عالمی بساط پر ہلچل مچاتی ٹرمپ کی ٹویٹس


امریکی صدر نے ایک بار پھر خود کو ’’ڈونلڈٹرمپ‘‘ ہی ثابت کرتے ہوئے پیر کی رات چند ٹویٹس لکھ دئیے ہیں۔ان کے ذریعے خبر یہ ملی ہے کہ شام کے شمال مشرقی علاقوں میں تعینات امریکی افواج کوواپس بلالیا گیا ہے۔ان علاقوں میں کرد اکثریت میں ہیں۔داعش نے یہاں محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے تھے۔ان سے نبردآزما ہونے کے لئے کردوں نے ہمت پکڑی۔ امریکہ نے ان کی فوجی اور سیاسی معاونت کا فیصلہ کیا۔داعش والے وہاں سے فرار ہوگئے۔ داعش کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے کردوں نے اپنی اہمیت کو اجاگر کیا۔اس اہمیت نے ترکی کے صدر اردوان کو ناراض کردیا۔

وہ ترکی میں صدیوں سے مقیم کردوں کی مخصوص ثقافتی شناخت کو تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔اسے خطرہ لاحق ہوا کہ شام میں ترکوں کو میسر ہوئی اہمیت ترکی میں کرد ’’علیحدگی پسندوں‘‘ کو توانا تر بنائے گی۔نیٹو کا ایک اہم رکن ہوتے ہوئے بھی ترکی نے لہذا روس کے پیوٹن سے تعلقا ت کو دوستانہ بنانا شروع کردیا۔وہاں سے جدید ترین میزائل خریدنے کا فیصلہ کیا۔ٹرمپ تلملاتا رہا۔ پیر کی رات اس نے مگر جو اعلان کیا ہے اس کی وجہ سے ترکی کو اب یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کی خاطر شام کی سرحد میں کئی میل گھس کر جو چاہے قدم اٹھائے۔

خود کو امریکہ کا ’’حلیف‘‘ تصور کرتے کرد اب ہکا بکا ہوئے ترکی کی جارحانہ پیش قدمی کو پریشانی سے بھگتنے کو تیار ہورہے ہیں۔ٹرمپ نے محض کردوں اور ترکی کے مابین معاملات تک ہی اپنے ٹویٹس کو محدود نہیں رکھا۔ امریکی عوام کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ بش اور اوبامہ حکومتوں نے امریکی افواج کو ’’خواہ مخواہ‘‘ کی جنگوں میں ملوث کردیا تھا۔وہ ان لوگوں کے ’’تحفظ‘‘ کو مامور کردی گئیں جو دل سے امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ روس،چین اور ایران کو اپناحقیقی دوست شمار کرتے ہیں۔ شام کا مسئلہ اب امریکہ کا دردِسر نہیں ہے۔

ترکی جانے اور اس کے روس،چین اور ایران جیسے ’’دوست‘ اور ’’حلیف‘‘۔ٹرمپ کے شام کے بارے میں ٹویٹس نے حتیٰ کہ اس کی جماعت کے سرکردہ رہ نمائوں کو بھی حیران کردیا۔سینیٹر لنڈسی گراہم اس کے قریب ترین ’’پرستاروں‘‘ میں شمار ہوتا ہے۔ہمارے وزیر اعظم کی امریکی صدر سے جولائی کے مہینے میں ملاقات کروانے میں اس نے بھی اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔سینیٹر گراہم نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ٹرمپ کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔شام کے حوالے سے اپنے فیصلے پر ہوئی تنقید سے ٹرمپ مشتعل ہوگیا۔

گدھے سے گرنے کے بعد غصہ کمہار پر نکالنے کی کوشش کی۔ایک اور ٹویٹ کے ذریعے اعلان کردیا کہ ترکی خوب جانتا ہے کہ اگر اس نے ٹرمپ کو ناراض کیا تو وہ اس ملک کی معیشت کو مکمل طورپر تباہ کرسکتا ہے۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ’’سلطان اردوان‘‘اس کی لگائی اس تڑی کو کیسے ہضم کرے گا۔پیر کی رات آئے ٹویٹس کو پڑھ کر بطور پاکستانی مگر فوری تشویش مجھے افغانستان کے بارے میں لاحق ہوگئی۔

اس سال کے آغاز سے ٹرمپ زلمے خلیل زاد کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف رہا ہے۔پاکستان نے ان مذاکرات کو بامقصد بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اُمید تھی کہ گزرے مہینے میں طالبان اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ ہوجائے گا۔ طالبان نے مگر طے شدہ معاہدہ پر امریکہ جاکر کیمپ ڈیوڈ میں بیٹھ کر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ٹرمپ نے ناراض ہوکر طالبان سے جاری مذاکرات کی ’’موت‘‘ کا اعلان کردیا۔اس کی جانب سے ہوئے موت کے اعلان کے باوجود زلمے خلیل زاد وہ پہلا امریکی افسر تھا جس کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم سے ان کے نیویارک پہنچتے ہی طویل ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات نے پیغام یہ دیا کہ عمران خان صاحب کی امریکہ موجودگی کے دوران امریکی حکومت کشمیر کے بجائے افغانستان پر توجہ دینا چاہے گی۔ ہمارے وزیر اعظم وطن لوٹے تو زلمے خلیل زاد بھی اسلام آباد پہنچ گیا۔ ملاغنی برادر کی قیادت میں طالبان کا ایک وفد بھی اس شہر میں نمودار ہوگیا۔ ہم ’’کمی کمینوں‘‘ کو امریکہ یا پاکستان کی حکومت نے ایسی ’’آنیوں جانیوں‘‘ کی بابت سرکاری طورپر کچھ بتانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ہے۔خبراب یہ بھی گردش میں ہے کہ شاید زلمے خلیل زاد اور طالبان کے مابین گفتگو کے نتیجے میں افغانستان کی جیل میں بند چند طالبان کو رہا کردیا گیا ہے۔

ان کے بدلے میں طالبان نے مغوی بنائے چند بھارتی انجینئر رہا کردئیے جو افغانستان میں ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کے نگران تھے۔ اسلام آباد میں ہوئی گفتگو کی بدولت کابل میں طالبان اورمغوی بھارتیوں کی رہائی میرے لئے حیران کن ہے۔بتایا مگر یہ جارہا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے بھارت کے انجینئروں کی رہائی کا بندوبست کرتے ہوئے نئی دہلی کو پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ طالبان ’’بدل‘‘ چکے ہیں۔ مودی سرکار کو ان کے وفد سے ملاقاتیں شروع کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ روس،چین اور ایران کی حکومتیں اگر طالبان سے مذاکرات کررہی ہیں تو بھارت اس ضمن میں تذبذب کیوں دکھارہا ہے۔

اسے بھی افغانستان میں ’’امن‘‘ کے قیام کے لئے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔مقبوضہ کشمیر پر 5اگست سے مسلط ہوئے کمیونی کیشن لاک ڈائون کا اس پورے قصے میں کہیں ذکر ہی نہیں ہورہا۔ہمارے میڈیا میں ان دنوں چرچے بلکہ مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ لانگ مارچ کے ہورہے ہیں۔سوشل میڈیا میں اس حوالے سے رونق مبینہ طورپر JUI(F)کی جانب سے ’’جاری‘‘ ہوئے اس ’’ہدایت نامہ‘‘ کے تناظر میں لگی ہوئی ہے جو سرسری نظر ڈالتے ہی قطعاََ Fake دکھائی دیتا ہے۔عمران حکومت کے ذہین ترین وزیر فواد چودھری نے مگر اس مبینہ ہدایت نامے کی’’شق نمبر6‘‘پر اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ آرائی کی۔

میڈیا میں ریٹنگ کے ریکارڈ بنانے والے ’’عالم آن لائن‘‘ ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں اسی ’’شق‘‘ سے اپنی لسانی مہارتوں سے کھیلتے ہوئے ہمارا جی بہلارہے ہیں۔غربت وافلاس سے بے بس ہوئے لوگوں کے لئے عمران خان صاحب نے ایک لنگر خانے کا افتتاح کردیا ہے۔بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کے بعد پریشان ہوئے اچھے بھلے سفید پوشوں کی خوراک کا بھی ایسے لنگرخانوں کی بدولت بندوبست ہوجائے گا۔ٹرمپ کے لکھے ٹویٹس پر توجہ دینے کی فرصت ہمیں میسر نہیں۔میں خواہ مخواہ یہ سوچتے ہوئے ہلکان ہورہا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکی صدر چند روز بعد ایک اور ٹویٹ لکھ کر افغانستان میں 18برسوں سے جاری جنگ کو بھی “Use less”قرار دیتے ہوئے وہاں سے اپنی افواج نکالنے کا اعلان نہ کردے۔

یوں کرتے ہوئے وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے لوگ بھی امریکہ سے ’’نفرت‘‘ کرتے ہیں۔اب افغانستان جانے اور پاکستان۔ اس کے علاوہ افغانستان کے دیگر ہمسائے یعنی روس، چین اور ایران وغیرہ۔ امریکی افواج ’’ہم تو چلے سسرال‘‘ کہتی ہوئی اپنے وطن لوٹ رہی ہیں۔ٹرمپ کی ٹویٹس عالمی بساط پر جو ہل چل مچاتی ہیں ان سے بے اعتنائی میری دانست میں ناقابل معافی سفاکیت ہے۔چسکہ فروشی کی علت میں مبتلا ہوئے ہم صحافی مگراپنی لاعلمی اور گہرے معاملات تک نارسائی کو اس کے ذریعے چھپالیتے ہیں۔شام کو ذہن میں لاتے ہوئے یاد نہیں رکھتے کہ وہاں پانچ لاکھ بے گناہ شہری خانہ جنگی کا شکار ہوئے۔

حلب کا ہزاروں برس سے ہنستا بستا شہر اُجڑگیا۔ ہمارے ہاں بھی ستر ہزار بے گناہ شہری افغانستان سے جڑی دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے۔زلمے خلیل زاد نے قیام اسلام آباد کے دوران جو ہانڈی چڑھائی اس کی بابت’’خبر‘‘ رکھنا ہمارا حق اور ذمہ داری تھی۔ مجھ جیسے خود کو مہا دانشور ثابت کرتے صحافی یہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔ فیس بک پراپنی تحریروں کے لئے Likeاور Shareکے محتاج ہوئے ’’لکھاری‘‘ ’’ری ٹویٹس‘‘ کے حسد میں فواد چودھری صاحب کی دریافت کردہ ’’شق نمبر6‘‘ سے اپنا رزق کمانے کی لگن میں مبتلا ہیں۔ پتھروں سے رزق چاٹنے والے کیڑوں کی طرح۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).