ایم پی اے کا پروٹوکول اور ڈاکٹر کی معطلی


میرے سامنے ابھی دو تصاویر ہیں، ایک تصویر اس تحریک استحقاق کی ہے، جو تحریک انصاف کی ایک ایم پی اے صاحبہ نے پنجاب اسمبلی میں پیش کی، دوسری تصویر اس نوٹیفکیشن کی ہے، جو سکریٹری صحت پنجاب نے شائع کیا ہے، جس کی رو سے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ چلڈرن ہسپتال ملتان ڈاکٹر شاہد کو معطل کیا جاتا ہے۔

ان تصاویر کے پچھے جو کہانی ہے وہ یہ ہے، ” ایم پی اے صاحبہ کی بیٹی بیمار تھیں، وہ انہیں چیک کروانے کے لئے چلڈرن ہسپتال ملتان گئیں، سیدھا او پی ڈی (آؤٹ ڈور پیشنٹس) جانے کی بجائے وہاں کے ایم ایس کے آفس گئیں۔ ایم ایس (میڈیکل سپرنٹنڈنٹ) صاحب نے ڈی ایم ایس، ڈاکٹر شاہد کو بلایا، انہیں ان کی بیٹی کا چیک اپ کروانے کا کہا، ڈاکٹر شاہد ایم پی اے صاحبہ کو، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ کی او پی ڈی لے گئے۔ ڈاکٹر سعدیہ جو وہاں مریضوں کا چیک اپ کر رہی تھیں، ایم پی اے صاحبہ نے ان سے کہا کہ میری بیٹی بیمار ہے، آپ اسے چیک کریں، ڈاکٹر سعدیہ نے جب ان سے علامات کا پوچھا، تو ایم پی اے نے جواب دیا کہ آپ کو علامت کا ڈاکٹر شاہد نے نہیں بتایا؟

ڈاکٹر صاحبہ نے جواب میں کہا کہ آپ ماں ہیں اور آپ ہی بہتر بتا سکتی ہیں، اس بات پر ایم پی اے صاحبہ ناراض ہو گئیں اور واپس ایم ایس کے دفتر چلی گئی اور ساری بات بتائی، ایم ایس صاحب نے انہیں اپنے ہی آفس میں چیک اپ کروانے کی آفر کی جو انہوں نے رد کر دی اور چیک اپ کروائے بغیر ہی ہسپتال سے چلی گئیں، بعد میں انہوں نے تحریک استحقاق پیش کی جس کے مطابق ایم ایس، ڈی ایم ایس اور ڈاکٹر سعدیہ کا رویہ تضحیک آمیز تھا جو اس اسمبلی کے تمام ارکان کے استحقاق کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور سکریٹری صحت نے ڈی ایم ایس (ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ) ڈاکٹر ارشد کو معطل کر دیا ”

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر راشد خود ان کی او پی ڈی سلپ بنا کر لائے۔ ایم پی اے صاحبہ جو خود لیڈی ہیلتھ وزیٹر رہی ہیں، انہیں بھی سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈی کے رش کا پتا ہے، لیکن حیرت ہے انہوں نے پھر بھی تحریک استحقاق پیش کی۔

ہماری اخلاقی، سماجی پستی کی اس سے بدتر مثال کیا ہو گی جس میں ایک ”خواتین کے مخصوص کوٹے پر منتخب ایم پی اے کو“ صیح پروٹوکول نا دینے پر ایک ڈاکٹر کو اپنی نوکری سے ہاتھ دونا پڑ گیا۔ ہمارے ہاں یہ غلط روایت پنپ چکی ہے جس کے مطابق ہر عہدیدار کو پبلک مقامات پر پروٹوکول چاہیے، اگر نہیں دو گے تو نوکری سے جاؤ گے۔

چلڈرن ہسپتال کے ڈی ایم ایس کی معطلی کے بعد گرینڈ ہیلتھ الائنس (GHA) اور ڈاکٹروں کی تنظیم ( وائی ڈی اے ) نے احتجاج بھی کیا، لیکن سرکار کے کانوں پر جوں تک نا رینگی۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے الیکشن کے وعدوں میں سے ایک وعدہ پروٹوکول کلچر کو ختم کرنا بھی تھا، لیکن تبدیلی کے پہلے سال میں اس کلچر میں کمی تو نہیں آئی لیکن اضافہ ضرور ہوا ہے۔

ایک سال پہلے جب ڈاکٹر یاسمین راشد نے صوبائی وزیر صحت کا قلمدان سنبھالا تھا، تو سب سے زیادہ خوشی پڑھے لکھے طبقے خصوصاً ڈاکٹرز کو ہوئی تھی کہ اب محکمہ صحت کے معاملات پروفیشنل لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، لیکن محکمہ صحت کی کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈی میں تو رش ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، اوپر سے ایک ایم پی اے کا وہاں جا کر پروٹوکول مانگنا، پسند کا پروٹوکول نا ملنے پر تحریک استحقاق جمع کروانا، ڈاکٹر کو معطل کروانا، محکمہ صحت کی اس سے بری حالت کیا ہو گی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا، وزیر صحت (جو خود مشہور گائناکالوجسٹ) ہیں، اس تحریک استحقاق کی مخالفت کرتیں، اپنی ساتھی ایم پی اے کو سمجھاتیں، لیکن انہوں نے ہمیشہ کی طرح سیاسی مصلحتوں کا عملی مظاہرہ کیا۔ پچھلے دور حکومت کبھی یہ نہیں ہوا تھا کہ ایم پی اے کو پروٹوکول نا دینے پر کسی ڈاکٹر کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ہوں۔

یہ ایم پی اے صاحبہ، جو نا تو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئیں، نا ہی وہ عوامی نمائندہ ہیں، انہیں کس وجہ سے پروٹوکول دیا جائے؟ اپنی ڈیوٹی پر موجود فرض شناس ڈاکٹر کو اپنی پسند کا پروٹوکول نا دینے ہر معطل کروانا، ایم پی صاحبہ کی اخلاقی پستی کا عملی مظاہرہ ہیں۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کی وجہ سے ڈاکٹرز تو پہلے ہی ہڑتالوں پر ہیں، اوپر سے اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لئے ڈاکٹرز کو نوکری سے نکلوانا جلتی آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔

ڈاکٹر کے نزدیک سارے مریض برابر ہوتے ہیں۔ وہ تمام مریضوں کو ایک ہی طریقے سے چیک کرتا ہے۔ آپ ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں کہ وہ آپ کو اپکی کرسی کی بدولت، پہلے سے موجود مریضوں کو چھوڑ کر پہلے چیک کرے، اگر آپ ایسی سوچ کے مالک ہیں تو آپ کو اپنے رویے ہر نظرثانی کرنی چاہیے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پروٹوکول نامی بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، حکومت قانون سازی کرے کہ پبلک مقامات خاص طور پر ہسپتالوں میں کسی سیاسی شخصیت کو کسی قسم کا کوئی پروٹوکول نہیں ملے گا۔

زندہ قومیں اپنے محسنوں اور مسیحاؤں کے ساتھ عزت اور احسان کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ چلڈرن ہسپتال ملتان میں پیش آنے والے اس افسوسناک واقعہ کی مکمّل غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور یک طرفہ اختتامی کارروائی کا شکار ہونے والے ڈاکٹر کو انصاف فراہم کیا جانا چاہیے۔ اگر ڈاکٹر صاحب قصوروار ہیں تو انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے، لیکن اگر غلطی ایم پی اے صاحبہ کی ہے تو ان سے بھی جواب طلب کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں، ایم پی اے ہونے اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں، کسی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا کسی بھی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).