پاکستانی خواتین میں نفسیاتی مسائل کی سنگین صورت حال


دنیا بھر میں نفسیاتی عوارض اور مسائل میں جو ممالک زیادہ آگے ہیں، اُن میں چین پہلے نمبر پر، بھارت دوسرے نمبر پر، امریکہ تیسرے نمبر پر، برازیل چوتھے نمبر پر، روس پانچویں نمبر پر، انڈونیشیاء چھٹے نمبر پر، پاکستان ساتھویں نمبر پر، نائیجریا آٹھویں نمبر پر، بنگلہ دیش نویں نمبر پر اور میکسیکو دسویں نمبر پر شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وطن عزیز ذہنی امراض کے لحاظ سے صف اول کے 10 ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ آج کے جدید دور میں بہترین آسائشوں اور سہولیات کے باوجود انسان کسی نہ کسی مسئلے کی وجہ سے ڈیپریشن یا ذہنی مرض کا شکار ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اِس وقت پاکستان میں 50 ملین یعنی 5 کروڑ افراد مختلف قسم کے نفسیاتی امراض اور ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ ڈیپریشن، تناؤ یا ذہنی امراض کے علامات میں مسلسل پریشان اور اُداس ہونا، نا اُمیدی کی باتیں کرنا، اپنے آپکو بے یار ومدد گار اور ناتوانامحسوس کرنا، پریشان رہنا، مختلف سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا، سیکس کی طرف کم یا بہت زیادہ رُغبت، سیکس میں ناآسودگی، من چاہی قربت کا نہ ملنا، تھکان، کام میں عدمِ دلچسپی اور عدم توجہی، حافظے کا کمزور ہونا، غلط فیصلے کرنا، صبح جلدی اُٹھنا یا حد سے زیادہ سونا، وزن کا کم ہونا یا بڑھنا، خودکشی کی کوشش کرنا، موت کو ِسر پر سوار کرنا، بے چینی کی سی کیفیات اور بعض ایسے امراض جو کہ دوائیوں کی مسلسل استعمال سے بھی ٹھیک نہیں ہوتے، یہ سب ذہنی امراض کی علامات ہیں۔

زہنی امراض میں اضافے کی بُہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ معاشرتی اور سماجی بے انصافی، بغیر محنت کے خوب سے خوب تر کی تلاش، ذکر الٰہی اور دین سے غافل ہونا اور اس کے علاوہ دیگر اور بھی عوامل ہیں جو ذہنی امراض کا سبب ببنتے ہیں۔ جبکہ عورتوں میں مردوں اور بچوں کی نسبت ڈپریشن یا ذہنی امراض بہت زیادہ یعنی ستر فی صد پایا جاتا ہے۔ پاکستانی عورت عدم مساوات اور سماجی اور رواجی جبر کا شکار ہے بد فطرت حامل مرد کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے اور کئی مقامات پر ایک ناپسندیدہ فرد کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

دوسری جانب ہمارے مردوں کی ایک کثیر تعداد اپنا غصہ زیادہ تر اپنے گھر کی خواتین پر نکالتے ہیں، جس میں جسمانی اور ذہنی تشدد اور گالی گلوچ دونوں شامل ہیں جبکہ دوسری جانب گھر کے اخراجات اورنظام و انضرام کو لے کر خواتین معاشی اور گھریلو دباؤ کا شکار بھی رہتی ہیں، اس لیے وہ ذہنی طور پر گھٹن کا شکار ہو جاتیں ہیں جو آگے چل کر ڈپریشن کی صورت اختیا ر کر جاتا ہے۔ وہ اپنا غصہ اپنے بچوں پر نکالتی ہے ان کے ایسے رویوں سے گھر کا ماحول بھی کھنچا کھنچا سا رہتا ہے۔

میں نے ایسے بہت سارے گھر اور ان کی خواتین کا مشاہدہ کیا ہے جو اپنے اندر کی گھٹن اپنے بچوں پر نکالتی ہیں۔ چیخ چلاتی ہیں اور ہر وقت بولتی رہتی ہیں۔ جب تک جاگتی ہیں، ان کے ارد گرد رہنے والے ان سے نالاں رہتے ہیں اور کوئی ان سے اس رویے کی شکایت کرے یا اصلاح کی بات کرے تو وہ ان کی الگ سے تربیت کرنا شروع کر دیتی ہیں۔

اس کے علاوہ خواتین خود مختاری کی بھی خواہش مند ہوتی ہیں اور اس کی عدم دستیابی انہیں انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے اور جس کا زیادہ تر شکار ان کے بچے ہوتے ہیں۔ ایسی خود مختاری جو انہیں نہ شادی سے پہلے ملتی ہے اور نہ ہی شادی کے بعد۔ ِخواہشات کی ناآسودگی سے ان میں غضہ بڑھ جاتا ہے رشتے کو وہ پاوں کی زنجیر سمجھتی ہیں اور اولاد کو بوجھ۔

واضح رہے کہ جو معاشرہ مرد کی برتری کا قائل ہو وہاں ایسا ہونا آسان نہیں جبکہ ایک پڑھی لکھی اور سمجھدار عورت کبھی بھی ایسا رویہ اختیا ر نہیں کرتی۔ ایک اور سٹڈی کے مطابق وہ خواتین جو کم پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ خود ساختہ زعم کا شکار ہوتی ہیں ان میں برتری کی اس خواہش کا عنصر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے رویوں کی حامل مائیں اپنے بچوں کے ساتھ شفیق نہیں ہوتیں اورماں کی جانب سے ملنے والا ذہنی اور جسمانی تشدد ان کے بچوں کی شخصیت میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے جو عمر کے کسی نہ کسی حصے میں سامنے آتا ہے اور پھروہ بچہ دوسروں کے لیے تکلیف دے ہو جاتا ہے۔

میرے مشاہدے کے مطابق باپ کی جانب سے ماڑ پیٹ کے مقابلے میں ماں کی جانب سے ملنے والی اشتعال انگزیزی بچے کے لیے زیادہ مسائل کا باعث بنتی ہے کیونکہ باپ نے جو کام ہفتے میں ایک بار کرنا ہے ماں نے سارا دن کرنا ہے۔ اس لیے ان بچوں پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے جو ان کے ارد گرد رہنے والے قریبی رشتے دار زیادہ اچھے سے کر سکتے ہیں کیونکہ بچے ان سے قریب ہوتے ہیں۔ مگر ہمارا معاشرہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔

پاکستانی عورت کو ذہنی تربیت کی ضرورت ہے انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ وہ اپنے ارد گرد کے حالات کو یا قبول کریں یا ان میں سے نکلنے کی کوشش کریں۔ سمجھوتے کی بدصورتی ان کی شخصی بدصورتی میں ڈھل کر ان کے لیے لا تعداد مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ عورتوں کو زندہ ستی کرنے کی روایت ختم کریں کیونکہ ان کے ایسے رویوں سے نہ صرف ایک ماں متاثر ہو رہی ہے بلکہ معاشرہ بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).