سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر ظلم کی ویڈیو وائرل، ہٹلر اور سٹالن کے عقوبت خانوں کے مناظر


بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں چین سے خفیہ ڈرون کیمروں سے فلمائی جانے والی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں آنکھوں پر پٹی بندھے سینکڑوں قیدیوں کو نہایت غیر انسانی حالات میں ٹرین کے ذریعے منتقل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وڈیو سے چیں میں سنکیانگ کے مغرب بعید علاقے میں مسلم ایغوروں پر جاری کریک ڈاؤن پر نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔

گذشتہ ہفتے پوسٹ کی جانے والی ویڈیو میں سیکڑوں مردوں کو دکھایا گیا ہے، جن میں سے بیشتر ارغوانی اور نارنجی رنگ کے لباس میں ملبوس ہیں، ان پر ”کاشغر حراستی مرکز“ کے چھپے ہوئے الفاظ پڑھے جا سکتے ہیں۔ زمین پر قطار میں بیٹھے این قیدیوں کو ٹرین اسٹیشن کے باہر ایک بڑے صحن مین بٹھایا گیا ہے۔ ان کے سر مونڈے گئے ہیں اور ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں۔ تمام افراد کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھی گئی ہے اور SWAT (Beijing Special Police Force) کی وردیوں میں پولیس کے درجنوں اہلکار ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔

سی این این کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کی صداقت یا اسے بنانے کی تاریخ کی تصدیق نہیں کرنا ممکن نہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے ویڈیو پر تبصرہ کرنے کے لئے بار بار درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ 4 اکتوبر کو سی این این کو دیے گئے ایک بیان میں، سنکیانگ میں حکام نے کہا کہ ”قانون کے مطابق جرائم کا خاتمہ کرنا تمام ممالک کا مشترکہ عمل ہے۔ “ بیان میں مزید کہا گیا، ”سنکیانگ میں جرائم کے خلاف کریک ڈاؤن کا کبھی بھی نسلی یا مذاہب سے تعلق نہیں رہا ہے۔ “

یہ واضح نہیں کہ ان افراد کو اخلاقی جرائم، سیاسی وجوہات یا مذہبی شناخت کی بنا پر قید کیا گیا ہے۔ ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے یوٹیوب صارف نے اسے ”سنکیانگ ایغور خودمختار خطے میں چینی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں پر طویل مدتی جبر کے ثبوت کے طور پر بیان کیا ہے۔ “

گذشتہ اڑھائی برس سے چین ”رضاکارانہ طور پر بنیاد پرستی ختم کرنے کے کیمپوں“ اور ”پیشہ ورانہ تربیتی مراکز“ کے نام پر لاکھوں ایغوروں اور دیگر بنیادی طور پر مسلم نسلی اقلیتوں کو نظربند کر رہا ہے۔ سابق زیر حراست افراد نے اس وڈیو کو عقوبتی کیمپوں کے قریب بتایا ہے۔ یہاں ایذا رسانی کے الزامات عروج پر ہیں۔ متعدد سابق قیدیوں نے تشدد اور خوف و کی فضا میں جبری سیاسی تعلیم کی گواہی دی ہے۔

مغربی انٹلیجنس اہلکاروں کے مطابق، ان کے خیال میں ویڈیو مستند ہے۔ ایک عہدیدار نے کہا، ”اس طرز عمل کے لئے چین کو جواب دہ ٹھہرانے کی ضرورت ہے۔ “ ”بہت سارے ممالک انسانی حقوق کو سمجھے بغیر چین کی حمایت کرتے ہیں جب کہ ایسا لگتا ہے کہ چین پوری ایغور قومیت کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ “ متعلقہ عہدیدار نے سال رواں کے شروع میں تقریبا 500 قیدیوں کو کاشغر سے کورلا لے جائے جانے کی تصدیق کی تھی۔

اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (آسٹریلیا) میں چینی امور کے ماہر محقق ناتھن روسر کے مطابق وڈیو مین قیدیوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ تاہم روسر نے بتایا کہ یہ ویڈیو اگست 2018 میں فلمائی گئی تھا۔ روسر نے کہا کہ ویڈیو میں ڈرون کیمرا کے نمایاں نشانات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیٹیلائٹ کی یہ تصاویر سنکیانگ کے وسط میں کورلا شہر کے قریب ریلوے اسٹیشن پر بنائی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ویڈیو میں شامل افراد کو کاشغر کے ایک حراستی مرکز سے ”بہت زیادہ وسیع و عریض کورلا عقوبت خانے تک پہنچایا گیا تھا۔ “ ایک امریکی عہدیدار نے 24 ستمبر کو صحافیوں کو بتایا کہ واشنگٹن کے خیال میں ویڈیو مستند ہے۔ محکمہ خارجہ کے عہدیدار ڈیوڈ اسٹیل ویل نے کہا، ”کسی خاص وڈیو کی صداقت میں الجھنے کی بجائے ان شواہد کو ریاستی استبداد کی پھیلی ہوئی تصویر کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ “

چینی حکام نے ویڈیو پر ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ 23 ستمبر کو وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئینگ نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پر طنز کیا جنہوں نے کہا تھا کہ چین سنکیانگ میں ”اپنے شہریوں کو مٹانے“ کی کوشش کر رہا ہے اور دنیا بھر کے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ”ایغوروں کی وطن واپسی“ کے چینی مطالبات کی مزاحمت کریں۔ ہوا چونئینگ نے پومپیو کے بیان کو ”سراسر بے بنیاد الزام تراشی“ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیجنگ متعلقہ امریکی عہدیداروں پر زور دیتا ہے کہ وہ حقائق کا سامنا کریں، معقول اور منصفانہ طرز عمل اپنائیں، اور انسداد دہشت گردی کے معاملے پر دوہرے معیارات سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ ”سنکیانگ میں ریاستی کارروائیاں خطے میں دہشت گردی کے خطرے کو روکنے کے لئے ہیں“۔

امریکہ اور اس کے متعدد اتحادی چین کے سنکیانگ میں اقدامات کی واضح مذمت کرتے ہیں لیکن چین کے ساتھ کاروبار کرنے والے مسلم دنیا کے بہت سے ممالک اپنے بیانات میں زیادہ محتاط رہے ہیں۔ جولائی میں بیجنگ کی سنکیانگ پالیسیوں کا دفاع کرنے والے مسلم ممالک میں پاکستان، قطر، شام، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت متعدد مسلم اکثریتی ممالک شامل تھے۔

سنکیانگ میں دو سابق زیر حراست افراد نے یہ وڈیو دیکھ کر کہا ہے کہ ”ہم یہ سب بھگت چکے ہیں“۔ قازقستانی مسلمان امانزان سیئت نے بتایا کہ انہیں 2018 میں چین میں حراست میں لیا گیا تھا، لیکن انہیں کبھی اس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ ایک کیمپ میں کئی ہفتے رکھنے کے بعد، بالکل اسی طرح جیسے اس وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے، ”ہمیں دوسری جگہ لے جایا گیا تھا“۔ انہوں نے سی این این کو بتایا، ”ہمیں ایسے ہی بیٹھنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ انہوں نے ہمارے ہاتھوں اور پیروں میں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈال رکھی تھیں اور سروں پر نقاب۔ بندوق بردار پولیس والے ہمارے سروں پر کھڑے تھے۔ “ اسے کئی ماہ بعد رہا کیا گیا تھا اور اب وہ چین کی مغربی سرحد پر واقع ملک قازقستان میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”حراست کے دوران بے یقینی سے پیدا ہونے والا خوف سب سے تکلیف دہ تھا“۔ سیئت نے کہا، ”ویڈیو دیکھ کر مجھے اب بھی خوف آ رہا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ قیدی کیا سوچ رہے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ انہیں کہاں لے جایا جارہا ہے یا یہ کہ کیا انہیں گولی مار دی جائے گی۔ یہ سب بہت خوفناک ہوتا ہے۔ “

کیمپوں کے اندر گولی مار کر ہلاک کرنے کے کوئی شواہد معلوم نہیں ہیں۔ اب سنکیانگ سے 3000 میل دور بیٹھے ایک قازق مسلمان عمر بیک بیکالی نے کہا کہ اسے معلوم ہے کہ اسے حراست میں خوف کا احساس کیا ہوتا ہے۔ وہ 2017 میں کئی ماہ چینی کیمپ میں نظربند رہنے کے بعد اب نیدرلینڈ میں رہتا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ ان پر باقاعدگی سے تشدد کیا جاتا تھا۔ وہ ان کیمپوں کو جہنم قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”مجھے لگتا تھا کہ ہم پر تشدد کا ایک ہی مقصد ہے ہمیں جسمانی طور پر کمزور کرنا تاکہ آپ مزاحمت نہ کرسکیں۔ “ بیکالی کا کہنا تھا کہ اگرچہ انہیں دو کیمپوں کے درمیان کار کے ذریعے منتقل کیا گیا تھا، لیکن اس کے منہ پر بھی تھیلا چڑھایا گیا تھا اور اس کے ہاتھ باندھے گئے تھے۔ ڈرون کی ویڈیو دیکھ کر عمر بیک نے جذباتی ہو کر کہا، ”مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ مجھے یہاں اس حالت میں رکھا گیا تھا۔ میں اسے نہیں بھول سکتا۔ یہ ایک مجرمانہ کارروائی ہے۔ “

سنکیانگ کے حکام اور چینی وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے سابق زیر حراست افراد کے الزامات کے بارے میں رائے دینے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

بیجنگ کی مغرب بعید میں واقع سنکیانگ کے ساتھ کشمکش کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ سنکیانگ کی آبادی سوا دو کروڑ ہے۔ بنیادی طور پر مسلمان اور نسلی طور پر ایغور یہ لوگ چین کے اکثریتی نسلی گروپ، ہان چینی سے الگ ہیں۔ سنکیانگ میں ایغور مسلمان کل آبادی کا نصف سے کم ہیں۔ کچھ ایغوروں کا دعوی ہے کہ یہ عقوبتی کیمپ بیجنگ کی ”ثقافتی نسل کشی“ کا حصہ ہیں، تاکہ ایغوروں کے مذہب اور ثقافت کو ختم کیا جاسکے اور انہیں چین کی اکثریتی ہان آبادی کے قریب لایا جا سکے۔

جولائی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، سنکیانگ کے گورنر اور خطے کے اعلی ترین نسلی ایغور اہلکار، شہرت ذاکر نے کہا کہ زیادہ تر نظربندوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیمپ خطے کے لئے ”انتہائی مثبت“ ہیں۔ انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا کہ کتنے لوگ کیمپوں میں موجود ہیں۔ ذاکر نے مزید کہا کہ کسی بھی مذہب یا اقلیتی گروپ کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے کہا، ”ہم کسی صحافی، عہدیدار یا مذہبی شخصیت کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ وہ سنکیانگ میں کہیں بھی تشریف لائیں یا کسی بھی وقت۔ اپنی پسند کے کسی بھی پیشہ ورانہ تربیتی مرکز میں جا کر معائنہ کر لیں۔ “

واضح رہے کہ مقامی حکام کی جانب سے ان حراستی کیمپوں کا دورہ کرنے کی ​​کوششوں کو بار بار روکا جاتا ہے۔

ماخذ: https://edition.cnn.com/2019/10/06/asia/china-xinjiang-video-intl-hnk/index.html


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).