کیا آپ ایک صاحب الرائے انسان ہیں؟


آج سے کئی سال پیشتر جب آتش جوان تھا میرے شاعر چچا عارف عبدالمتین اور میری روایتی چچی شہناز مجھ سے ملنے کینیڈا تشریف لائے۔ ایک شام ڈنر کے بعد میری چچی جان نے ایک محبت بھری تقریر کی جو پند و نصائح سے بھرپور تھی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں جلد از جلد شادی کر لوں بچے پیدا کروں اور ایک خاندان بنائوں کیونکہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو جب میں بوڑھا ہوں گا تو تنہا رہ جائوں گا اور کفِ افسوس ملوں گا۔

میں ایک تابع فرمان بھتیجے کی طرح ان کی باتیں اور نصیحتیں سنتا رہا اور مسکراتا رہا۔ میرے چچا جان ’جو ایک مردِ دانا تھے’ خاموشی سے سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ جب چچی جان کے پند و نصائح طول پکڑنے لگے تو چچا جان نے فرمایا

شہناز ! آپ کیوں ڈاکٹر صاحب کو نصیحتیں کیے جا رہی ہیں۔ کیا آپ نہیں جانتیں کہ وہ ایک صاحب الرائے انسان ہیں؟ اگر انہوں نے شادی نہیں کی تو اس کی ضرور کوئی اہم وجہ ہوگی۔

سچی بات یہ ہے کہ اس شام سے پہلے میری چچی جان کو کیا مجھے بھی پتہ نہ تھا کہ میں ایک صاحب الرائے انسان ہوں۔ میں نے جب چچا جان سے پوچھا کہ صاحب الرائے انسان کون ہوتے ہیں تو فرمانے لگے کہ ہر دور ’ہر عہد اور ہر معاشرے میں دو طرح کے انسان بستے ہیں۔ اکثریت ان انسانوں کی ہوتی ہے جو روایت کی شاہراہ پر چلتے ہیں اور اقلیت ان تخلیقی لوگوں کی ہوتی ہے جو من کی پگڈنڈی پر چلتے ہیں۔ اس تخلیقی اقلیت میں ادیب اور شاعر سائنسدان اور دانشور سبھی شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ صاحب الرائے ہوتے ہیں۔

پھر کہنے لگے ڈاکٹر صاحب آپ روایتی اکثریت کا حصہ نہیں تخلیقی اقلیت کا حصہ ہیں اس لیے صاحب الرائے ہیں۔

جب ہم انسانی نفسیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر عہد اور ہر معاشرے کے بچے پہلے دس سال میں اپنے ماحول’ مذہب اور کلچر کی زبان اور اصولوں کو اپنے والدین اور اساتذہ سے بغیر سوال کیے جذب کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے مذہب اور کلچر پر اندھا ایمان لے آتے ہیں۔ روایتی اکثریت اس اندھے ایمان کو مرتے دم تک گلے لگائے رکھتی ہے اور اپنی روایت کو سچا ثابت کرنے کے لیے دلائل جمع کرتی رہتی ہے۔ وہ اپنے مذہب کلچر اور روایت کو سچا اور باقی تمام مذاہب اور روایات کو جھوٹا سمجھتی ہے۔ ایسے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اس کلچر میں ان کی پیدائش اتفاقی تھی اور ان کا مذہب موروثی ہے۔

ایسی روایتی اکثریت کے مقابلے میں تخلیقی اقلیت کے لوگ اپنے مذہب اور کلچر کے بارے میں غور و تدبر کرتے ہیں اور ان کی غیر منصفانہ ’ غیر عادلانہ اور منافقانہ روایات کو چیلنج کرتے ہیں لیکن اس کی انہیں بھاری قیمت اد کرنی پڑتی ہے۔

بعض کو جیل بھیج دیا جاتا ہے

بعض کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے اور

بعض کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔

کوئی ملک اور معاشرہ جتنا تنگ نظر ہوتا ہے اس کا مقتل اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ بخش لائلپوری کا شعر ہے

ہمارا شہر تو چھوٹا ہے لیکن

ہمارے شہر کا مقتل بڑا ہے

جو بچے بعد میں ادیب ’ شاعر اور دانشور بنتے ہیں ان کی غیر روایتی سوچ کے آثار نوجوانی میں ہی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ میں کینیڈا کی دو مثالیں پیش کرنا چاہوں گا۔

میری ایک شاعرہ دوست کی بارہ سالہ بچی نے اپنی استانی کے لیے ایک پینٹنگ بنائی جس میں آسمان کے ایک طرف چاند تھا اور دوسری طرف سورج۔ بچی کی ماں نے پینٹنگ دیکھی تو کہا۔ ‘بٹیا ! یہ تم نے غلط پینٹنگ بنائی ہے۔ آسمان پر دن کو سورج ہوتا ہے اور رات کو چاند۔ دونوں بیک وقت نہیں ہوتے۔ بیٹی خاموش رہی۔ چند ہفتوں کے بعد ایک صبح سکول جاتے ہوئے اس بچی نے اپنی امی سے کہا

ماما ! کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتی ہوں؟

ضورو پوچھو بیٹا۔

ماما آسمان کی طرف دیکھ کر بتائیں دائیں طرف کیا ہے؟

‘سورج’ ماں نے جواب دیا

اور بائیں طرف؟

‘چاند’

‘ماما کبھی کبھار دونوں بھی بیک وقت نظر آ جاتے ہیں۔ ’

اس صبح ماں نے اپنی بیٹی سے معافی مانگی۔

وہ بچی بارہ سال کی عمر میں بھی صاحب الرائے تھی۔

کینیڈا کے ایک ہائی سکول میں ایک سولہ سالہ لڑکے نے عیسائیت کی کلاس لی لیکن عیسیٰ کے احترام میں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا۔ ٹیچر بہت برہم ہوا ۔ کھڑے نہ ہونے کی وجہ پوچھی تو طالب علم نے کہا کہ میں عیسیٰ کو نہ پیغمبر مانتا ہوں نہ خدا کا بیٹا۔ میں انہیں ایک سماجی ریفارمر سمجھتا ہوں۔ میرے لیے ان کی شخصیت میں کوئی تقدس یا عقیدت کا پہلو نہیں ہے۔

ٹیچر نے پوچھا کہ پھر تم عیسائیت پڑھنے کیوں آئے ہو

طالب علم نے کہا میں انسانی تاریخ اور لوک ورثہ کا طالب علم ہوں۔ میں عیسائیت، یہودیت، اسلام، ہندوازم اور جین ازم سب روایتوں کا تنقیدی مطالعہ کر رہا ہوں۔ میرے لیے یہ سب روایتیں محترم ہیں لیکن مقدس نہیں۔

ٹیچر نے غصے میں آ کر اس طالب علم کو کلاس سے نکال دیا۔

طالب علم نے گھر آ کر والدین کو بتایا تو انہوں نے بیٹے کا ساتھ دیا اور سی بی سی کو بتایا۔ جرنلسٹوں نے وہ کہانی نیشنل ٹی وی پر دکھائی اور چند دنوں کے بعد سکول کے پرنسپل نے معافی مانگی اور طالب علم کو واپس کلاس میں داخلہ دے دیا گیا۔ پرنسپل نے اعتراف کیا کہ وہ طالب علم کا انسانی حق تھا کہ وہ عیسیٰ کے بارے میں کیا موقف رکھتا ہے۔

جو لوگ صاحب الرائے ہوتے ہیں وہ اپنے مذہب اور روایت پر اندھا ایمان لانے کی بجائے اپنے تجربے’ مشاہدے’ مطالعے اور تجزیے کے بعد اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کی رائے کا بھی احترام کرتے ہیں۔ میرے سائنسدان والد عبدالباسط فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ دوسرے لوگ تمہاری رائے کا احترام کریں تو تمہیں بھی ان کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔

میرے دوستوں کی فیملی آف دی ہارٹ میں ایک دوست ایتھیسسٹ ہیں اور ایک دوست انارکسٹ ایک دوست مارکسسٹ ہیں اور ایک دوست پکے مسلمان۔ میں ان سب کا احترام کرتا ہوں۔ آج سے دس سال پیشتر ایک دن میں اپنے مسلمان دوست کے گھر گیا تو میں نے ان کی بیگم سے کہا

بھابی جان مھے یوں لگا جیسے پچھلی ملاقات میں میری کوئی بات آپ کو ناگوار گزری۔ کیا ایسا ہی ہے؟

بھابی جان نے اثبات میں سر ہلایا۔

میں نے کہا میں آپ کا احترام کرتا ہوں آپ مجھے بتادیں کہ مجھے کس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ کہنے لگیں۔ آپ خدا پرست نہیں انسان دوست ہیں۔ آپ جو چاہیں، کہیں مجھے برا نہیں لگتا لیکن علی اور حسین کے بارے میں کچھ نہ کہیں کیونکہ میں راسخ العقیدہ شیعہ ہوں۔

میں نے وعدہ کیا کہ اس دن کے بعد میں ان کے گھر میں علی اور حسین کا کوئی ذکر نہیں کروں گا۔

دس سال بعد جب وہ واپس پاکستان جا رہی تھیں تو میں نے بھابی جان سے پوچھا کہ کیا میں نے اپنا وعدہ پورا کیا؟

انہوں نے ایک دفعہ پھر اثبات میں سر ہلایا اور مسکرئیں۔

اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنے بچوں کو سوال کرنا سکھانا ہوگا تا کہ ان میں تنقیدی شعور پیدا ہو۔ میں اس کی ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔

میرے ایک سائنسدان دوست نے اپنے بیٹے کو سائنس اور ڈارون کا نظریہ پڑھایا اور سمجھایا۔ بچے کی ماں نہایت مذہبی تھیں انہوں نے شوہر سے کہا کہ اسے اتوار کے اسلامی سکول لے جایا کریں۔ وہ مسکراتے ہوئے لے جاتے تھے اور خود لائبریری میں کتابیں پڑھتے تھے اور بیٹے کا انتظار کرتے تھے۔

ایک دن مولانا صاحب نے انہیں بتایا کہ انسانوں کی ابتدا جنت میں ہوئی پھر آدم اور حوا نے شجرِ ممنوعہ کھایا تو انہیں سزا ملی اور انہیں زمین پر بھیج دیا گیا جہاں بڑھتے بڑھتے اب انسان سات ارب ہو گئے ہیں۔

میرا دوست یہ سب سنتا رہا لیکن خاموش رہا۔ اس نے سوچا دیکھیں اب میرا بیٹا اس نئے علم کے بارے میں کیا کرتا ہے؟

اگلے ہفتے جب میرے دوست لائبریری میں بیٹھے تھے تو بیٹے کا فون آیا کہ مجھے لے جائیں مولانا صاحب نے مجھے سکول سے نکال دیا ہے کہتے ہیں تم بہت بےادب اور گستاخ ہو۔

میرے دوست جب بیٹے کو گھر لا رہے تھے تو کار میں پوچھا کہ تم نے ایسی کیا حرکت کی کہ مولانا صاحب نے تمہیں گستاخ قرار دیا۔

بیٹا کہنے لگا میں نے ایک سوال پوچھا تھا

وہ کیا سوال تھا؟ میرا دوست متجسس تھا۔

بیٹے نے کہا ‘میں نے مولانا صاحب سے پوچھا کیا آپ INCEST پر ایمان رکھتے ہیں ؟

مولانا صاحب نے کہا ‘استغفراللہ تم نے ایسا سوال کیوں پوچھا؟

میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ اگر آپ ڈارون کے نظریہ ِ ارتقا کو نہیں مانتے اور آدم و حوا کی دیومالائی کہانی کو سچ مانتے ہیں تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا کہ افزائشِ نسل کے لیے آدم و حوا کے بچوں میں بہنوں اور بھائیوں کی شادیاں ہوئی ہوں گی۔ اور انہوں نے ضرور INCEST  کیا ہو گا۔ یہ بات سن کر سب طالب علم زور زور سے ہنسنے لگے اور مولانا صاحب اتنے برہم ہوئے کہ مجھے کلاس سے نکال دیا۔ ’

یہ کہانی سن کر میرے سائنسدان دوست مسکرائے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ ان کا بیٹا صاحب الرائے ہو گیا ہے۔

میرا یہ خیال ہے کہ قوم کی ترقی اور انسانی ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ وہ اپنے والدین اور اساتذہ سے سوال پوچھیں اور والدین اور اساتذہ کو سکھانا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں اور طالب علموں کے سوالوں کا خیر مقدم کریں اگر ایسا نہ ہوا تو

ہمارے بچوں کی سوچوں پہ کب سے پہرے ہیں

کہاں سے آئے گا آزاد نوجواں کوئی

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail