جنگ ہو گئی تو ہم کیا کریں گے؟


آج جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو اکتوبر 2005 کے زلزلے کو چودہ سال بیت چکے ہیں۔ اس کے بعد کئی اور زلزلے آئے، سیلاب آئے، جنگی ماحول بھی بنا، مگر ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ اس وقت بھی سرحدوں پر جنگی ماحول بنا ہوا ہے۔ گو کہ افواج سرحد پر نہیں لگائی گئیں، مگر آگ لگنے میں دیر کتنی لگتی ہے؟ تین نئے خود کار ڈویژن پاکستان کی سرحد کے قریب ترتیب دے دیے گئے ہیں، جن کا کام تیزی سے حملہ آور ہونا ہے۔ نئے آپاچی گن شپ پٹھان کوٹ پر متعین ہیں، جو پاکستان ہندوستان کی سرحد سے بہت دور نہیں۔ یہ احوال سرحد کے اس پار کا ہے۔ سرحد کے اس پار صرف الفاظ اور سیاست کا کھیل جاری ہے۔

سیاست بری نہیں، اس کا استعمال صحیح اور غلط ہوتا ہے، لیکن جنگیں قومیں لڑا کرتی ہیں۔ جنگی حکمت عملی طے کرنا یقینا جنگجو کمانڈرز کا کام ہے۔ تاہم ان کے صحیح اور غلط فیصلوں کے علاوہ بھی جنگ میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ تباہی جس کا اندازہ لگانا ہمیشہ مشکل عمل رہا ہے۔ ہم مرنے والوں کی، زخمیوں کی تعداد گن لیتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کتنے مکان کتنی فیکٹریاں جنگ کی نذر ہوئیں، ہم یہ کام صرف تباہ شدہ ملبے پر جنگ کے خاتمے ہی پر حتمی رائے دیتے ہیں۔

مجھے نہیں معلوم آگے آنے والے دن کیسے ہیں، مجھے نہیں معلوم کیا واقعی جنگ ہونے جا رہی ہے۔ میں کوئی تاریخ نہیں دے سکتا، ایک عام شخص ہوں، کتاب پڑھتا ہوں، تاریخ کا طالب علم ہوں، سوال کرتا ہوں، یہ سوال کرنا مغرب میں میں تو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو گا، پاکستان میں سوال کرنا اور اٹھانا بعض اوقات جرم بن جاتا ہے۔ آپ کی مذہبی، فرقہ ورانہ، لسانی شناخت کا سوال آپ کی قابلیت کے سوال سے پہلے آ جاتا ہے۔ پاک بھارت جنگ ہو گی یہ میرا دل کہتا ہے، کب کہاں، کیوں، کیسے، کس لیول کی ہو گی یہ میں نہیں جانتا۔ یہ کوئی خواہش نہیں، محض ایک اندازہ ہے۔

کچھ تاریخ کا علم بھی اس طرف اشارہ دے رہا ہے، جب دو ملک کسی ایسے مسئلے میں الجھ رہے ہوں جس کا حل خود ان کے بس میں نہ ہو، جب ان کے حکمران یا دونوں میں سے ایک فریق، یہ سمجھ نہ پا رہے ہوں کہ مسائل بات چیت کے بجائے اپنی مرضی کا حل ٹھونسا جائے تو جنگ ہوتی ہے (فی الوقت بھارت سیاسی اور فوجی اعتبار سے اسی راستے کی جانب گامزن ہے جو امن کی طرف تو نہیں جاتا، کشمیر کا کرفیو کب اٹھے گا، کیا کرے گی کشمیر کی عوام، کیا رد عمل بھارتی فوج کا ہو گا، صرف تصور کیا جا سکتا، کوئی حتمی رائے دینا آسان نہیں، لیکن اچھے آثار نہیں نظر آرہے)۔

پاکستانی سوشل میڈیا عمران خان کی تقریر اور ملک کے سیا سی معاملات میں الجھا ہوا ہے، بھارتی سوشل میڈیا مودی کے لیے کچھ اچھا کچھ برا لگا ہوا ہے، پر جنگی جنون بھی وہاں ایک غالب نظر آتا ہے۔ ان کے ٹی وی چینلز بھی یہ کچھ چلا رہے ہیں۔ جنگیں تو قومی لڑا کرتی ہیں۔ کیا ہم ایک قوم کی طرح اس جنگ کی طرف جا رہے ہیں؟ بھارت کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے فائدہ یا نقصان اٹھانا پاکستان کے عام آدمی کا کام نہیں، نا ہی اس پر تکیہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ساری باتیں میں پاکستانی عوام سے کر رہا ہوں۔ کیا تیاری ہے عام آدمی کی، اپنے کچھ دوستوں سے یہ سوال کیا، کہ بھائی جان تیاری کیا ہے؟ تو جواب آیا، ’’جہاد‘‘۔
’’میاں جہاد ہی کا بتا دو‘‘؟ یہ جواب آیا، کہ ’’آپ جہاد سے بھاگ رہے ہو، اس لیے یہ سوال کر رہے ہو‘‘۔

یقیناََ وہ دوست یا اس کا سوال، مسئلہ نہیں۔ مسئلہ تو کسی بھی شخص کی انفردی تیاری کا ہے۔ میں کس تیاری کی بات کر رہا ہوں؟ جی میں شہری دفاع کی تیاری کی بات کر رہا ہوں۔ فرسٹ ایڈ کی تیاری کی بات کر رہا ہوں۔ محلہ ٹیموں کی چوکیداری کے نظام کی بات کر رہا ہوں۔ یہ سب تدبیریں، جنگ ہی میں نہیں، ویسے بھی کام کی ہیں، پر ہم نہیں سوچتے شاید کچھ سوچنا ہمیں گوارا نہیں۔

جنگ صرف محاذ پر تو نہیں ہو گی۔ ہمارا واسطہ کسی اچھے کردار کو دشمن سے تو نہیں، ہماری اپنی انفرادی تیاری کیا ہے؟ ہم خود شہری دفاع، ابتدائی طبی امداد، راتوں کی چوکیداری کے لیے کتنے تیار ہیں؟ شہری دفاع کا علم بھی ہمیں کس معیار کا ہے، یہ کام حکومتی سطح پر ہونا چاہیے۔ شہری دفاع کی ٹیمیں پاکستان کے تمام شہروں میں موجود ہیں، ان کے پاس کیا اتنا سامان موجود ہے کہ وہ جنگ میں اپنے شہریوں کی خدمات آسانی سے کر سکیں؟ کیا ان کا عملہ کافی ہے، جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے؟ کیا ہم پاکستانی شہری صرف شہری دفاع کے ادارے پر سب چھوڑ کر بیٹھے ہیں؟ ہمیں خود کیا آتا ہے؟ کس قسم کی آگ کس طرح سے بجھائی جائے؟ کتنے لوگ جانتے ہیں، سڑکیں پل دشمن کا آسان ہدف ہوتے ہیں؟ ایسی صورت میں زخمیوں کو اسپتال پہچانا خاصا دشوار ہو گا! کتنے لوگ فرسٹ ایڈ جانتے ہیں؟ اندرونی اور بیرونی چوٹیں اور جنگ میں مریضوں کی اپنی نفسیاتی پیچیدگیا ں بھی ہوتی ہیں۔ احوال تو یہ ہے کہ اسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں مل پاتیں۔

سیلاب زلزلہ اور دیگر آفات میں پاک افواج قوم کا ساتھ دینے آ جاتی ہیں، لیکن جب وہ خو د محاذ پر اپنے مورچے سنبھالے بیٹھی ہوں گی تو ہمارا سویلن نظام کیا حرکت میں آ جائے گا؟ کراچی کی صفائی نہ ہونا ہی ایک ایسا مسئلہ ہے، جو ہمیں شہری انتظامیہ کی سوچ کے انتہائی برق رفتار ہو نے کا پتا دیتا ہے، جنگ میں بمباری بھی ہوتی ہے، بلڈنگز بھی گر سکتی ہیں، ملبا سڑکوں پر ہو تو فوری امداد پہچانے میں مسائل آئیں گے، اگر عام شہری شہری دفاع کی تربیت نہیں لے گا، تو حالت جنگ میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟

آگ بجھانے کے لیے مٹی کا استعمال سب سے بہتر رہتا ہے۔ آگ، ہم بالٹیوں یا برتنوں میں مٹی ڈال کر آگ بجھانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہر آگ پانی سے نہیں بجھائی جا سکتی، تیل بجلی اور کیمیکل کی آگ پر خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، آگ بجھانے والے آلا ت کی آگاہی اس بھی اتنی ہی ضروری ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے کراچی میں ایک مشہور انشورنس بلڈنگ میں لگی آگ اور اس بلڈنگ کے روشن دان سے لٹکا نوجوان (جو غالباََ نوکری کے حصول کے لیے گیا تھا) بہت دیر لٹکا رہنے کے بعد بلند بلڈنگ سے گر گیا، جس کو بچانے کے لیے کوشش نہیں کی گئی، یہ ایک مثال ہے فائر ایگزٹ کا نہ ہو نا بھی ایک غلطی ہے جو بلڈنگ کوڈ میں شامل ہو تے ہوئے بھی، نقشوں میں شامل نہیں کیے جاتے۔

حکومتی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ شہری دفاع کی سرکاری ویب وسائٹ پوری طرح آپریشنل نہیں

مطلب اب آپ اور میں خود ہی سوچ لیں کہ ہم کتنے تیار ہیں۔ کسی بھی جنگ یا جنگی قسم کے ماحول کے لیے، ہم کو خود ہی اس کے لیے کچھ کر نا ہو گا، یو ٹیوب پر اچھی خاصی ویڈیوز اردو اور ہندی میں مل رہی ہیں، جو کچھ نا کچھ ہم سب کی راہنمائی ضرور کریں گی۔

https://www۔ youtube۔ com/watch؟ v=oQwi۔ kcdx 1 Y

https://www۔ youtube۔ com/watch؟ v=Da 1 y 8 WD 4 pkg

https://www۔ youtube۔ com/watch؟ v=gf 1 CgRCnY 9 Q

https://www۔ youtube۔ com/watch؟ v=RA 652 J 6 OAsA

https://www۔ youtube۔ com/watch؟ v=hm 8 Tene 9 Eqc

https://www۔ youtube۔ com/watch؟ v=HKNSgGyHHu 8

https://www۔ youtube۔ com/watch؟ v= 7 pw 7 BwiKARc

https://www۔ youtube۔ com/watch؟ v=E 18 RC 2 Xrqv 8

یہ سوال بھی ہے رات کی چوکیداری سے مراد، رات میں محلہ ٹیمیں محلے کے گردو و نواح میں دشمن کے جاسوسوں پر نظر رکھیں۔ خندقیں کھودنے کا کام بھی کرنا ہو گا۔ کوئی مشکوک شخص نظر آئے پولیس کی مطلع کریں، جنگ میں افواہوں کا بازار گرم ہو تا ہے۔ اس کا بھی ہمیں پتا ہونا چاہیے۔ کیا بولنا ہے کیا نہیں بولنا، جنگ میں اس کی اہمیت عام زندگی سے زیادہ ہوتی ہے۔ ابتدائی طبی امداد کے بارے میں نوجوانوں کو ضرور پتا ہونا چاہیے۔ فرسٹ ایڈ، شہری دفاع کا کام صرف جنگ میں نہیں، دیگر آفات میں بھی کام آ سکتا ہے۔ اس کو فعال کیا جانا، اس وقت انتہائی ضروری ہے۔

میڈیا پر اچھے لوگ بھی ہیں، برے لوگ بھی ہیں، ہم کو یا ہمارے ملک کو کیا سوٹ کرتا ہے، کس کی بات سنی ہے کہ سن کر ان سنی کرنی ہے اور کس کی سن کر آگے بڑھانی ہے یہ بطور پاکستانی ہم کو ضرور سوچنا چاہیے۔ پروپیگنڈا سمجھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں، احتیاط ہی ایک واحد کار گرعمل ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).