زحل مشتری سے بھی زیادہ چاند والا سیارہ بن گیا


امریکی تحقیق کاروں کے مطابق سیارہ زحل نے سب سے زیادہ چاند رکھنے والے سیارے کے حوالے سے مشتری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے سیارے کے گرد 20 نئے چاند دریافت کیے ہیں اور اس طرح اس کے چاند کی تعداد 82 ہو گئی ہے جو کہ مشتری کے 79 سے زیادہ ہے۔

یہ نئی دریافت جزیرہ ہوائی کے مقدس سمجھے جانے والے پہاڑ ماؤنا کیا پر لگی ہوئی ٹیلی سکوپ سوبارو کی مدد سے کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

سیارہ زحل کے چاند پر زندگی کی تلاش کا مشن

خلائی جہاز کیسینی زحل سے ٹکرا کر تباہ

کسینی کی نظر سے زحل کا قریب ترین نظارہ

زحل کے گرد گھومنے والے ہر سیارچے کا قطر میں پانچ کلومیٹر (تین میل) ہے اور ان میں 17 سیارے کے گرد الٹی طرف گھوم رہے ہیں۔ اس عمل کو ریٹروگریڈ ڈائریکشن یا پیچھے کی سمت ہٹنا کہتے ہیں۔ تین دوسرے چاند پروگریڈ ڈائریکشن یا اسی سمت میں گھوم رہے ہیں جدھر سیارہ گھومتا ہے۔

سیارے والی سمت میں گھومنے والے دو چاند اس کے گرد چکر مکمل کرنے میں دو سال لیتے ہیں۔

الٹی سمت میں گھومنے والے چاند اور سیارے والی سمت میں گھومنے والا چاند اپنے مدار میں چکر پورا کرنے میں تین سال سے زیادہ کا عرصہ لیتا ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں کارنیگی انسٹیٹیوٹ آف سائنس میں ٹیم کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر سکوٹ شیپرڈ کہتے ہیں کہ ’ان چاند کے متعلق تحقیق کرنے سے ان کے آغاز اور زحل کے بننے کے وقت اس کے گرد ماحول کا پتہ چل سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر شیپرڈ نے بتایا کہ 1990 کی دہائی سے مشتری کو ہی سب سے زیادہ سیارچوں والا سیارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔

سیارچوں کی یہ نئی دریافت تین مختلف گروہوں میں ہے، جس کا انحصار ان زاویوں پر ہے جن پر وہ اس کے مدار کے گرد گھومتے ہیں۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ الٹے اور سیدھے گھومنے والے چاند کم از کم تین بڑے اجسام کے ٹوٹنے سے عمل میں آئے ہیں۔ یہ بڑے اجسام دوری پر موجود چاند یا قریب سے گزرتے ہوئے سیارچوں سے ٹکرانے کے بعد ٹوٹ گئے ہوں گے۔

ڈاکٹر شیپرڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ان چاندوں کے مدار زحل سے بہت اوپر اٹھے ہوئے ہیں اور یہ کافی دور بھی ہیں اس لیے ہمیں نہیں لگتا کہ یہ سیارے کے ساتھ ہی وجود میں آئے ہوں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ انھیں ماضی میں اس سیارے نے اپنی جانب کھینچ کر اپنے مدار میں جکڑ لیا تھا۔ اگر کوئی شہابِ ثاقب پاس سے گزر رہا ہو تو آج اسے جکڑا نہیں جا سکتا کیونکہ اس کی توانائی کو زائل نہیں کیا جا سکتا۔’

لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب ہمارا نظامِ شمسی اپنے اوائل دور میں تھا اور زحل وجود میں آ رہا تھا، اس وقت گرد اور گیس کے ایک بادل یا ‘ڈسک’ نے اس سیارے کو گھیر رکھا تھا۔ اس کی وجہ سے پاس سے گزرنے والے اجسام کی توانائی زائل ہو جاتی تھی۔ مگر زیادہ تر کیسز میں یہ اجسام چکر کھاتے ہوئے سیارے کے پاس آ جاتے اور اس کا حصہ بن جاتے۔

یہ دریافت سوبارو ٹیلی سکوپ کی مدد سے 2004 اور 2007 کے درمیان لیے جانے والے ڈیٹا پر نئے کمپیوٹنگ الگوردھم لگانے کے بعد سامنے آئی۔ اس الگوردھم کی مدد سے پرانے ڈیٹا میں شناخت کیے گئے ممکنہ سیارچوں کو ان کے مدار میں فٹ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شیپرڈ کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھتے تھے کہ یہ زحل کے چاند ہیں لیکن ہمارے پاس اس کا فیصلہ کرنے کے لیے پورے مدار نہیں تھے۔‘

’اس نئی کمپیوٹر پاور کے استعمال کے بعد میں ان 200 چیزوں کے جن کو ہم چاند سمجھتے ہیں مدار تعینات کر سکتا ہوں۔‘

ڈاکٹر شیپرڈ کہتے ہیں کہ زحل کے گرد مزید چاند بھی دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ماہرِ فلکیات کو بڑی ٹیلی سکوپ چاہیے جو کہ ایک کلومیٹر چوڑی چیزیں بھی ڈھونڈ سکے۔

تحقیق کاروں کی ٹیم نے ان چاند کے نام رکھنے کے لیے ایک مقابلے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان ناموں کو نورس، گیلک اور انیوٹ کے دیو مالائی قصوں کی طرز پر ہی ہونا ہو گا جو کہ تین مختلف جمگھٹوں کے متعلق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp