کشمیر میں لاک ڈاؤن: ’معیشت کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے‘


سری نگر

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کو 65 دن پورے ہو چکے ہیں

ماہرین کے مطابق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو مہینوں میں اقتصادی طور پر یہاں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔

مشتاق چائے دو اگست کی وہ دوپہر یاد کرتے ہیں جب انھیں انتظامیہ کی طرف سے ایک ’سکیورٹی ایڈوائزری‘ ملی۔ مشتاق ایک معروف تاجر ہیں اور وادی میں کئی ہوٹلوں کے مالک ہیں۔

اس نوٹ میں دہشت گردی کے خطرے کا ذکر کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہندو یاتری اپنے دور ےکو ختم کر کے جتنی جلدی ہو سکتا ہے واپس چلے جائیں۔

یہ بھی پڑھیئے

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

کشمیر کے اجڑے آشیانے

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

مشتاق نے بھی کئی دیگر لوگوں کی کی طرح اس ایڈوائزری کو سنجیدگی سے لیا۔

دو سال پہلے امرناتھ یاترا سے آتے ہوئے ہندو یاتریوں پر حملہ کر کے شدت پسندوں نے سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ کشمیر کے اننت ناگ ڈسٹرکٹ میں واقع امرناتھ کا غار ہندوؤں کے لیے ایک مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔

چائے کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ سیاحوں اور یاتریوں کو کہا گیا ہو کہ وہ چلے جائیں۔

جلد ہی سرکاری حکم کو لاگو کرنے کے لیے اہلکار آ گئے اور مشتاق چائے اور ان کے عملے نے فوری طور پر مہمانوں کے جانے کا انتظام کیا۔

سری نگر

کشمیر میں ہر طرح کے کاروبار کو نقصان پہنچ رہا ہے

کچھ دن بعد یعنی پانچ اگست کو وفاقی حکومت نے علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور یہاں ہر قسم کا مواصلاتی رابطہ منقطع کر دیا۔

دو ماہ بعد بھی حالات معمول پر نہیں آئے۔ انٹرنیٹ اور موبائل رابطے ابھی بھی منقطع ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ ابھی بھی آسانی سے دستیاب نہیں اور زیادہ تر کاروبار بند ہیں۔ کچھ تو حکومت کے خلاف احتجاج کے طور پر بند ہیں جبکہ کچھ انڈیا کی حکمرانی کے مخالف شدت پسندوں کے حملوں کے خطرے کی وجہ سے بند ہیں۔

علاقے کو ہنر مند مزدوروں کی کمی کا بھی سامنا ہے کیونکہ جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے یہاں سے چار لاکھ افراد ہجرت کر چکے ہیں۔ گلیاں ویران ہیں اور وہ سیاحتی کاروبار بند ہیں جن سے تقریباً سات لاکھ لوگوں کا روزگار لگا ہوا تھا۔

سیاح اگست میں لگنے والے کرفیو کے دوران کشمیر چھوڑ کر جا رہے ہیں

سیاح اگست میں لگنے والے کرفیو کے دوران کشمیر چھوڑ کر جا رہے ہیں

لاک ڈاؤن آسان کام نہیں

ایک سرکاری اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ وفاقی حکومت سے ایک ’اقتصادی پیکج کا انتظار‘ کر رہے ہیں۔ لیکن کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تخمینے کے مطابق شٹ ڈاؤن کی وجہ سے ابھی تک علاقے کو 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور ہزاروں نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔

چائے کہتے ہیں کہ ’وادی میں تین ہزار ہوٹل ہیں اور سبھی خالی پڑے ہیں۔ انھوں نے قرضے چکانے ہیں اور روزانہ کے اخراجات پورے کرنے ہیں۔‘

ان کے 125 افراد پر مشتمل عملے میں سے کچھ ہی لوگ کام پر موجود ہیں۔ اکثر عملہ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور خوف کی وجہ سے نہیں آ سکا۔ علاقے میں تناؤ عروج پر ہے اور شہر میں کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

لیکن حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ جمعرات سے سیاحوں کو آنے کی اجازت دے دی جائے گی شاید آنے والے دنوں میں حالات بہتر ہو جائیں۔

سری نگر کی ڈل جھیل

ڈل جھیل میں شکارے خالی کھڑے ہیں

لیکن صرف ہوٹلوں کو ہی نقصان نہیں پہنچا۔

ٹریول ایجنٹ جاوید احمد کہتے ہیں کہ ’انٹرنیٹ نہ ہونے کا مطلب ہے کہ پانچ ہزار ٹریول ایجنٹ بیکار ہو چکے ہیں۔‘

’حکومت کہتی ہے کہ نوجوانوں کو ملازمتیں دیں۔ ہم نوجوان ہیں لیکن بے روزگار۔ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہمیں نوکریاں چاہیئں۔‘

سری نگر کے مشہور ڈل جھیل میں تقریباً ایک ہزارے شکارے بھی خالی پڑے ہیں۔

کشمیر ہاؤس بوٹس ایسوسی ایشن کے حامد وانگنو کہتے ہیں کہ ’ہر شکارے کی دیکھ بھال کے لیے ہر سال تقریباً سات ہزار ڈالر چاہیئں۔‘

’بہت سے لوگوں کے لیے یہ واحد ذریعہ معاش ہے۔‘

ایسا صرف سیاحت میں ہی نہیں ہو رہا

چیمبر آف انڈسٹری کی صدر شیخ عاشق کہتے ہیں کہ ’صرف قالینوں کی صنعت میں پچاس ہزار سے زیادہ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر جولائی سے ستمبر تک قالین بنانے والے آرڈر لیتے ہیں، خصوصاً بیرون ممالک سے، تاکہ وہ کرسمس تک قالین بنا کر آرڈر مکمل کر سکیں۔

لیکن مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے وہ درآمد کرنے والوں بلکہ اپنے ہی ملازمین سے رابطے نہیں کر سکے ہیں۔

شوپیان ڈسٹرکٹ میں سیب کا باغ

کشمیر کے مشہور سیبوں کے باغ بھی لاک ڈاؤن کا شکار ہیں

جنوبی کشمیر کے مشہور سیب ابھی تک درختوں پر لٹک رہے ہیں اور ان کو درختوں سے توڑنے والے موجود نہیں۔ دکانیں اور کولڈ سٹور بند ہیں اور مرکزی منڈی خالی پڑی ہے۔ مقامی کسان کے مطابق گذشتہ سال اس نے 197 ملین ڈالر کا کاروبار کیا تھا۔

ایک مقامی کسان نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر کہا: ’درختوں پر لٹکتے سیب دیکھ کر مجھے اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ میں نے اپنے باغ میں جانا چھوڑ دیا ہے۔‘

صحافی معسود حسین کہتے ہیں کہ ’سیب کشمیر کی معیشت کا 12 سے 15 فیصد حصہ ہیں لیکن اس سال آدھی سے زیادہ پیداوار درختوں سے اتاری ہی نہیں گئی۔‘

’اگر یہ اکتوبر میں بھی جاری رہی تو اس کے بہت سنگین نتائج ہوں گے۔‘

سری نگر میں دکاندار اپنے سٹور کے باہر گاہک کا انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی گاہک آتا ہے کھولتے ہیں اور اس کے جانے کے فوراً بعد بند کر دیتے ہیں۔ پھر اگلے گاہک کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔

ایک مالک مکان کہتے ہیں کہ وہ حکومت کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں لیکن وہ مقامی لوگوں پر بھی ناراض ہیں جو انھیں کاروبار کھولنے نہیں دیتے۔

وہ پوچھتے ہیں کہ ’اپنی روزانہ کمائی کے بغیر میں کیسے گزارہ کر سکتا ہوں۔‘

وادی

1500 کروڑ کا نقصان صرف سیاحت کے شعبے میں ہوا ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp