اکتوبر 2005ء… نورخان ایئر بیس سے


چودہ سال قبل ماہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں آٹھ بجکر پچاس منٹ پر زمین تھرتھرائی تو سحری کے بعد کی گہری نیند میں ڈوبے لاکھوں پاکستانیوں کی طرح ہم بھی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے۔ میں نے پہلو میں پڑی دو سالہ بیٹی کو بازوؤں میں لپیٹا اور سوتے جاگتے میں مکان سے باہر کو لپکا۔ ننگے پاؤں لان میں کھڑے ہوکر دیکھا تو عمارت اب بھی لرز رہی تھی۔ فضا میں عجب ہیبت طاری تھی۔ اوسان بحال ہوئے تو بیوی اور وہ تین بچے بھی گھر سے باہر آچکے تھے کہ جنہیں میں اندر ہی چھوڑ آیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ جب ثور پھونکا جائے گا اور زمین کو زلزلوں سے بھر دیا جائے گا تو کسی کو کسی کا یارا نہ ہوگا۔ رشتوں کی پہچان معدوم اور ایک دوسرے کا ہوش نہ رہے گا۔ 8 اکتوبر 2005 ء کی صبح قیامت کا سا احساس ہوا۔

دوپہر کے آس پاس نیند سے بیدار ہونے پر ٹی وی کھولا تو پتا چلا کہ اسلام آباد میں مارگلہ ٹاور کا ایک حصہ زمین بوس ہو چکا ہے۔ ملبہ ہٹانے کے لئے بھاری مشینری نہ ہونے کی بنا پر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھارکھا تھا۔ آزاد کشمیر اور کے پی کے میں کیا قیامت گزر گئی، کسی کو اس بات کا اس وقت تک ادراک نہ تھا۔

میں جی ایچ کیو میں تعینات تھا اور دفتر سے ہفتہ وار چھٹی کا دن تھا۔ شام کے وقت دفتر سے ٹیلی فون کال آئی کہ رات گئے ایک کانفرنس ہے جس میں آزاد کشمیر کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے لئے امدادی اشیاء کی ترسیل کاجائزہ لینا مقصود ہے۔ نصف شب کے قریب منعقد ہونے والی کانفرنس میں طے پایا کہ صبح سویرے چار عدد ہیلی کاپٹرز نورخان ایئر بیس پر موجود ہوں گے جن میں امدادی اشیاء بشمول کمبل، خیمے اور سامان خوردونوش لادے جائیں گے۔

مجھے صبح سویرے ان ہیلی کاپٹرز کو بروقت مظفرآباد روانہ کرنے اوراپنی نگرانی میں ائیر پورٹ پر ہنگامی امدادی کیمپ قائم کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ اگلا دن اتوار کا تھا۔ اپنی دانست میں اس مختصر دورانیے کی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے میں وردی میں ملبوس صبح سویرے نورخان ایئر بیس پہنچ گیا۔ میری آمد سے قبل ہیلی کاپٹرز میں امدادی سامان رکھاجا چکا تھا۔ ہیلی کاپٹرز کی اڑان کی بعد میں امدادی کیمپ کے بارے اپنے سٹاف کو ضروری ہدایات دے ہی رہا تھا کہ دور فضا میں چند ہیلی کاپٹرز نمودار ہوئے اور کچھ ہی دیر میں ایئر بیس پر ہمارے قریب آکر اتر گئے۔

ان ہیلی کاپٹرز سے برآمد ہونے والے زخموں سے چور، خون اور خاک میں لت پت، شکستہ حال انسانوں کے نیم جان جسم، گزشتہ شب پہاڑوں کے عقب میں گزر جانے والی قیامت کی خبر لائے تھے۔ سراسیمگی کے عالم میں ہم آزاد کشمیراور کے پی کے میں برپا ہونے والی تباہی وبربادی کا کچھ اندازہ کرہی رہے تھے کہ اسی اثناء میں چند اور ہیلی کاپٹرز گڑگڑاتے ہوئے نمودار ہوئے اور ہمارے آس پاس اتر گئے۔ نورخان ایئر بیس کی پر سکوت صبح تھوڑی ہی دیر میں مردوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی سسکیوں، کراہوں اور چیخوں سے بوجھل ہو گئی۔

ایک کے بعد دوسرا جہاز اترتا چلا گیا اورزخمیوں کی لگا تارآمد کے درمیان گنتی، تکلیف اور تھکاوٹ کا احساس کہیں کھوکر رہ گیا! شام گئے تک ایئر بیس پر امدادی سامان سے لدے غیر ملکی جہازوں کی آمد بھی شروع ہوچکی تھی۔ ایئر بیس امدادی اشیاء ٹوٹی ہڈیوں والے کچلے جسموں، شکستہ روحوں اور جابجا سینوں میں پھنسی چیخوں سے اَٹ چکا تھا۔ جی ایچ کیو سے سینئر افسران اور اضافی نفری بھی پہنچ چکی تھی۔ میں جو صبح سویرے امدادی رسد کی روانگی کے سرسری جائزے اور چند افراد کو ذمہ داریاں تفویض کرنے کو ائیربیس پر آیا تھا، ایک طویل دن کے لئے زخمی جسموں اور شکستہ روحوں کی آمد کے نا ختم ہونے والے گرداب میں گھر کر رہ گیا تھا۔

اگلے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر دنیا بھر سے امدادی ٹیمیں اور امدادی اشیاء سے لبریز جہاز نورخان ایئربیس پر اتر چکے تھے۔ ایرانی کارگو جہاز بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ امریکی دستہ شینوک ہیلی کاپٹرز کے ساتھ حجم اور استعداد میں سب سے آگے تھا۔ سعودی عرب نے مالی امداد اور کیوبا نے مستعد ڈاکٹرز کی فراہمی دل کھول کر کی۔ زلزلہ زدہ علاقوں کو جانے والی تمام شاہراہیں امدادی قافلوں سے کھچا کھچ بھر چکی تھیں۔ ایئر بیس پر آنے والی امداد اس تواتر سے آ رہی تھی کہ وصولی ممکن نہ رہی۔ انسانیت بلا تفریق قومیت، مذہب اور رنگ ونسل اپنے جوبن پر تھی۔

عام حالات میں روزہ کی حالت میں سارا دن رن وے پربھاگ دوڑ ایک جان گسل عمل ہوتا، تاہم نورخان ایئر بیس پر بروئے کار انسانوں کے اندر بھوک اور پیاس کا احساس جیسے مٹ ہی گیا ہو۔ ایئر بیس پر امدادی سرگرمیوں کے کماندار بریگیڈیئر (بعدازاں جنرل) امتیاز حسین شیرازی تھے جنہوں نے اس ذمہ داری کو فرائض منصبی سے زیادہ عبادت سمجھ کر نبھایا۔ بریگیڈیئر شیرازی دن بھردھوپ میں رن وے پر کھڑے ہو کر امدادی جہازوں اور دیگر سرگرمیوں کا جائزہ لیتے رہتے جبکہ ہم جہازوں کی آمدورفت، امدادی سامان کی ترسیل اور واپسی پرآنے والے زخمیوں کی وصولی کے معاملات کو دیکھتے، بھاگتے دوڑتے رہتے۔

ان سب معمولات میں بے بس، لاچار، اپنوں سے ناگہانی جدائی کے غم میں ڈوبے، تنہائی اور اندیشہ ہائے دور درازکے شکار زخمیوں اور زندہ بچ جانے والوں کی وصولی، ہسپتالوں کو روانگی یا عزیزواقارب کو حوالگی سب سے کھٹن فرائض تھے۔ زخمیوں کی وصولی کے لئے راولپنڈی کے ملٹری اور سول ہسپتالوں کی ایمبولینسیں ہمہ وقت تیار کھڑی ہوتیں۔ زندہ بچ جانے والے اپنے اعزاء سے لپٹ جاتے، تاہم لاوارث و تنہارہ جانے والے ہمارے دلوں میں پھانس بن کر رہ جاتے۔

ایک درمیانی عمر کے طویل قامت شخص نے کہ جس کا سارا خاندان کنکریٹ کے نیچے دب چکا تھا، جہاز سے اترتے ہی آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور گرج کر بولا ”کن، کن، کن، فیکن“۔ گردوپیش سے بیزار، پتھرائی آنکھوں والا یہ شخص، بغل میں ایک چھوٹی سی پوٹلی دبائے، خدا سے مکالمہ کرتے ہوئے ایک طرف کو چل نکلا۔ بمشکل پکڑ کر اسے ایک گاڑی میں سوار کیا گیا۔ اسے جانا کہاں تھا یہ کسی میں پوچھنے کی ہمت نا تھی۔

ایک جہاز کا دروازہ کھلا تو میرا پہلا سامنا اسٹریچر پردراز لکڑی کی کھپچیوں اور پرانی چادر پھاڑ کر بنائی گئی پٹیوں میں سر سے پاؤں تک لپٹی ایک دبلی پتلی خاتون سے ہوا۔ بظاہر جسم کی کوئی ایک ہڈی ہو کہ سلامت بچی ہو۔ ائیربیس پر اسے لینے کے لئے کوئی موجود نہیں تھا۔ امدادی عملہ اس کا اسٹریچر اٹھا کر میرے سامنے سے گزرا تو تھوڑی دیر کو اس کی نظریں مجھ سے چار ہوکر میری روح کوچھید کر گزرگئیں۔ پورے جسم میں اس کی سبز خشک آنکھیں تھیں جومتحرک تھیں۔

بے گھر اور لاوارث ہوجانے والوں میں ایک دس بارہ سال کا سرخ وسپیدکشمیری بچہ بھی شامل تھا۔ کسی کھاتے پیتے خوشحال گھرانے سے معلوم پڑتا تھا۔ اب تنہارہ گیا تھا۔ ہمارے سٹاف نے معمول کے مطابق آنے والوں کو جوسز، بسکٹس اورچاکلیٹس وغیرہ پیش کیے توبچے نے آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ وہ محض اپنے بابا کے پاس جانا چاہتاتھا۔ خوف سے بھری خشک آنکھیں ہجوم میں اپنوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ مجھے بے اختیار اپنے بچے یاد آگئے۔ گزرے سالوں اپنے بچوں کو دیکھ کربسا اوقات اب وہ بچہ یاد آجاتا ہے۔ نا جانے کہاں ہوگا۔

انہی دنوں ہمارے ایک ممتاز مذہبی سیاسی رہنماء نے ہمیں بتایا کہ جب کسی خطّے میں انسانوں کی اللہ کے احکامات سے روگردانی حد سے بڑھ جاتی ہے تو اللہ وہاں بسنے والوں پرآسمان سے مہلک عذاب نازل فرماتا ہے۔ یہ مگر نہیں بتایا کہ آسمانی عذاب کا نشانہ ایک خاص جغرافیائی پٹی پر بسنے والے لوگ ہی کیوں بنے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ پیشِ نظرخطہ ارض پر خدا کے عذاب کا نشانہ بننے والوں میں سے بڑے گنہگار کون تھے، وہ کہ جو ملبے میں دب کر مر گئے یا کہ وہ جو زندہ رہ کر زندہ درگور ہو گئے!

اس عظیم سانحہ کے بعدخدا کے بے شمار بندوں نے ہم پر آشکار کیا کہ خدا اب بھی ہم سے کیوں مایوس نہیں۔ تاہم کچھ اور بھی تھے جنہوں نے تباہی وبربادی اور مصیبت ویاس کی اس اندھیری رات میں انسانی فطرت کے کچھ تاریک پہلوؤں کو کھول کر اور سیاہی پھیلائی۔ آخری نتیجے میں مگراکتوبر 2005 ء کے عظیم المیے میں بالاآخر اعلیٰ انسانی جذبے ہی فتح یاب رہے۔

تقریبا ًدو ماہ گزرے تو نور خان ایئر بیس پر ہنگامی طور پر قائم کیے گئے امدادی کیمپ پر بھیڑ چھٹ چکی تھی۔ ایئر بیس کی پر سکوت فضا لوٹ آئی تھی جہاں اب صرف امدادی کارکنان جنرل ندیم احمد کے زیرِ نگرانی خاموشی سے مصروفِ عمل رہتے۔ کچھ ہی عرصے میں عارضی امدادی کیمپ باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیارکرگیا اور ایک سال سے زائد عرصہ کے لئے فعال رہا۔ میں جو 9 اکتوبر 2005 ء کی صبح چار ہیلی کاپٹرز اڑانے کو گیا تھا، دو ماہ بعد واپس جی ایچ کیو لوٹ آیا تھا۔ اب جبکہ بہت سارے نامعلوم چہرے وقت کی ریت میں دھندلا چکے، چودہ برس قبل نورخان ایئر پورٹ پر مصیبت کے ماروں کے ہجوم میں اپنے بابا کوڈھونڈنے والے معصوم چہرے کے خدوخال مگر اب بھی میرے دل ودماغ پر نقش ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).