جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواستیں: ’مسٹر یہ کیک نہیں یہ کیس ہے‘


سپریم کورٹ

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ پہلے تو اس لارجر بینچ کو اس صدارتی ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے متعلق درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے

پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ عدالت اس معاملے میں ثبوتوں کے بغیر نہ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کلین چٹ دے سکتی ہے اور نہ ہی صدر یا وزیر اعظم کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر سکتی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز اس کیس کی سماعت کورٹ روم نمبر ایک میں کی جو پاکستان کے چیف جسٹس کی عدالت ہے۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کرسکتی اور اس واقعے کے بعد عوام میں عدالت عظمیٰ کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جب ان درخواستوں کی سماعت شروع کی تو بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ اب آپ کی طبعیت کیسی ہے کیونکہ گذشتہ سماعت آپ کی طبعیت کی ناسازی کی وجہ سے ملتوی کی گئی تھی۔

اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ وہ اپنی طبعیت کے بارے میں اس سماعت کے بعد بتائیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کو جلد از جلد نمٹانا چاہتی ہے کیونکہ اس معاملے میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے اور دو ہفتوں کے بعد اس بینچ کے ایک رکن اسلام آباد میں موجود نہیں ہوں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ پہلے تو اس لارجر بینچ کو اس صدارتی ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے متعلق درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔

منیر اے ملک نے عدالت سے کہا کہ پہلے ان کے موکل پر لگائے گئے الزامات کے شواہد تو پیش کیے جائیں۔

اُنھوں نے بظاہر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ مقدمہ نہیں ہے کہ کسی جج کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہو یا کسی جج کو گھر میں نظربند کیا گیا، بلکہ یہ وہ مقدمہ ہے جس کے بارے میں قانون یعنی اثاثے ظاہر کرنے کے بارے میں قانون موجود ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام لگانے والا شخص کون ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ اس معاملے میں نہ صرف ایک جج کو ہراساں کیا جا رہا ہے، بلکہ ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے پوری عدلیہ ہراساں ہو رہی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ ان کے موکل کے خلاف مہم کیوں چلائی جارہی ہے، جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اس ضمن میں ثبوت فراہم کرنے کے پابند نہیں ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے منیر اے ملک سے کہا کہ ان کے موکل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جب بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو اس وقت مبینہ طور پر بنائی گئی تین جائیدادوں کا ذکر ہے جس کے بارے میں اُنھیں بتانا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ ایک جج کا معاملہ نہیں بلکہ پوری عدلیہ کے وقار کا معاملہ ہے اور عدلیہ کا وقار کسی طور پر بھی نہیں گرنے دیں گے۔

بینچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل پر دباؤ ڈالا کہ وہ جلد از جلد اپنے دلائل شروع کریں۔ منیر اے ملک دلائل شروع کرنے ہی والے تھے کہ ایک وکیل روسٹرم پر آئے اور ان سے کہا کہ وہ ان درخواستوں کے التوا کی استدعا کریں کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے آج ہی اٹارنی جنرل نے جواب جمع کروایا ہے۔

منیر اے ملک نے پانی کا گھونٹ پیا اور کہا کہ مائی لارڈز مجھے اس درخواست میں التوا چاہیے کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل اور وفاق کی طرف سے جو جواب جمع کروایا گیا ہے اس کا مطالعہ کرنا اور اپنے موکل سے رائے لینا بہت ضروری ہے۔

بینچ کے سربراہ نے اپنے تئیں بہت کوشش کی کہ منیر اے ملک اپنے دلائل شروع کریں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے، جس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر طلب کیا اور ان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مقدمے کی سماعت میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں۔

اٹارنی جنرل نے لارجر بینچ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ اس جواب میں ایسی کوئی نئی دستاویز لف نہیں کی گئی جو پہلے سے ہی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ ہو۔

کمرہ عدالت میں موجود وکلا نے جب یہ دیکھا کہ لارجر بینچ کی طرف سے منیر اے ملک کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے تو زیادہ تر سینیئر وکلا روسٹرم پر آ گئے، جس پر بینچ کے سربراہ نے منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں وکلا کی کافی حمایت حاصل ہے۔

سینیئر وکلا کے روسٹرم پر اکٹھے ہونے کے بعد بینچ کے سربراہ کے لہجے میں نرمی آگئی۔

دیگر درخواست گزاروں نے بھی عدالت سے استدعا کی کہ اُنھیں بھی وفاق کی طرف سے جو جواب جمع کروایا گیا ہے اس کی کاپی فراہم کی جائے۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک درخواست گزار کے وکیل رشید اے رضوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’مسٹر یہ کیک نہیں، یہ کیس ہے۔ اس میں آپ کو حصہ لینا نہیں بلکہ حصہ ڈالنا ہے‘ جس پر عدالت میں ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا۔

بعد میں بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کردی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp