فضل الرحمان کا لانگ مارچ۔ ’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ ‘ گھبرائیں کیا‘‘


بہت دنوں کے بعد گزشتہ ہفتے گھر سے نکل کر دوستوں کی محفلوں میں بیٹھنے کا موقعہ میسر ہوا۔ ہر محفل میں موضوع سخن مولانا فضل الرحمن کا اعلان کردہ لانگ مارچ رہا۔ جن دوستوں سے گفتگو ہوئی ان کی اکثریت کو عمران خان صاحب سے کوئی ہمدردی نہیں۔ مولانا کے ’’عزائم‘‘ مگر ان کی سخت تنقید کا نشانہ بنے رہے۔’’لبرل‘‘ سوچ والوں کی مبینہ طورپر دین کے نام پر ’’فتنہ وفساد پھیلانے والوں‘‘ کے خلاف جارحانہ تنقید۔

میرے دوستوں کو خدشہ یہ بھی لاحق تھا کہ مولانا کا مارچ موجودہ ’’جمہوری نظام‘‘ کے خاتمے کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔اس مارچ کے ’’حقیقی‘‘ پشت پناہوں اور سرپرستوں کی تلاش بھی لہذا جاری رہی۔

بحث کی اب مجھ میں عادت باقی نہیں رہی۔خاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔سیاسی موضوعات سے ویسے بھی اُکتاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ان دنوں میسر ’’جمہوریت‘‘ کا ذکر ہو تو پنجابی والا ’’ہاسہ چھوٹ‘‘ جاتا ہے۔اس کے ’’تحفظ‘‘ میں کھڑے ہونے کی ہمت وجرأت سے خود کو محروم پاتا ہوں۔ نام نہاد ’’رائے عامہ‘‘ کی فوقیت کے تصور سے نام نہاد مہذب ممالک بھی دورِ حاضر میں محروم ہوچکے ہیں۔دُنیا کی قدیم ترین جمہوریت ’برطانیہ‘ میں حال ہی میں ایک سروے ہوا ہے۔

اس کے نتائج کے مطابق برطانیہ کے فقط 25 فی صد شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ ریاستی فیصلہ سازی پر ان کی رائے اثرانداز ہوتی ہے۔بے پناہ اکثریت شدت سے یہ محسوس کرتی ہے کہ حکمران اشرافیہ کی اپنی ترجیحات ہیں۔سیاسی کھیل درحقیقت ان ترجیحات کے مابین تنائو پر مشتمل ہے۔ عام آدمی کی ضروریات وترجیحات کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔برطانیہ جیسے ممالک میں اگر عام آدمی نے اپنی اوقات پہچان لی ہے تو ہم پاکستانیوں کو کبھی کبھار نصیب ہونے والی ’’جمہوریت‘‘ کی ہر قسم سے گزارہ کرنے کی عادت اپنا لینا چاہیے۔ ’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘والی بے اعتنائی کے ساتھ۔

اخبار کے لئے کالم لکھ کر رزق کمانے والا ایک زمانہ میں ضرورت سے زیادہ متحرک مشہور ہوا رپورٹر مگر سیاسی موضوعات کونظرانداز کر نہیں سکتا۔یہ کالم لکھنے سے قبل لٰہذا مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ لانگ مارچ پر سنجیدگی سے غور کرنے کو مجبور ہوا۔

نظر بظاہر مولانا صاحب عمران حکومت کا لانگ مارچ کے ذریعے خاتمہ چاہ رہے ہیں۔ ان کی دانست میں یہ حکومت ’’جعلی ووٹوں‘‘ کے استعمال سے بنائی گئی۔ انتخابی عمل کے مبینہ ’’کھلواڑ‘‘ سے بنائی حکومت سے شاید وہ گزارہ کرلیتے مگر ان کی دانست میں یہ حکومت ’’نااہل‘‘ بھی ہے۔معیشت میں جمود لانے کے علاوہ بے روزگاری پھیلارہی ہے۔’’کشمیر کا سودا‘‘ کرچکی ہے۔ پاکستان کو ’’تنہا‘‘ کررہی ہے۔

گفتگو کو آگے بڑھانے کی غرض سے تسلیم کرلیتے ہیں کہ جولائی 2018میں ’’مینڈیٹ‘‘واقعتاً ’’چوری‘‘ ہوا تھا۔ اگر ایسا ہوا تو ’’ڈاکہ‘‘ نظر بظاہر نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ (نون) کے ووٹ بینک پر پڑا۔انہیں آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بھی حکومت بنانے کی گنجائش میسر نہ ہوئی۔ عمران حکومت اگر ’’جعلی مینڈیٹ‘‘ کی پیداوار ہے تو اس کے خلاف شدید ترین مزاحمت اس جماعت کی جانب سے ابھرتی نظر آنا چاہیے تھی ۔

اس جماعت کے صدر جناب شہباز شریف صاحب اس ضمن میں لیکن فکرمند نظر نہیں آرہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے بنچوں پر ان ہی کی جماعت کے نمائندے بھاری بھر کم تعداد میں موجود ہیں۔ان کی اکثریت شاید خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ پر نازل ہوئی آفتوں سے خوفزدہ ہوچکی ہے۔خواجہ سعد رفیق کو بھول گئی۔ سرجھکائے ایوان میں تشریف لاتی ہے۔تھوڑی دیر موجود رہنے کے بعد گھروں کو لوٹ جاتی ہے۔احسن اقبال اور مریم اورنگزیب صاحبہ کبھی کبھار کوئی پریس کانفرنس فرمادیتے ہیں۔میں ہرگز سمجھ نہیں پارہا کہ مبینہ طورپر جن کا گھر جولائی 2018میں لٹا وہ اگر موجودہ حالات سے نبھاہ کرنے کو تیار ہیں تو مولانا فضل الرحمن صاحب کو ان کا غم کیوں کھائے جارہا ہے۔ مدعی سست ا ور گواہ چست والا معاملہ محسوس ہوتا ہے۔

سوچتا میں یہ بھی ہوں کہ اگر مولانا صاحب کی تحریک کی بدولت نئے انتخابات منعقد ہو بھی گئے تو ان کا سب سے زیادہ فائدہ ممکنہ طورپر نواز شریف صاحب کے نام سے منسوب مسلم لیگ کو ہوگا۔ جنوبی پنجاب میں شاید پاکستان پیپلز پارٹی چند مزید نشستوں پر کامیاب ہوجائے گی۔مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو ان انتخابا ت کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اورصوبائی حکومتوں میں شاید اپنے جثے سے زیادہ ضرور حصہ مل جائے گا۔

محض اس حصے کی تمنامیں مولانا فضل الرحمن جنہیں ان کے بدترین دشمنوں نے بھی ہمیشہ بہت زیرک سیاست دان شمار کیا ہے اپنی ساکھ کو ممکنہ طورپر ہمیشہ کے لئے تباہ کرنے کا خطرہ کیوں مول رہے ہیں۔ اس ضمن میں جو سوالات میرے ذہن میں آتے ہیں ان کا مؤثر جواب مجھے آج تک نہیں مل پایا ہے۔انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع سے اگرچہ مجھے ٹھوس اعتبار سے یہ خبر ملے چلی جارہی ہے کہ مولانا اپنا لانگ مارچ منعقد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ انتہائی اعتماد سے شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے روبرو تنہائی میں دعویٰ کئے چلے جارہے ہیں کہ ان کے مارچ میں ’’لاکھوں‘‘ کی تعداد میں اتنے لوگ شریک ہوں گے کہ دُنیا حیران ہوجائے گی۔حکومت کو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ وہ اس ہجوم سے کیسے نبردآزما ہو۔ شاید ’’گھبرا‘‘ کر استعفیٰ دینے کو مجبور ہوجائے گی۔

مولانا صاحب کے اس دعویٰ کو جھٹلانے کی میرے پاس کوئی مؤثر دلیل موجود نہیں ہے۔پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے احوال پر گہری نگاہ رکھنے کی عادت بھی مگر لاحق ہے۔ اس عادت کی بدولت یاد آیا کہ گزشتہ کئی مہینوں سے ہر ویک اینڈ پر فرانس میں پیلی جیکٹوں والے نمودار ہوجاتے ہیں۔ان کا بنیادی غم بھی مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ابتداء میں ان کے مظاہرے پر تشدد ہوگئے۔ ان پر قابو پانے کے لئے فرانس کی پولیس نے ویسی ہی گولیاں استعمال کیں جو بھارتی حکومت مظاہرین کو بینائی سے محروم کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں استعمال کرتی رہی ہے۔فرانس کے مین سٹریم میڈیا میں اس کا تذکرہ مگر ہرگز نہیں ہوا۔ فرانس کی حکومت اپنی جگہ آج بھی قائم ہے۔ پیرس میں مظاہرین کی تعداد کم تر ہوتی جارہی ہے۔ چند شہروں میں بھاری بھر کم اجتماع مگر بدستور دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

فرانس کے علاوہ ہانگ کانگ بھی ہے۔وہاں بھی ہر ہفتے کے آخری دو دنوں میں گزشتہ چار مہینوں سے ہزاروں افراد سڑکوں پر آجاتے ہیں۔فرانس کے مقابلے میں یہاں ہونے والے مظاہرے بتدریج متشدد سے متشد دتر ہورہے ہیں۔عمارتیں جلائی جارہی ہیں۔چین نے ہانگ کانگ کی تقریباََ ہر گلی اور محلے میں ایسے کیمرے نصب کررکھے ہیں جو مظاہرین کو پہچان کر ان کے سمارٹ فونز تک بھی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔گزشتہ دو ہفتوں سے اب مظاہرین ان کیمروں کو غیر مؤثر بنانا شروع ہوگئے ہیں۔

چینی حکومت کے روایتی ناقدین کو گمان تھا کہ مظاہرین کی حرکات سے مشتعل ہوکر بالآخر وہ اس جزیرے کو فوج کے حوالے کرنے کو مجبور ہوجائے گی۔چین کی حکومت مگر حیران کن صبر کا مظاہرہ کئے چلے جارہی ہے۔ پیر سے جمعہ تک ہانگ کانگ کے باسی معمول کی زندگی گزارتے ہیں۔ ہفتے کے آخری دو دن مگر ’’وحشی‘‘ ہوجاتے ہیں۔ ’’جنگ‘‘ اور ’’امن‘‘ دریا کے دو کناروں کی طرح ایک ساتھ چل رہے ہیں۔کبھی کبھار یہ خدشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ لانگ مارچ کے ساتھ بھی کہیں ایسا ہی واقعہ نہ ہوجائے۔

اسلام آباد میں 2014بھی آیا تھا۔ 126دنوں تک عمران خان صاحب ڈی چوک میں براجمان رہے۔ میڈیا میں ان کے دھرنے کو بے حد پذیرائی ملی۔ مولانا صاحب کے لانگ مارچ کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔ فقط سوشل میڈیا پر قناعت کرنا ہوگی۔میرے دوست اگرچہ بضد رہے کہ انہیں میسر ’’ٹھوس‘‘ اطلاعات کے مطابق مولانا کے لانگ مارچ کو ’’کسی صورت‘‘ اسلام آباد میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔

اسی باعث انہیں ’’جمہوی نظام‘‘ کو بچانے کی فکر لاحق ہے۔میں ان کی فکرمندی میں اگرچہ اپنا حصہ نہ ڈال پایا۔بنیادی سوالات جو ذہن میں مولانا کے لانگ مارچ کی مناسبت سے امڈتے ہیں ان کے جوابات مل نہیں پائے ہیں۔فکرمندی کے بجائے لہذا لاتعلقی کا رویہ اپنائے ہوئے ہوں۔ لانگ مارچ کے بجائے تشویش بھرے دل کے ساتھ اکتوبر کے مہینے میں آنے والے بجلی کے بل کا انتظار کررہا ہوں۔ اسلام آباد کی ٹریفک پولیس نے میری دونوں بیٹیوں کو کار چلانے کے لائسنس بھی جاری کردئیے ہیں۔اس لئے پیٹرول کی قیمت پر نگاہ رکھنے کو بھی مجبور ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).