اویغوروں سے’بدسلوکی‘: امریکہ نے 28 چینی کمپنیاں بلیک لسٹ کر دیں


چین، سنکیانگ، مشرقی ترکستان، اویغور

AFP/Getty
انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ بیجنگ اکثریتی طور پر مسلمان اویغور افراد کو حراستی کیمپوں میں قید کر رہا ہے

امریکہ نے چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور برادری کے افراد سے مبینہ بدسلوکی کے الزام میں 28 چینی اداروں کو ’بلیک لسٹ‘ کر دیا ہے۔

اب یہ ادارے ’اینٹٹی لسٹ‘ کہلانے والی فہرست میں شامل کر دیے گیے ہیں اور یہ اب وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر امریکی کمپنیوں سے مصنوعات نہیں خرید سکیں گے۔

ان 28 اداروں میں سرکاری ادارے اور نگرانی کے آلات کی تیاری میں مہارت رکھنے والی ٹیکنالوجی کمپنیاں شامل ہیں۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ امریکہ نے چینی اداروں پر تجارتی پابندی عائد کی ہے۔

اس سے پہلے مئی میں ٹرمپ انتظامیہ نے دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنیوں میں سے ایک ہواوے کو بھی اس کی مصنوعات کے حوالے سے سکیورٹی خدشات پر اینٹٹی لسٹ میں شامل کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’اویغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا علم نہیں‘

’عمران انکل میری امی اور بھائی کو واپس لا دیں‘

امریکی پابندیوں کے بعد ہواوے کے روس سے معاہدے

ہواوے کے فونز سے گوگل کی بعض سروسز معطل

امریکہ کے محکمہ تجارت کی ایک دستاویز کے مطابق یہ ادارے ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور استحصال میں ملوث ہیں۔‘

انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ بیجنگ اکثریتی طور پر مسلمان اویغور افراد کو حراستی کیمپوں میں قید کر رہا ہے۔ دوسری جانب چین انھیں انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ’ہنرمندوں کے تربیتی مراکز‘ کہتا ہے۔

امریکہ نے کیا کہا ہے؟

محکمہ تجارت نے اپنے پیر کے فیصلے میں کہا کہ یہ 28 ادارے ’اویغور، قازق اور دیگر مسلم اقلیتی گروہوں کے خلاف چین کی جبر، وسیع پیمانے پر غیر قانونی حراست اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نگرانی کی مہم کا حصہ ہیں۔‘

سنکیانگ صوبے کا پبلک سکیورٹی بیورو دیگر 19 چھوٹے حکومتی اداروں کے ساتھ اس فہرست میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ ہِک وژن، داہوا ٹیکنالوجی اور میجوی ٹیکنالوجی ان آٹھ کمرشل گروپس میں سے ہیں جنھیں اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ تمام کمپنیاں چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی میں خصوصی مہارت رکھتی ہیں۔ ہِک وژن نگرانی کے آلات تیار کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

ہواوے، چین، امریکہ

رواں سال کے اوائل میں ہواوے پر امریکہ نے پابندیاں عائد کی تھیں

امریکہ اور چین فی الوقت ایک تجارتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اور اس ہفتے اس کشیدگی میں کمی کے لیے واشنگٹن میں چینی وفود بھی آئے ہیں۔


مصنوعی ذہانت کی ماہر کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے

کرشمہ واسوانی، نامہ نگار بی بی سی ایشیا بزنس

یہ اقدام بلاشبہ چین کے ٹیکنالوجی سے منسلک عزائم کو مختصر مدت کے لیے ہی سہی مگر نقصان پہنچائے گا۔

جن کمپنیوں کو ہدف بنایا گیا ہے وہ مصنوعی ذہانت میں مہارت رکھنے والی چین کی سب سے بڑی کمپنیاں ہیں اور چین اپنے مستقبل کے لیے اسی صنعت پر منحصر ہے۔

مگر مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز کی تربیت میں استعمال ہونے والے آلات فی الوقت صرف انٹیل، موویڈیئس اور اینویڈیا جیسی امریکی کمپنیاں بناتی ہیں۔

لیکن چین کی جانب سے امریکی ٹیکنالوجی کی چینی کمپنیوں کو فروخت پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کی وجہ سے چین خود انحصاری کی اپنی خواہش میں تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔

مثال کے طور پر جب امریکہ نے اس سال کے اوائل میں ہواوے کو اینٹٹی لسٹ میں شامل کیا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ گوگل جیسی کمپنیوں کو اب ہیواوے کو (سافٹ ویئر) فروخت کرنے سے قبل واشنگٹن سے برآمدی لائسنس لینا ہوگا۔

مگر ردِعمل میں ہواوے نے کہا کہ وہ اپنے فونز میں استعمال کے لیے اپنا سافٹ ویئر تیار کرنا شروع کر رہی ہے۔

دیگر امریکی ٹیکنالوجی کا بھی چینی متبادل تیار کیا جا رہا ہے۔

اب جب چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ ٹیکنالوجی پر جنگ میں تبدیل ہو رہی ہے تو صارفین کو بالآخر مکمل طور پر چینی یا مکمل طور پر امریکی مصنوعات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔


سنکیانگ میں صورتحال کیا ہے؟

چین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کے لوگ انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ’اصلاحی و تربیتی مراکز‘ میں رکھے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چین: سنکیانگ میں لمبی داڑھی اور پردے پر پابندی

’مسلمان بچوں کو والدین سے جدا نہیں کیا جا رہا‘

‘چینی کیمپ میں میری بیوی کو برہنہ کیا گیا’

مگر انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ چین دس لاکھ اویغور اور دیگر مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں قید کیے ہوئے ہے۔

سنکیانگ میں چین کے اقدامات کی امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔

اویغور

اویغور نسلی اعتبار سے وسط ایشیائی مسلمان ہیں اور چین کے صوبہ سنکیانگ کی آبادی کا 45 فیصد ہیں

گذشتہ ہفتے امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ویٹیکن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا تھا چین اپنے شہریوں سے خدا کے بجائے حکومت کی پرستش کا مطالبہ کرتا ہے۔

جولائی میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 20 سے زائد ممالک نے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے جس میں چین کے اویغور اور دیگر مسلمانوں سے سلوک پر تنقید کی گئی تھی۔

اویغور کون ہیں؟

اویغور نسلی اعتبار سے وسط ایشیائی مسلمان ہیں۔ یہ چین کے سنکیانگ خطے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں جبکہ یہاں 40 فیصد ہن نسل کے چینی باشندے بھی آباد ہیں۔

چین نے 1949 میں مختصر عرصے کے لیے قائم ہونے والی ریاست مشرقی ترکستان کو ختم کرتے ہوئے یہاں اپنا کنٹرول دوبارہ قائم کر لیا تھا۔

تب سے اب تک یہاں چین کے دیگر علاقوں سے ہن چینی بڑی تعداد میں آباد ہوئے ہیں اور اویغور برادری کو خدشہ ہے کہ اس سے ان کی ثقافت ختم ہونے جا رہی ہے۔

چین میں سنکیانگ کو سرکاری طور پر جنوبی خطے تبت کی طرح خودمختار حیثیت حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp