صاف کہئے آپ ملک میں آمریت لانا چاہتے ہیں!


وزیر اعظم عمران خان نے چین کے دورہ کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ کاش وہ بھی چینی صدر ژی جن پنگ کی طرح ملک کے 500 بدعنوان لوگوں کو جیل میں ڈال سکتے۔ ایک جمہوری نظام میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار حاصل کرنے والے لیڈر کی طرف سے جزا و سزا کا آمرانہ اور شاہانہ طریقہ اختیار کرنے کی یہ خواہش نہ صرف حکومت بلکہ پورے پاکستان کے لئے باعث شرم اور افسوسناک ہے۔

یوں لگتا ہے کہ عمران خان کسی ایسی ذہنی کیفیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے سوا ہر شخص بے وقوف اور بے ایمان دکھائی دیتا ہے۔ ایک سال سے زائد عرصہ تک حکومت میں رہنے کے بعد بھی نہ تو وہ کوئی سیاسی وعدہ پورا کرسکے ہیں اور نہ معاشی اصلاح اور حکومتی نظام کو فعال بنانے کا کوئی اقدام کرسکے ہیں۔ ان کے پاس ملک کے مسائل سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ وہ تاریخ اور سیاست کے ماہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ ملکی حالیہ تاریخ اور مملکت پاکستان کی سرکاری پالیسی اور مؤقف سے بھی آگاہ نہیں ہیں ۔ اسی لئے کبھی وہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کا سہرا آئی ایس آئی کے سر باندھتے ہیں اور کبھی دعویٰ کرتے ہیں کہ القاعدہ کو پاکستانی فوج نے تربیت دی تھی۔

اسی ترنگ میں پاکستانی وزیر اعظم کبھی اقوام متحدہ جیسے امن کے فورم پر کھڑے ہوکر ایٹمی جنگ کی دھمکی دیتے ہیں اور دنیا سے کہتے ہیں کہ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ وزیراعظم کے طور پر عمران خان نے ملک کے وقار کو خاک میں ملانے اور بنیادی ریاستی اصولوں سے انحراف کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ اب ایک غیر ملکی دورہ کے دوران وہ یہ خواہش ظاہر کررہے ہیں کہ انہیں بھی چین کے غیر جمہوری صدر کی طرح اختیارات حاصل ہوتے تو وہ اپنے سارے مخالفین کو جیل میں ڈال دیتے۔

چین میں ایک پارٹی نظام مسلط ہے۔ نہ چین اسے جمہوری نظام کہتا ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی ملک اسے جمہوری طریق حکومت کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ وہاں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سنبھالنے والا لیڈر پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے مخالفین کو نشانہ بناتا ہے۔ صدر ژی جن پنگ نے بھی 2012 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے ان تمام عناصر سے نجات حاصل کرنے کے اقدامات کئے جن پر مخالفانہ سیاسی رائے رکھنے کا اندیشہ تھا۔ اور ایسے عناصر کا قلع قمع کیا گیا جو کسی طرح بھی صدر ژی جن پنگ کے اختیار کے لئے خطرہ بن سکتے تھے۔ اس مقصد کے لئے بدعنوانی یا ریاست سے غداری کا الزام لگانا عام سی بات ہے۔

وہاں سیاسی پارٹی، حکومت اور عدالتی نظام فرد واحد کی خواہش اور ضرورت کا تابع ہے۔ عمران خان جب پاکستان میں کرپشن کے خاتمہ کے لئے صدر ژی کے اختیارات حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں تو دراصل وہ پاکستان کے آئین ، جمہوری نظام اور عدالتو ں کی خود مختاری کے طریقہ کار کو مسترد کرتے ہیں۔ اس طرح یا تو وہ اپنی اس لاعلمی کا اقرار کر رہے ہیں کہ وہ چین میں سیاسی طاقت کے لئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے لاعلم ہیں یا وہ پاکستان میں بھی ویسا ہی آمرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی نظام استوار کرنے کا خواب دیکھتے ہیں ، جو چین میں نافذ ہے۔

صدر ژی جن پنگ نے سات برس پہلے اقتدار میں آنے کے بعد دس سے پندرہ لاکھ سرکاری ملازمین ، پارٹی کارکنوں اور دیگر لوگوں کو مختلف طریقوں سے انتقام کا نشانہ بنایا ہے۔ ان میں برسر اقتدار پارٹی اور حکومت میں شامل نمایاں لوگ بھی شامل تھے۔ یہ کام کرپشن ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ سیاسی بالادستی قائم کرنے اور مخالف آوازوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ عمران خان نے بیجنگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ ’ مجھے پتہ چلا ہے کہ صدر ژی جن پنگ نے گزشتہ پانچ سال میں بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے وزیر کی سطح کے 400 لوگوں کو قید کیا ہے‘۔ ان کے اس بیان سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ بطور وزیر اعظم بھی عمران خان سنی سنائی باتوں اور میڈیا رپورٹوں پر بھروسہ کرنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے اور بیرن ملک دورہ کے دوران اپنے اس سطحی علم کا اظہار کرنے میں کوئی شرمساری محسوس نہیں کرتے۔

تاہم اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ چین کے صدر کی طرف سے حکومت میں شامل اعلیٰ عہدیداروں کو سزا دینے کے طریقہ کو تو قابل تحسین قرار دے رہے ہیں لیکن اپنے زیر نگرانی کام کرنے والے عہدیداروں کی بدعنوانی پر کوئی اقدام کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ پشاورمیٹرو اسکینڈل ہو یا حکومت میں شامل لوگوں کی بداعتدالیوں کے معاملات ہوں، عمران خان انہیں نظرانداز کرکے اپوزیشن کی کرپشن اور لوٹ مار کے من گھڑت قصے سنا کر اپنی حکومت کا جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ حتی کہ الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ اسکینڈل کی کوئی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی گئی۔ حالانکہ کوئی بھی حکومت، مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنا کر یا انہیں قید کرکے کامیابی کے جھنڈے نہیں گاڑ سکتی بلکہ اسے اپنی کارکردگی کے ذریعے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ عوامی بہبود کے منصوبے تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس کا منشور اور نیا پاکستان بنانے کے دعوے، تقریروں اور وعدوں سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران یہ واضح ہو چکا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم بننے کے شوق میں تو مبتلا تھے لیکن انہوں نے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد معاملات کو درست کرنے کاکوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ اور نہ ہی ان کے پاس ماہرین کی ایسی کوئی ٹیم تھی جو ملکی معیشت کے بارے میں مناسب فیصلے کرکے قومی پیداوار میں اضافہ کا سبب بنتی تاکہ غربت اور کسمپرسی کے خلاف باقاعدہ کام کا آغاز ہوسکتا۔ اس کی بجائے خیرات دینے اور لینے پر لگانے کے کام کو ’عوامی بہبود یا مدینہ ریاست ‘ کا نام دیا جارہا ہے۔ اس میں تازہ ترین اقدام سرکاری لنگر شروع کرنے کا اہتمام ہے۔ حالانکہ حکومت بھوکوں کو روٹی فراہم کرنے کی بجائے روزگار دینے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انتظامی ڈھانچے میں پائی جانے والی بدعنوانی کے سبب لنگر تقسیم کرنے کا منصوبہ نوکر شاہی، انفرادی بدعنوانی اور استحصال کا ایک نیا نظام استوار کرنے کا سبب بنے گا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے جبر و تسلط کے حوالے سے عمران خان نے گزشتہ دو ماہ کے دوران مسلمانوں کی یک جہتی، مسلم امہ کی تکلیف اور مسلمانوں کے حقوق کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ گزشتہ ماہ ہی اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ دنیا کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر صرف اس لئے خاموش ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر ان سے کہیں کم تعداد میں یہودی باشندوں یا امریکی شہریوں کو کشمیریوں جیسے ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا تو کیا دنیا یوں ہی خاموش رہتی؟ عمران خان کا استفسار دراصل اس دلیل پر استوار ہے کہ کشمیریوں کو ان کے عقیدہ کی وجہ سے غیر معمولی ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور دنیا میں کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔

عمران خان کی اسی دلیل کی روشنی میں اگر چین میں ایغور مسلمانوں کی صورت حال اور چینی حکومت کی طرف سے سنکیانگ کی اہم مسلمان اقلیت کے خلاف ریاستی جبر اور اس پر عمران خان اور حکومت پاکستان کی خاموشی کا جائزہ لیا جائے تو یہ جاننا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستانی قیادت کے کشمیر کے بارے میں مؤقف کی بنیاد اس کا جذبہ ایمانی اور مسلمانوں سے ان کی ’محبت و اخلاص‘ نہیں ہے بلکہ اس سے پاکستان کے سیاسی، معاشی، اسٹریجک اور جغرافیائی مفادات وابستہ ہیں۔ اسی لئے کشمیریو ں کے عقیدہ کو تو دلیل بنا لیا جاتا ہے لیکن ایغور مسلمانوں ہوں یا برما کے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار ، اس پر پاکستانی لیڈروں کی مسلمانوں سے محبت جوش نہیں مارتی۔

جس وقت عمران خان بیجنگ میں چینی صدر کی کامیابیوں کے قصیدے پڑھتے ہوئے صدر ژی جن پنگ جیسے اختیارات کی خواہش ظاہر کررہے تھے، اسی وقت امریکہ کی طرف سے 38 چینی کمپنیوں پر یہ کہہ کر پابندی لگانے کا اعلان سامنے آیا تھا کہ یہ کمپنیاں ایغور مسلمانوں کے حق عقیدہ کو مسترد کرنے میں چینی حکام کی مدد کرتی ہیں۔ چین پر دس لاکھ ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کا الزام بھی ہے۔ ان کیمپوں کو امریکی حکومت اسی طرح نازی ہتھکنڈا قرار دیتی ہے جس طرح عمران مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی حکومت کے اقدامات کو فاشسٹ اور نازی طریقہ بتاتے ہیں۔

پاکستان میں ہر قانون شکنی کی طرح کرپشن کرنے والے عناصر سے نمٹنے کا بھی قانونی طریقہ کار موجود ہے۔ احتساب بیورو حیرت انگیز طور پر اپنے اختیارات کو بڑی مستعدی سے استعمال کررہا ہے اور اس کے چئیرمین اکثر و بیشتر ملک کو بدعنوانی سے پاک کردینے کا عزم بھی ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جس طرح وزیر اعظم کرپشن سے نمٹنے کے لئے ملکی قانون اور عدالتی نظام سے مایوس ہیں ، اسی طرح نیب کے چئیر مین بھی سعودی ماڈل کے منتظر ہیں تاکہ وہ بھی تین ہفتے میں ہی بدعنوان دولت مندوں سے مال بٹور کر قومی خزانہ بھر دیتے۔ ان دو اہم عہدوں پر فائز لوگوں کے خیالات میں مماثلت حیرت انگیز ہے اور باعث تفکر ہونی چاہئے۔

جسٹس(ر) جاوید اقبال یا عمران خان پر ہی کیا موقوف ، پاکستان میں ہر تیسرا آدمی یہ کہتا مل جائے گا کہ اگر اسے اختیار مل جائے تو وہ دس بیس ہزار لوگوں کی گردن مار کر ملک کو مسائل سے نجات دلوا سکتا ہے۔آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل واڈا بھی ان ہی پاکستانیوں میں شامل ہیں جو کہتے ہیں کہ پانچ چھے ہزار لوگوں کو لٹکا دیا جائے تو سارے مسئلے حل ہوجائیں گے ۔ قباحت صرف یہ ہے کہ مسائل حل کرنے کا یہ طریقہ ملکی آئین و قانون کے خلاف ہے۔ اگر بدنصیبی سے کسی حاکم کو ایسا اختیار حاصل ہوگیا تو استبداد اور ناانصافی کا ایسا دور شروع ہوگا جس کی مثال تلاش نہیں کی جاسکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali