پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت گردی کے حالیہ واقعات


\"jaffar-khan-bazai\"گزشتہ دوہفتوں کے دوران جمعیت اسلامی طلبہ کے بارے میں لکھی گئی تحریریں نظر سے گزریں۔ یہ ہوا کا تازہ جھونکا کسی موصوف نے اپنے اوپر بیتے ہوئے بیس سال پہلے ظلم و جبر کی داستان کو اپنے تحریر کا حصہ بنایا۔تو کسی نے چار سال پہلے کے واقعات جس میں تشدد ظلم اور ان کی منافقانہ روش اور داغدار ماضی کا ذکر تھا۔ان تحریروں سے ایسا ذکر ملا کہ ان کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھ کر سوچا کیوں نا دوستوں کو موجودہ صورت حال سے آگاہ کیا جائے۔

آج سے تقریباً پانچ روز پہلے کے واقعہ کا ذکر کرتا چلوں۔ کیمیکل  ڈپمارٹمنٹ کے طلبہ نے اپنے C.R Class representative کو اس کی سستی کی وجہ سے متفقہ طور پر تبدیل کرنا چاہا تو موصوف جو جمعیت سے وابستگی رکھتے ہیں کی حمایت میں کیمیکل  ڈپمارٹمنٹ کے ناظم صاحب کلاس میں تشریف لے آئے۔ کلاس کو ڈرایا اور دھمکایا اور اسی رات ہاسٹل نمبر 8 سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم حمزہ قریشی کے کمرے میں جمعیت کے عہدےدار اکٹھے ہوئے اور حمزہ کو گریبان سے پکڑ کر تشدد کیا گیا۔ اسی طرح حمزہ کو مارتے پھرتے باہر لے آئے اور زورزبردستی ہاسٹل نمبر 17 لے گئے۔وہاں پر بیٹھے جمعیت کا ناظم علی حسن وٹو نے حمزہ کو دھمکایا اور تشدد کا نشانا بنایا۔باہر آکر ہاسٹل کے مین گراﺅنڈ لے گیا ان میں دو کارکن ہدایت اللہ جو بچا رہا تھا بعد میں اپنے دوسرے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اب انہیں خوب مارو۔ طلبہ پہ تشدد اور جسمانی ایذا جمعیت کا مسلسل خاصہ ہے، جسم پر استریاں لگانا اور ہنٹر سے مارنا، جسمانی نازک اعضا پر ضربیں لگانا ان کا معمول ہے۔ جسمانی اعضا کے ساتھ ذہنی اذیت پہنچانے کے لئے طلبہ کو مسلسل دھمکانا اور گھر والوں کو دھمکی آمیز فون کرنا معمول کے واقعات ہیں۔

یہ سفید ریچھ اپنے آپ کو ایمان کے اعلی درجہ پر فائز سمجھتے ہیں۔ جب کہ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو آپ برائی کو ہاتھ سے روکنا، کسی پر تشدد طریقے سے جسمانی یا ذہنی ،فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے۔اگر ان کی ظاہری خدوخال کو دیکھا جائے تو وہ بھی دینی و ظاہری لحاظ سے مختلف ہیں۔ اسی طرح ایک دفعہ نماز مغرب میں اذان کے بعد ایک شخص STC(Stdent teacher center)میں باریش وضع قطع سنت نبوی کے مطابق حامل شخص جماعت کے لئے آگے کھڑا ہوااور جماعت کرائی تو بعد از جماعت ناظم جمعیت نے طنزاجملہ کسا ”کیا ہماری نماز قابل قبول ہے آپ کے پیچھے“ کیونکہ شاذونادر ناظم کی امامت میں ادا کی جاتی ہے۔ وضع قطع شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ مگر وہاں کوئی اس قدر حوصلہ کا حامل نہیں تھا کہ یہ پوچھ سکتا کہ اگر ”سراج الحق کے پیچھے عیدالفطر کی نماز قبول ہو سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں“ خیر ایسی دلیل کا جواب وہ خود جانتا تھا۔

گزشتہ کل پیش آنے کے واقعہ کا راقم خود عینی شاھد ہے۔ جس میں جمعیت کے علمبرداروں نے ایک لڑکا اور لڑکی کو V.C گراؤنڈ کے پاس روکا اور ان سے ان کے رشتہ کے بارے میں دریافت کیا ۔ وہ کزن تھے جواب میں ان سے ثبوت مانگے گئے، آخر کار ان دونوں کو اپنی معیت میں نا معلوم مقام کی طرف لئے گئے۔ آگے انکے ساتھ کیا معاملہ ہوا راقم یہ اندازہ کرنے سے قاصر ہوں۔ یونیورسٹی طلبہ کے درمیان یہ عام تاثر ہے کہ جمعیت میں وہ طلبہ جاتے ہیں جن کو کوئی لڑکی منہ نہیں لگاتی یا کوئی ذاتی مفاد کسی بھی قسم کا جن میں تعلیمی تا دیگر مقاصد بھی کار فرما ہو سکتے ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد دو قسم کی طلبہ تنظیمیں وجود میں آئی، ایک بائیں بازو کی تنظیمیں  جنمیں عوامی لیگ، DSF,NSF,NSF Pashtoon, اور بلوچ سٹوڈنٹ تنظیمیں  سر فہرست رہیں۔ تو دوسری طرف دائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں  جن میںMSF JTI, IJT, وغیرہ سر فہرست رہی۔ بدقسمتی سے دائیں بازو کی تنظیموں کو اپنے مفاد کے حصول کےلئے ریاستی سطح پر سر پرستی کی گئی۔ انہوں نے نا صرف اپنی طاقت کا بے جا استعمال کیا بلکہ اپنے نظریات زبردستی تھوپنے کی کوشش بھی کی۔جس کا آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ درس گاہیں جہاں سے علم و آگاہی اور ترقی پسند سوچ کا مجموعہ نکلنا چاہے وہاں سے رجعت پسندی اور محدود سوچ والے طلبہ نکل کر معاشرے میں سرایت کرنے لگے۔ جسکا نتیجہ آج سامنے ہے بلکہ پکی ہوئی فصل ہم کاٹ رہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایسے تنظیموں کے سامنے ہمیشہ مزاحمت کرنے والی تنظیمیں  نا کافی سہولیت کے با وجود اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ پنجابب یونیورسٹی میں 2008 میں پشتون ڈویلپمنٹ موومنٹ PEDM،بلوچ کونسل اور گلگت کونسل اپنے قیام کے بعد ایسی جماعتوں اور سوچ کے خلاف اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تنظیمیں  فلاحی کاموں طلبہ کی امداد مختلف حوالوں سے خون کے عطیات قدرتی آفات میں اپنے ہم وطن اور ہم جامعہ طلبہ کی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔خاص طور پر PEDM کا کام اس سلسلے میں قابل ستائش ہے۔خون کے عطیات ضرورت مندوں کی جاں بچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔خاص طور پر یہ دور دراز،دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے سادہ لوح انسانوں کے لئے خون کے عطیات اور دیگر انکی ضروریات کو پورا کرنے میں بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

حاصل تحریر راقم کا بس اتنا ہے کہ ان تنظیموں میں فرق صرف ایک چیز کا ہے۔ ایک خون دے کر جان بچا تا ہے تو دوسرا ذاتی مفاد کے لئے خون بہانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments