عمران خان کی جگہ کسی اور کو وزیراعظم بنانے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے: ہارون رشید


سینئیر صحافی ہارون رشید کا کہنا ہے کہ جہاں تک مولانا پہنچ چکے ہیں ان کے پاس احتجاج کرنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ لیکن حکومت کے پاس بڑی طاقت ہوتی ہے وہ ان کو اسلام آباد نہ آنے دیں۔ سپیشل برانچ والے پھر رہے ہوں گے، پولیس والے کچھ گرفتاریاں کر لیں۔ کچھ لوگ اس سے دلبرداشتہ ہو جائیں گے اور شرکاء کی تعداد بھی کم ہو جائے گی۔ تاہم ایسا ممکن نہیں کہ وہ احتجاج نہ کریں۔ ان سے بات چیت کا وقت بھی گزر گیا ہے۔ اگر پہلے بات چیت کی جاتی تو ممکن ہو سکتا تھا کہ مولانا دھرنا نہ دیتے۔

ادھرحکومت کا یہ کہنا کہ یہ سب مودی کے کہنے پر ہو رہا ہے یہ بھی غلط ہے۔ ہارون رشید نے کہا کہ اپوزیشن کے تین اہداف ہیں ایک یہ کہ عمران خان کو عہدے سے ہٹایا جائے، ایک یہ کہ نئے الیکشن کروائے جائیں اور ایک یہ انہی کی پارٹی میں سے کسی اور کو وزیراعظم بنایا جائے، اس حوالے سے سنجیدگی سے بحث بھی ہوئی اور شاہ محمود قریشی کا نام سامنے آیا۔

میں نے وزیراعظم کے لیے شاہ محمود قریشی کا نام سوچ سمجھ کر لیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم بنا دیا جائے اور اگر ایسا ہو جائے تو میں اسی دن ٹیلی ویژن چھوڑ دوں گا کیونکہ مصنوعی گفتگو زیادہ دیر نہیں سنی جا سکتی۔ ہارون رشید نے مزید کہا کہ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ پارلیمانی کمیٹی بن جائے اور اس کے بعد الیکشن ہوں۔

خیال رہے اس سے قبل بھی سینئیر تجزیہ کار ہارون رشید نے حکومتی صفوں میں بغاوت کا عندیہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم بننے کے لیے اندرون و بیرون ملک لابنگ کر رہے ہیں۔ اور بیرون ملک لابنگ کا جن کو پتہ چل سکتا تھا اُنہیں اِس کا پتہ چل گیا ہے جس کے بعد اب شاہ محمود قریشی کا وزیراعظم بننا تو بہت مشکل ہے لیکن اِس سے صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

جب کہ دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے دھرنے میں شرکت کی یقین دہانی نہ کروائے جانے کے باوجود بھی سولو فلائٹ لی اور 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کر دیا، ان کے اس قدر پُر اعتماد انداز کے پیچھے ضرور کوئی نی کوئی بات ہے جو فی الوقت راز ہے لیکن ممکنہ طور پر وقت آنے پر اس راز سے پردہ اُٹھ جائے گا۔
بشکریہ اردو پوائنٹ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).