مدارس، گرامر اسکول اور یکساں نظام تعلیم


آٹھویں جماعت کے تین اوسط ذہانت کے طلبا کو ایک ساتھ بٹھائیں، ان میں سے ایک مدرسے کا طالب علم ہو، دوسرا مہنگے انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا ہو اور تیسرا سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہو، اِن تینوں کو مختلف مضامین کے پرچے حل کرنے کے لیے دیں، پھر یہ حل شدہ پرچے چیک کریں اور دیکھیں کہ کون سا بچہ زیادہ نمبر حاصل کرتا ہے، غالب امکان ہے کہ مہنگے اسکول والا بچہ باقی دونوں سے بہتر نمبر لے گا۔ ابہام دور کرنے کے لیے یہ تجربہ مختلف بچوں پر ایک سے زیادہ مرتبہ آزمایا جا سکتا ہے، مگر اِس کھکھیڑ کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ لوگ اِس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ مہنگے انگریزی اسکولوں کا معیار باقی اسکولوں اور مدرسوں سے بہتر ہے۔

یہ اور بات ہے کہ معیار کا تعین ہم انگریزی سے کرتے ہیں اخلاقی تربیت سے نہیں سو مہنگے اسکولوں کی بگڑی ہوئی اولادیں چاہے اندھا دھند گاڑی چلائیں یا فیشن کے طور پرمنشیات کا استعمال کریں انہیں سات خون معاف ہیں، باقی رہ گئے سرکاری اسکول تو انہیں ہم نے Ghettos بنا دیا ہے جہاں خاکروبوں، ملازموں اور کچی آبادی والوں کے بچے پڑھتے ہیں یا پھر وہ غریب جن کی شکلیں انسانوں سے ملتی ہیں مگر اندر سے ہم انہیں انسان نہیں سمجھتے۔

ہم میں سے جو شخص ذرا بھی استطاعت رکھتا ہے وہ اپنا بچہ سرکاری اسکول میں نہیں بھیجتا اور اگر کسی کا بچہ سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ حقیقت میں غریب ہے۔ اِس گمبھیر مسئلے کا حل ہم نے ایک دلفریب نعرے کی صورت میں دریافت کیا ہے کہ پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج ہونا چاہیے۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ جس قسم کا یکساں نظام تعلیم ہم چاہتے ہیں ویسا پہلے ہی یکساں قومی نصاب کی شکل میں پورے ملک میں نافذ ہے (اب یہ اختیار صوبوں کے پاس ہے ) ۔

اس نصاب میں پوری تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کس جماعت میں پڑھنے والے بچے کا کس مضمون میں کیا learning outcome (حاصلات تعلم) ہوگا، تدریسی مقاصد کیا ہوں اورکیسے پڑھایا جائے گا، مثلاً پانچویں جماعت کی ریاضی پڑھنے والے بچے کو اِس قابل بنایا جائے گا کہ وہ LCM یا HCF نکال سکے، یہ بچہ چاہے ٹاٹ کے اسکول میں پڑھتا ہو یا گرامر اسکول میں، اس بچے کی استعداد یہ ہونی چاہیے۔ مگر اصل صورتحال اِس کے برعکس ہے، مہنگے اسکول کے بچے کے لیے یہ بالکل حلوہ ہوگا کیونکہ اسکول میں وہ سنگاپور کی کتابیں پڑھتا ہے اور شام کوٹیوشن کے لیے جاتا ہے، جبکہ باقی بچے ان سہولتوں سے محروم ہیں۔

یہاں پہنچ کر ہم ایک اور نعرہ لگاتے ہیں کہ بچوں کونصابی کتب بھی ایک جیسی پڑھانی چاہئیں۔ یہ بات بھی کسی لطیفے سے کم نہیں کیونکہ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ کے ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ قومی نصاب کے تحت اپنی کتب شائع کروائیں یا پھر نجی اداروں کی شائع شدہ نصابی کتب منظور کریں، ہوتا یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں زیادہ تر ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع شدہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں کیونکہ وہ سستی ہوتی ہیں جبکہ گرامر اسکول مہنگی امپورٹڈ کتابیں پڑھاتے ہیں مگر ہوتی وہ بھی منظور شدہ ہیں۔ اب ہمیں مزید کچھ نہیں سوجھتاتو ہم کہتے ہیں کہ تمام اسکول ایک جیسے کردو یہی یکساں نظام تعلیم ہے، بس، اور ہم کچھ نہیں جانتے!

دراصل مسئلہ نظام تعلیم کا نہیں طبقاتی تفریق کا ہے۔ نئی دہلی میں حکومت نجی اداروں کو اسکول بنانے کے لیے زمین الاٹ کرتی تھی، دہلی میں زمین بہت مہنگی ہے، بعض علاقوں میں تو اِس کی قیمت نیویارک اور پیرس سے بھی زیادہ ہے سو اِن مہنگے اسکولوں کی چاندی ہو گئی، امرا کے بچے یہاں پڑھتے جن سے لمبی چوڑی فیسیں وصول کرکے اپنی جیبیں بھری جاتیں۔ اِس ماڈل پر بہت تنقید ہوئی کہ یہ اسکول اتنی قیمتی اراضی اینٹھنے کے بعد معاشرے کے غریب طبقات کے لیے کچھ نہیں کر رہے سو فیصلہ کیا گیا کہ دہلی کے یہ بہترین مہنگے اسکول اِس بات کے پابند ہوں گے کہ BPL یعنی Below Poverty Line والے بیس فیصد بچوں کو نہ صرف داخلہ دیں گے بلکہ ان کا مکمل خرچ بھی اٹھائیں گے۔

چنانچہ اب اِن اسکولوں میں داخلے کے لیے غریب قابل بچوں میں سخت مقابلہ ہوتا ہے اور کامیاب ہونے والے بچے امرا کے بچوں کے ساتھ وہی تعلیم حاصل کرتے ہیں جو پہلے صرف اشرافیہ کے لیے مخصوص تھی۔ ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم نے بھی بڑے بڑے شہروں میں قیمتی زمینیں نجی اسکولوں کو مفت میں دے رکھی ہیں، ایک مثال لاہور سے لے لیں، یہاں کے سب سے مہنگے گرامر اسکول کی اراضی آمریت کے دور کی اسمبلی کے اسپیکر صاحب نے یہ کہہ کر الاٹ کروائی کہ یہاں نظریہ پاکستان کی ترویج کی جائے گی، کروڑوں روپوں کی زمین لینے کے بعد موصوف نے ایک معروف کاروباری خاندان سے معاہدہ کیا کہ آپ یہاں اسکول کھول لو جہاں میں نظریہ پاکستان کا ایک مضمون پڑھانے آ جایا کروں گا، اِس کے عوض مجھے سالانہ پچھتر لاکھ دے دیے جائیں، یہی نہیں بلکہ اِس کے بعد جناب نے وہاں پرنسپل کی دو کنال کی رہائش گاہ بھی بنوائی اور قیام فرمانے لگے۔

اسی اسکول کے ساتھ ایک اور اسکول بھی ہے جو ڈالروں میں فیس لیتا ہے، اسے بھی سرکاری اراضی الاٹ ہوئی تھی، اسلام آباد میں ایسے کئی اسکول ہیں جو سرکار کی زمین پر بنے ہیں۔ دہلی کی طرز کا ایک قانون پنجاب حکومت نے بنایا تھا اور ان اسکولوں کو پابند کیا تھاکہ وہ بیس فیصد غریبوں کے بچے پڑھائیں گے مگر اِس قانون پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ یہ ہے اصل مسئلہ جسے جڑ سے پکڑنے کی ضرورت ہے مگریہ چونکہ مشکل کام ہے اس لیے ہم نے یکساں تعلیمی نظام کا نعرہ لگایا ہوا ہے جس کا نہ کوئی مطلب ہے اور نہ مقصد، اِس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ مدارس جو اِس کی سب سے زیادہ حمایت کر رہے ہیں انہیں اپنا نصاب تبدیل کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اپنے بچوں کو قومی نصاب نہیں پڑھا رہے۔

دوسری طرف پاکستان کے تمام مہنگے اسکول ملک کے طرم خان خاندان چلا رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو سیمیناروں میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، ہر حکومت میں حصہ دار ہوتے ہیں اور خود کو ایک مسیحا کے روپ میں پیش کرتے ہیں، حال مگر ان کا یہ ہے کہ اپنے اسکول میں ایک بچہ بھی غریب کا برداشت نہیں کر سکتے لہذا یکساں نظام تعلیم کا نعرہ سب سے زیادہ انہی کو سوٹ کرتا ہے۔

اِس طبقاتی نظام تعلیم کی تازہ ترین ایجاد نئے قسم کے کنسلٹنٹ ہیں، یہ لوگ امرا سے دس بارہ لاکھ روپے فیس لیتے ہیں جس کے عوض یہ اُن کے بچے کو ایسے تیار کرتے ہیں کہ اسے باہر کی کسی اعلی یونیورسٹی میں آسانی سے نہ صرف داخلہ مل جائے بلکہ اُس کا پروفائل ایسے بنایا جائے کہ وہ اسکالر شپ بھی لے اڑے، اس مقصد کے لیے وہ بچے کے لیے پرسنل سٹیٹمنٹ لکھتے ہیں، انہیں بتاتے ہیں کہ اسکول میں ہیڈ بوائے/گرل کا الیکشن لڑو اور گرمی کی چھٹیوں میں ایسی انٹر ن شپ کرو کہ لگے تمہارے اندر غریبوں کا بہت درد ہے۔

اصل حقداروں کے لیے اب یہ دہری مصیبت ہے، پہلے تو وہ مہنگے اسکول ہی افورڈ نہیں کر سکتے تھے اوپر سے اب یہ کنسلٹنٹ آن ٹپکے ہیں جو سکالر شپ بھی ہتھیانا شروع ہو گئے ہیں۔ اس مسئلے کا حل ایک نوجوان نے ویب سائٹ بنا کر نکالا ہے، آپ kyascopehai.org پر جائیں اور اپنے بچے کی تعلیمی قابلیت کا ڈیٹا یہاں جمع کروا دیں، یہ ویب سائٹ اس ڈیٹا کی پڑتال کرے گی اور الگورتھم کے ذریعے آپ کے بچے کے لیے بہترین کالج کا انتخاب کرنے میں مدد دے گی، کسی کنسلٹنسی فیس کے بغیر۔ باقی رہا یکساں نظام تعلیم کا نعرہ تو جیسے ہم باقی نعروں کے پیچھے بہتّر برس سے بیوقوف بن رہے ہیں ویسے ہی کچھ سال اس کے پیچھے بھی لگ کر دیکھ لیں، اگر افاقہ ہو جائے تو ٹھیک ورنہ مارکیٹ میں کوئی نیا نعرہ لے آئیں گے۔

ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada