شہر لاھور تری رونقیں قائم آباد


منظر جاوید ایک میٹنگ کے سلسلے میں لاھور سے اسلام آباد روانہ ہوئے تو فون کیا کہ میں بھی کل اسلام آباد آ جاؤں اور پھر کل وہاں سے اکٹھے لاھور چلیں گے جہاں میری دو کتابوں کی طباعت کا مسئلہ در پیش ہے جس کی ذمہ داری میں نے اس پر ڈال دی ہے بلکہ میری لا پرواھی کو مد نظر رکھتے ہوئے خود یہ ذمہ داری لی ہے۔ سو دوسرے دن میں حسب پروگرام مقررہ وقت پر پشاور سے اسلام آباد پہنچا تو موصوف نے لاپرواہی سے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ لاھور تو آج نہیں بلکہ کل ہی جانا ہے آج تو صرف آوارہ گردی میں ساتھ دینے کے لئے تمہیں بلایا ہے۔

سو ہم دونوں مارکیٹوں میں گھومتے اور ریستورانوں میں گھستے رات گئے تک ان عمروں میں بھی آوارہ گردی کرتے رہے۔ اس لئے جب رات گئے پنجاب ہاؤس میں اپنے کمرے پہنچے تو تقریبًا کھڑے کھڑے سو گئے تھے۔

صبح ابھی ناشتہ لگ ہی رہا تھا کہ نفیس اور متحرک کرنل جعفر مقررہ وقت سے بھی چند سیکنڈ پہلے پہنچ کر خاموشی کے ساتھ سمجھا گئیے کہ وقت کی پابندی کیسے اور کیا ہوتی ہے۔

تھوڑی دیر بعد لاھور کی طرف نکلے تو ایک مدت بعد موٹروے کی بجائے جی ٹی روڈ ہمارا روٹ تھا کیونکہ پنڈی، وزیرآباد اور گوجرانوالہ میں قائم انڈسٹریل سٹیٹس کے وزٹ اور وھاں بریفنگز بھی منظر جاوید کے شیڈول میں شامل تھے چونکہ وہ ابھی ابھی اس محکمے کے صوبائی سربراہ کا چارج لے چکے ہیں اور اسے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کام کے حوالے سے بیوروکریٹ کم اور مزدور زیادہ لگتے ہیں۔

اس لئے لاھور پہنچتے پہنچتے سارا دن ہی راستے میں کٹا

سو ایک شاعر تو یہی لکھے گا کہ

فصیل شہر کے پاس پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی۔

جعفر بھائی کو کینٹ میں اس کے گھر اُتارا اور ان کے ننھے بیٹے کی توتلی باتوں کا لطف اُٹھا کر منظر جاوید اور میں (جی او آر ) اس کے گھر چلے گئے کہ یہی ایک مدت سے میرا ٹھکانہ ہے۔

لاھور پہنچنے سے پہلے ہی عباس تابش بھائی لنچ اور عطا الحق قاسمی صاحب ڈنر کا حکم صادر کر چکے تھے۔

میری خوہش تھی کہ ظفر اقبال صاحب کی بیمار پرسی کروں اور آفتاب اقبال سے بھی مکالمہ ہو۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ابھی ابھی لندن سے پہنچے تھے اور حفیظ اللہ نیازی صاحب کو دوسرے دن آنا تھا کیونکہ وہ میانوالی میں تھے۔

وجاھت مسعود صاحب اور عدنان کاکڑ سے بھی ملنے کا پروگرام تھا کوئٹہ کے دانشور دوست فتح اللہ پشتون سے بلوچستان کی صورتحال کو جاننا تھا اور احمد رحیم سے جدید انگریزی ادب بارے، صفدر حسین (الحمد والے) اور یار دیرینہ ڈاکٹر نذر عابد کی وساطت سے امجد طفیل سے بھی ملنا تھا۔ الحمرا اور نیشنل کالج آف آرٹس جانا بھی شیڈول میں تھے

خواہشات میں سے تو ایک یہ بھی تھی کہ سبطین ٹیپو (منظر جاوید کے چھوٹے بھائی) کو لے کر کرکٹ میچ بھی دیکھ آؤں لیکن کچھ خواہشات مکمل ہوئیں اور کچھ دل کے ارماں بن کر آنسوؤں میں بہہ گئے کیونکہ وقت کا قحط پڑ گیا تھا۔

دوپہر سے ذرا پہلے عباس تابش بھائی کے سلیقے سے سجے خوبصورت گھر پہنچے تو وہ بیٹی کو پڑھانے میں مصروف تھے۔ آتے ہی وہی کھلا ڈھلا انداز اور بے تکلف گفتگو۔

جو لوگ انہیں قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ان کی گفتگو میں بھی ان کی دلآ ویز شاعری کی طرح مختلف شیڈز ہوتے ہیں۔ ادب شاعری، سیاست، تاریخ اور طنز ومزاح سے مزین گفتگو آپ کو گویا فوراً کیچ کر لیتا ہے تبھی تو پہلے ان کے گھر اور بعد میں ایک خوبصورت ریستوران میں ہم لگ بھگ چار سے پانچ گھنٹے اکٹھے رہے اور وقت کا احساس تک نہیں ہوا۔

شام کو ایک اعلٰی درجے کے ہوٹل میں پہنچ کر ہم ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اُستاد گرامی عطا الحق قاسمی صاحب نیلے رنگ کا دلکش سوٹ اور ملٹی کلرز کی خوبصورت ٹائی پہنے لابی میں داخل ہوئے ”ان حالات“ میں بھی ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش اور تروتازہ بلکہ شرارتی۔

ہم ٹیبل کے گرد بیٹھے تو حسب توقع ایک ”خطرناک“ لطیفے سے گفتگو کا دروازہ چوپٹ کھول دیا میرے دل نے چاھا کہ انہی کے لازوال جملے کو استعمال میں لا کر گھٹنے کی تکلیف کا پوچھوں کہ ”اؤے مام دینا اب تمھارے پاؤں کا درد جگر کیسا ہے“ لیکن تۃذیب، اُستاد شاگرد کے رشتے اور قاسمی صاحب کے مقام نے مزاحیہ ادب کے اس توانا جملے کے بر وقت استعمال سے محروم ہی رکھا سو پوچھا۔ سر تکلیف میں کچھ کمی ہوئی ہے؟

جواب حسب معمول خوش اُمیدی اور تشکر سے لبریز ہی تھا لگ بھگ تین گھنٹے تک ”وہ کہیں اور سنا کرے کوئی“ والی کیفیت رہی، کبھی ہم ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے تو کبھی اداس کر دیتے، رات گئے ہم انہیں گاڑی تک چھوڑ نے آئے اور وہ رخصت ہوئے تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ساٹھ سال کی کالم نگاری، ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں بے شمار اور یادگار ٹی وی ڈرامے اور پوری دنیا کا سفر۔

دوست نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا کہ نام ایسے مفت میں تو نہیں بنتا نا۔

مسلسل مصروفیت دوڑ دھوپ اور شدید دباؤ کی وجہ سے مجھے کچھ دنوں سے اپنے ساتھ ہمدردی سی ہونے لگی تھی یعنی خود ترحمی کا شکار ہو گیا تھا لیکن میرے دوست کے اس جملے نے پھر سے حوصلہ اور توانائی فراہم کردی اور امید اور اعتماد کی طرف موڑ دیا۔

اگلی صبح منظر جاوید کے گوگل مزاج لاھوری ڈرائیور کو میں صرف جگہ کا نام بتاتا اور وہ مجھے لے کر میری مطلوبہ جگہ پر پل بھر میں پہنچا آ تا۔

کچھ کام مکمل ہوئے اور کچھ ”صحبت باقی“ کی نذر ہوئے کیونکہ شام سے پہلے پہلے اس شہر بے مثال کو الوداعی ہاتھ ہلانا ہی تھا۔

اس لئے جب گاڑی نے موٹروے پر پشاور کا رخ کیا اور لاھور پیچھے رہ گیا تو میں نے زیر لب اسی لاھور کے ناصر کاظمی کا شعر پڑھا

شھر لاھور تری رونقیں قائم آباد

تری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی ہم کو

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).