راولپنڈی سازش کیس اور پوشنی کا انقلاب


لانبا قد، ایتھلیٹ کی طرح چھریرا بدن، منٹو اور جیلیانوالہ باغ کے زمانے سے تحریک آزادی کے امرتسری رہنما ڈاکٹر سیف کچلو کے خاندان سے تعلق۔… یہ ہیں ظفراللہ پوشنی— پاکستان کے پہلے فوجی انقلاب کے کردار — 11 فوجی افسران اور چارسویلین کردار بشمول کمیونسٹ پارٹی کےلیڈر سجاد ظہیر اور شاعر انقلاب فیض احمد فیض نے حصہ لیا۔

پوشنی صاحب حیات ہیں اور ہمارے تاریخ کے اس موڑ کے آخری چشم دید گواہ— مارچ 1951 کا فوجی انقلاب ناکام — سارے کرداروں کے خلاف مقدمہ۔۔۔ تاریخ میں راولپنڈی سازش کیس کے نام سے جانا جانے والا واقعہ۔۔۔

پاکستان بننے کے چند ہی برس میں فوجی انقلاب۔ قائداعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی ڈولتی قیادت۔۔۔۔ امریکہ کی طرف بڑھتا جھکاؤ— کیا وجہ بنی کہ ترقی پسند، بائیں بازو کے خیالات کے حامی فوجی افسران نے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی-

پوشنی صاحب کے خاندان سے میرے گھرانے کا پرانا تعلق چلا آ رہا ہے۔ ان کی سوانح عمری، آپ بیتی، کچھ ان کی زبانی-
قصہ یوں کہ پاکستان کے قیام کے بعد کشمیر میں فوجیوں نے انڈین آرمی کو پسپا کردیا تھا۔ اس وقت جنرل اکبر خان کمانڈ کررہے تھے، جنرل طارق کے کوڈ نام کے ساتھ۔

وہ سمجھتے تھے کہ لیاقت علی خان نے فوج کو مطلوبہ اخلاقی اور لاجسٹک مدد فراہم نہیں کی- وہ اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی سے بھی سخت نالاں تھے۔۔۔۔ سمجھتے تھےکہ سری نگر پر قبضہ ہو سکتا تھا۔

جنرل اکبر خان نے فوجی انقلاب کی سازش بُنی۔۔۔۔ منصوبے میں میجر محمد حسن بھی تھے جنہوں نے ڈوگرا کی فوج سے شمالی علاقے بشمول گلگت بلتستان آزاد کرائے— اور ہمارے پوشنی صاحب جو اس وقت فوج میں کپتان تھے۔۔۔ منصوبے کے سب سے کم عمر کردار-
جنرل اکبر خان کے گھر پر ملاقات، 1951 جاڑے کا موسم، منصوبہ تیار، اگلے ہفتہ جب لیاقت علی خان راولپنڈی آئیں گے تو انہیں گرفتار کیا جائے گا، عبوری حکومت بنائی جائے گی، فریش انتخابات کرائے جائیں گے، معاشرے کو کرپشن سے آزاد کیا جائے گا، ماضی کا یہ قصہ، یہ الفاظ، دہائیوں کے بعد بھی حال کا قصہ ہی لگتا ہے،

جنرل اکبر خان کی اہلیہ کی محفلوں میں بے احتیاط گفتگو، مخبروں کی کارگزاری، گرفتاریاں، لاہورجیل سے ہوتے ہوئے اس فوجی انقلاب کا خواب دیکھنے والے قیدیوں کا قافلہ حیدرآباد سنٹرل جیل لایا گیا – مقدمہ چلایا گیا-
ملک بھر میں اس مقدمے کا چرچا رہا۔


ترقی پسند سیاست دان مقید۔ حکمران قیادت کمزور۔ ناہموار پالیسیاں۔ گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کا امریکہ کی طرف جھکاؤ، محمد علی بوگرہ نے امریکہ میں تو یہ بیان بھی داغ دیا کہ کمیونزم ہائیڈروجن بم سے زیادہ خطرناک ہے-

مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ون یونٹ کے تحت ضم کردینے کا منصوبہ۔۔۔۔ سیاسی طوفان، ہلچل۔۔۔۔ گرفتاریاں، حیدرآباد جیل میں گویا سیاستدانوں کا تانتا بندھ گیا۔۔۔ سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید، کمیونسٹ رہنما سوبھو گیا ن چندانی جن کا تعلق میرے ابائی شہر لاڑکانہ سے تھا، بھی گرفتار۔۔۔۔ جیل میں فوجی انقلاب کے کردار، پاکستان کی ہیجانی سیاست، قصے کہانیاں اور پوشنی صاحب کی سوانح عمری-
“زندگی زنداں دلی کا نام ہے”، جیل کی آپ بیتی میں قصہ گوئی بے حد خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

خود فیض کا کہنا ہے کہ؛ ظفراللہ پوشنی سے بھی میری وہیں (جیل میں) شناسائی ہوئی، ایک لااُ بالی، بے فکرا، کھلنڈرا نوجوان جسے ڈنڈ پیلنے، گلا پھاڑنے اور انگریزی کے فحش گانے کے علاوہ بظاہربقیہ زندگی سے کوئی سروکار ہی نہ تھا، پوشنی کے لکھے ہوئے اس منظر نامے میں آپ کو یہ سارے کردار ایک طرح سے پردہ تصویر پر نظر آئیں گے۔
پوشنی صاحب کے یہ قصے کہانیاں دلچسپ بھی ہیں اور ملک کی سیاسی تاریخ کے نشیب و فراز، تلخ واقعات کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔


فیض صاحب کا جیل میں بلی سے خوف، فیض صاحب اور سجاد ظہیر کا دوسرے قیدیوں کے ساتھ سگریٹوں پر جملوں کا تبادلہ، ایک دوسرے پر پانی کی بالٹیاں الٹانا، جیل میں مشاعروں کا اہتمام، فیض صاحب کی صحبت میں سارے انقلابیوں نے کس طرح شعری ذوق حاصل کیا۔
سجاد ظہر کا حلیہ، بقول پوشنی صاحب، ایک کمیونسٹ لیڈر کا لگتا ہی نہیں تھا، ہمیشہ بے داغ کرتے پاجامے میں ملبوس، حلیم الطبع، شائستہ گفتگو، گویا انہیں دیکھ کر یہ شائبہ تک نہیں ہو تا تھا کہ وہ ایک زیر زمین کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہیں۔

خود پوشنی صاحب نے اپنی ذاتی زندگی کے تلخ تجربوں کو مزاح کے انداز میں بیان کیا ہے۔ خبر آئی کہ پوشنی صاحب کی سابقہ منگیتر مزید انتظار نہ کر سکی اور ان کی شادی ہو گئی۔ جیل میں ساتھیوں کے ساتھ واقعہ بیان ہو رہا ہے۔ کسی نے کہا، “چلو پوشنی، ان کی شادی ایک لبرل، معروف وکیل سے ہو گئی ہے اگر کسی جماعت اسلامی والے سے ہو جاتی تو افسوس ہوتا” پھرقہقہے۔

فیض صاحب کا نہا دھو کر مذہبی انداز سے خوشبو لگانا، پوچھا کہ کہ اپ مذہبی تو نہیں پھر یہ کیوں؟ کہا کہ اسلامی روایات ہماری معاشرتی روایات بھی تو ہیں، جیل کے اندر کی صحبتیں، باہر کی دنیا میں انگڑایاں لیتے سیاسی واقعات، ریڈیو اور اخباری تراشوں سے تاریخ پوشنی صاحب نے اپنی سوانح عمری میں بہت خوبصورتی سے پروئی ہے۔

ایران میں ڈاکٹر مصدق کی تختہ الٹنے کی امریکی سازش، مصر میں جمال عبدالناصر ا صدر نجیب کی حکومت الٹنے کا منصوبہ، کس طرح امریکہ پاکستان سمیت دنیا میں بالادستی کی رسہ کشی میں مصروف ہے، سب کچھ ایک ڈائری کی صورت میں ہیں۔

کچھ برس بعد یعنی 1955 میں قیدیوں کی رہائی۔ ناکام فوجی انقلاب کے منصوبے کے بعد اج تک دہائیاں گذر گئیں لیکن روالپینڈی سازش مقدمے کی کارروائی ابھی تک خفیہ ہے۔

اس قضیے میں ہر فریق وکلا، گواہان، ملزمان سب کو قانونی طور پر پابند کردیا گیا تھا کہ کارروائیاں اور ان کلی تفصیلات راز میں رہیں گی۔ ملک میں آمریت کے کئی ادوار اور منتخب حکومتیں آئیں لیکن یہ راز راز ہی رہا۔ یہ فوجی انقلاب ابھی تک ایک معمہ ہی رہا ہے۔
کیا یہ حقیقت تھی یا ایک ڈرامہ یا اس میں کچھ حقیقت یا کچھ ڈرامہ تھا۔ پوشنی صاحب کی زندگی نے بھی ڈرامے کی طرح کئی رُ خ لیے ہیں۔ گذشتہ ساٹھ برس سے وہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ملازمت کررہے ہیں، چورانوے برس کی عمر کا یہ نوجوان اج بھی زندہ ہے۔ ان کی خود نوشت ” زندگی زنداں دلی کا نام ہے” کے عنوان سے چھپی تھی۔ میرے خیال میں انہوں نے اپنی زندگی “زندان دلی” میں نہیں بلکہ زندہ دلی سے گذاری ہے۔

ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
جُز تیرے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں!

اویس توحید

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس توحید

اویس توحید ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں ای میل ایڈریس owaistohid@gmail.com Twitter: @OwaisTohid

owais-tohid has 34 posts and counting.See all posts by owais-tohid