مٹی کے کھلونے اورلنگرخانے


مجھے اعتراض مولانا فضل کے آزادی مارچ یا دھرنا پر نہیں، خوف یہ ہے کہ جب ملک بھر سے دینی مدارس کے طالبان سڑکوں پر نکلیں گے تو انہیں واپس بھجوانا مشکل ہوجائے گا، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن والے بھی شاید اسی خدشے کی بنیاد پر مولانا کے ساتھ چلنے یا نہ چلنے کا حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے، لیکن تازہ ترین صورتحال میں اب مولانا فضل الرحمان کو ان دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی کسی قسم کی حمایت یا مدد کی ضرورت ہی نہیں رہی، مولانا کو سارا اسلحہ، سارا ڈیزل، خود حکومتی وزراء نے فراہم کر دیا ہے۔وزراء کرام کی بیان بازی نے مولانا کا مجوزہ میلہ خود سجا دیا گیا ہے، اب چاہے اس شخص کے خلاف چاہے نیب کو استعمال کیا جائے، عدلیہ کو یا پولیس کو، بات آگے بڑھ گئی ہے۔

ستائیس اکتوبر کو ممکنہ طور پر جو بھی ہوگا وہاں مولانا فضل الرحمان کی ’’ جسمانی موجودگی‘‘ضرورت بھی شاید نہ رہے، ابھی ستائیس اکتوبر آنے میں اٹھارہ دن باقی ہیں، حکومت اب بھی اپنا جارحانہ اور خوف میں لپٹا ہوا رویہ تبدیل کرکے حالات کو بند گلی میں داخل ہونے سے روک سکتی ہے۔ اگر نادان وزراء کی کڑوی زبان کے بعد بلاول بھٹو نے بھی علیحدہ مارچ اور علیحدہ دھرنے کا اعلان کر دیا ہے، پیپلز پارٹی کا مارچ اور دھرنا مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کے ساتھ ہی شروع ہو سکتا ہے۔ جناب شہباز شریف کی کمر درد ختم ہو یا نہ ہو ن لیگ کے کارکن بھی ان ممکنہ حالات میں کسی قیادت کے بغیر بھی سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔

ہم نے اپنے پچھلے کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کا اصل ٹارگٹ عمران خان اور ان کی حکومت ہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی ہو سکتے ہیں۔ اب پچھلے تین دنوں میں حکومتی وزراء اور حکومتی اقدامات نے حالات کو پلٹا دیا ہے۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور تو اس حد تک آگے چلے گئے کہ انہوں نے مولانا کو نریندر مودی کا ایجنٹ تک قرار دیدیا اور دعوی کر دیا کہ ان کے پاس ثبوت بھی موجود ہیں ، انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کر ڈالی کہ انشاء اللہ تعالی مولانا کو سزا ہو جائے گی۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مولانا کو ’’را‘‘کا ایجنٹ قرار دیے جانے کی غلطی بھی حکومت کے گلے کا پھندا بن سکتی ہے، کیونکہ یہ الزام مولانا کے مدرسوں کے طالبان خود پر الزام تصور کریں گے۔

کیا حکومتی وزراء یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مدرسوں کے طالبان ،، مودی اور را،، کی مدد کے لئے تربیت حاصل کرتے ہیں؟ یہ غیر ذمہ داری کی انتہا ہے،پنجاب کے ایک غیر سنجیدہ وزیر نے بھی نیب سے مولانا کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے جے یو آئی ف کے سربراہ پر شہیدوں کی زمینوں پر قبضے اور ریلویز کی اراضی میں گھپلوں کے الزامات عائد کئے ہیں، ایک غیر مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ مردان میں ایک اسکول کی جن طالبات میں ایک ہی رنگ کے نوے ’’ ٹوپی والے برقعے‘‘تقسیم کئے گئے ہیں انہیں مولانا فضل الرحمان کے امن مارچ کو سبوتاژکرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، جے یو آئی خود خواتین کو سڑکوں پر لانے کی مخالف ہے۔

انارکی سے بچنے کے اب بھی کئی راستے ہیں، جے یو آئی کے ایک اہم راہنما اکرم درانی اس وقت بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کا اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے اور دھرنا دینے کا کوئی پروگرام ہی نہیں ہے، اس سطح تک جانا پڑا تو پہلے ان کی جماعت سر جوڑ کر بیٹھے گی اور امن مارچ کے سوا کچھ اور کرنے کا فیصلہ ان کی جماعت متفقہ طور پر کرے گی۔ اکرم درانی تو ابھی تک یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ لاک ڈاؤن اور دھرنا کی بات کر رہے ہیں وہ جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں، ان حالات میں حکومتی حلقوں کی جانب سے ،، انتہائی غیر ضروری پیش بندیاں،،از خود حکومت کے لئے ،،خطرہ،، پیدا کر رہی ہیں .

اب ہم آپ کو لئے چلتے ہیں وزیر اعظم جو اس وقت بیجنگ کے سرکاری دورے پر، جناب عمران خان نے دو دن پہلے اسلام آباد میں غریبوں کے لئے پہلے سرکاری لنگر خانے کا افتتاح کیا، اس لنگر خانے سے روزانہ چھ سو مفلس افراد مفت کھانا کھا سکیں گے، وزیر اعظم کی معاون خصوصی محترمہ ثانیہ نشتر ان کے ہمراہ تھیں، وہ بتا رہی تھیں کہ مستقبل میں اس طرح کے ایک سو بارہ لنگر خانے کھولے جائیں گے، پہلا لنگر خانہ حکومت بننے کے ایک تیرہ ماہ بعد کھلا ہے تو آپ حساب خود لگالیں کہ ایک سو بارہ لنگر خانے کھلنے میں کتنا وقت لگے گا.

اگر ہم اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہوجائیں کہ یہ تمام لنگر خانے اگلے ساڑھے تین سال میں فنکشنل ہوجائیں گے تب بھی بائیس کروڑ غریبوں کے اس ملک میں حکومت سرسٹھ ہزار دو سو لوگوں کو مفت کھانا کھلانے کا کریڈٹ حاصل کر پائے گی، کیا اس کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے وعدے پر معرض وجود میں آنے والی یہ حکومت اپنی مدت ختم ہونے تک ایک لاکھ لوگوں کی روزی، روٹی یا روزگار کا اہتمام نہ کر سکے گی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مجوزہ لنگر خانوں کو چلانے کے لئے بھی وزیر اعظم نے مخیر حضرات سے فنڈز دینے کی اپیل کی ہے.

عمران خان صاحب نے اس موقع پر فرمایا ،، ہمیں کمزور طبقے کو روٹی کھلانے کی ذمہ داری لینی چاہئیے،، وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ ہم مہنگائی کرکے ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریب طبقے پر ڈال دیتے ہیں جس سے،، فاصلے بڑھ رہے ہیں،، جناب وزیر اعظم! آپ ایک سال تین ماہ بعد کہیں ساری قوم کو سرمایہ داروں کے دروازوں پر تو کھڑا نہیں کرنا چاہتے؟ آج آپ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہم میں صبر کا مادہ نہیں ہے، تبدیلی تو آہستہ آہستہ آئے گی، لوگوں نے تیرہ ماہ بعد ہی آپ سے پوچھنا شروع کر دیا ہے،، کہاں ہے تبدیلی؟ جناب! وزیر اعظم! آپ نے جس ،، تبدیلی،، کے لئے بائیس سال ،، جدوجہد،، کی اسی تبدیلی کے لئے تو قوم تہتر برس سے لڑ رہی تھی، دال روٹی کا مسئلہ تو گھر گھر کا مسئلہ ہے.

ضرورت کی ہر شے عوام کی پہنچ سے بہت دور چلی گئی ہے، لوگ گھروں میں پڑے ہوئے مریضوں کے لئے ادویات خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، اسپتالوں میں ان غریبوں کے لئے بستر موجود ہیں نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور سہولت، آپ کی حکومت نے تو سرکاری اسپتالوں میں مفت ٹسٹ کی سہولت بھی واپس لے لی ہے، ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، لوگوں کا اپنے بچوں کو پڑھانا محال ہو چکا ہے، نجی اسپتالوں کے مالکان نے دس دس لاکھ روپیہ ایڈوانس مانگنا شروع کر دیا ہے۔ بچوں کا جو کھلونا دس بیس روپے میں مل جاتا تھا اب پچاس سے ستر روپے کا ہو گیا ہے۔

گھر لوٹ کر روئیں گے ماں باپ اکیلے میں مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں۔ پٹرول اتنا مہنگا کہ بچوں نے موٹر سائیکلیں چھوڑ کر پیدل اسکولوں میں جانا شروع کر دیا ہے، لوگ گھر بیچ کر گھر چلانے پر مجبور ہوگئے ہیں، رشوت کے ریٹ بھی مہنگائی کے تناسب سے بڑھ چکے ہیں، جناب وزیر اعظم! اپنے وزراء کرام کو ہدایت کریں کہ وہ اپنی توجہ مولانا فضل الرحمان کے مارچ سے ہٹا کر لوگوں کے مسائل کی طرف مبذول کریں، ان بائیس کروڑ لوگوں کو آپ کی حکومت سے جو توقعات تھیں اگر آپ انہیں پورا نہیں کر سکتے تو نہ سہی، عوام کو نئے اندھے کنوؤں میں تو نہ دھکیلیں، وزارت خزانہ نے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے سن دو ہزار چوبیس تک کی جو رپورٹ جاری کی ہے، اسے آسان زبان میں عام آدمی کو بھی سمجھا دیں، اب لوگوں کو آس کی نہیں حقائق سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، عوام سے سچ بولیں گے تو وہ بھی شاید حکومتی مشکلات کے ازالے کے لئے آپ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).