایا جائے کہ ان کا رویہ اپنے گھر کے افراد کے علاوہ باقیوں کے ساتھ کیا ہونا چاہیے؟ کون سے ایسے افعال و حرکات ہیں جو اگر کوئی ان کے ساتھ کرے تو وہ فوراً گھر بتائیں۔ گھر والوں کو چاہیے کہ بچے میں یہ اعتماد پیدا کریں کہ وہ ہر غیر معمولی حرکت گھر آکر بتائیں۔ مثلا اگر کوئی شخص بلاوجہ بچے سے حد سے زیادہ لگاؤ ظاہر کرتا ہے تو یہ بات گھر والوں کے علم میں ہونی چاہیے۔

بچوں کو سکھایا جائے کہ کسی اجنبی کے ساتھ زیادہ گھلنے ملنے سے گریز کریں اور اگر کوئی اجنبی انہیں چھونے کی کوشش کرتا ہے تو فوراً گھر بتائیں۔ اسی طرح کے کئی دیگر عوامل ہیں جن سے بچاؤ کی تعلیم بچوں کو دے کر ہم انہیں محفوظ بنا سکتے ہیں۔ بچوں کی نگرانی والدین کا فرض ہے۔ اگر والدین بچے کی دیکھ بھال پوری ذمہ داری سے کریں تو بچوں کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔

ہر علم کی سب سے بڑی درسگاہ گھر کا ماحول ہے۔ والدین پر بچوں کی تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ انٹرنیٹ کے استعمال، لوگوں سے روابط وغیرہ کے بارے میں بچوں کی بھرپور تربیت کریں۔ انہیں ہر وہ بات بتائیں جس کا جاننا ان کے لیے ضروری ہے کجا یہ کہ وہی باتیں انہیں انٹرنیٹ سے پتا چلے یا کوئی اجنبی بتائے۔ وہ بچے کو اس کے جسم کی ساخت میں عمر کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں سے بھی آگاہ کریں اور ان تبدیلیوں پر خود بھی نظر رکھیں اور مناسب وقت پر ان کی شادی کردیں تاکہ بہت سے مسائل سے بچا جا سکے۔

اس سلسے میں جہاں والدین کا کردار اہمیت کا حامل ہے وہیں اساتذہ اور تعلیمی نظام پر بھی بے پناہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ابتدائی جماعتوں کے نصاب میں جنسی تعلیم کو لازمی حصہ بنایا جائے اور اساتذہ اس سلسلے میں بچوں کو آگاہی دیں۔ اگر یہ اقدامات اٹھالیے جائیں تو ہم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کرسکتے ہیں اور بڑھتی ہوئی بے راہروی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس موضوع کو شجرِ ممنوعہ سمجھنے کی بجائے اس پر بھرپور بحث کی جائے اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ میں یہ مضمون لکھ کر اپنے حصے کی شمع جلارہی ہوں۔ امید ہے آپ سب بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).