جنسِ مخالف کی تلاش میں سرگرداں مکڑوں کا موسم


سپائیڈر

خزاں کا موسم ہے۔ طویل گرمیوں کے بعد اب آپ کو سکون کی نیند آنا شروع ہوئی ہے۔ سب کچھ اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن جب آنکھ کھلتی ہے تو آپ کے تکیے پر ایک سیاہ رنگ کی چیز دکھائی دیتی ہے۔ آپ آنکھ صاف کر کے ایک مرتبہ پھر غور سے دیکھتے ہیں یہ کیا چیز ہے اور کہاں سے آئی ہے۔

او خدایا یہ تو مکڑی ہے۔ کوئی ننھی سے مکڑی نہیں بلکہ ’کھاتے پیتے خاندان‘ کا موٹا تازہ مکڑا۔

اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں، کیونکہ یہ مکڑا کھڑکی کے راستے نہیں آیا ہے۔

بری خبر یہ ہے کہ آپ کی نظروں سے اوجھل، پچھلے ایک سال سے یہ آپ کے گھر میں ہی چھپا بیٹھا تھا۔ یہ سارا سال مزے سے کیڑے مکوڑے کھاتا رہا ہے، لیکن اب اسے ایک مجبوری باہر کھینچ لائی ہے، اور وہ ہے اس کا جنسی ہیجان۔

اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے بی بی سی ریڈیو ون سے منسلک رچرڈ جونز بتاتے ہیں کہ عام طور پر آپ کو گھر میں جو مکڑیاں ادھر ادھر بھاگتی نظر آتی ہیں، ان میں زیادہ تر نر مکڑے ہوتے ہیں۔

اعتبار کرنا پڑے گا کیونکہ رچرڈ جونز نہ صرف علمِ حشریات کے ماہر ہیں بلکہ انھوں نے اپنا نام ہی ’بگ مین‘ یا مکڑیوں کا ماہر رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’کسان کو سمجھنا چاہیے کہ مکڑیاں فصل کی چوکیدار ہیں‘

اینجلینا جولی نام کی مکڑی؟

’یہ جو آپ کو قالین پر بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں اور انھیں دیکھ کر آپ کی چیخیں نکلنے لگتی ہیں، ان میں سے اکثر نر ہوتے ہیں اور کسی مادہ ساتھی کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں۔ ان پر کوئی اور ہی دھن سوار ہوتی ہے۔

اصل میں ہوا یہ ہو گا کہ موسم بہار میں اس کی پیدائش آپ کے گھر کے کسی کونے میں ہوئی ہوگی، اس کے بعد یہ کسی دوسرے تاریک کونے میں بیٹھا رہا ہوگا، لیکن اب اسے سردیاں آنے سے پہلے اپنی جنسی تسکین کا کچھ سامان کرنا ہے۔

یہ مکڑے اپنی مادہ کے برعکس زیادہ دیر ٹِک کر نہیں بیٹھتے اور یہی وجہ ہے کہ یہ آوارہ گرد خزاں کے موسم میں بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

مکڑیاں

جنسی ہیجان سے بے قابو ہو کر اکثر یہ آپ کو کچن کے سِنک میں گرے ہوئے نظر آئیں گے

برطانیہ میں گھروں میں پائی جانے والی مکڑیاں اصل میں بحیرۂ روم کے ساحلی ممالک یا شمالی افریقہ سے آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں باہر گیلی جگہ کی بجائے ہمارے خشک اور گرم گھروں میں رہنا زیادہ پسند ہے۔

جو مکڑیاں ہمیں باہر گھاس یا گیلی اور ٹھنڈی جگہوں پر دکھائی دیتی ہیں، انھیں گھروں کے اندر آنے کا کوئی شوق نہیں ہوتا۔

رچرڈ کے بقول ’ان دنوں میں آپ کو بڑے بڑے ’گارڈن سپائیڈر‘ بھی دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ مخلوق باہر ہی رہتی ہے اور ہمارے گھروں پر حملہ آور نہیں ہوتی‘۔

اگرچہ رچرڈ تسلیم کرتے ہیں کہ اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ آپ کو لمبی لمبی ٹانگوں والا جو مکڑا اپنے گھر کے اندر دکھائی دے رہا ہے وہ کھڑکی کے راستے آیا ہو، لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ آپ کے پڑوسی نے اسے اپنے ہاں سے نکال باہر کر دیا ہو۔

مکڑیوں کی عجیب و غریب کہانیاں

مکڑیوں سے متعلق مشہور کہانیوں کے برعکس، رات کو مکڑی رینگتے رینگتے ہمارے منہ کے اندر نہیں جاتی، مکڑیاں انسانوں کے جسم کے اندر نہ تو انڈے دیتی ہیں اور اگر یہ آپ کو کاٹنا چاہیں بھی تو ان میں سے اکثر ایسا کر نہیں سکتیں۔

رچرڈ کہتے ہیں کہ ’ اکثر مکڑیاں اپنا جبڑا اتنا زیادہ نہیں کھول سکتیں کہ وہ آپ کو کاٹ سکیں۔‘

’یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی انسان باسکٹ بال کو چبا لے۔ اور اگر کوئی مکڑی جبڑے کو اتنا زیادہ کھول بھی لے تو اس کے دانت اتنے طاقور نہیں ہوتے کہ انسانی جلد میں پیوست ہو جائیں۔‘

صاف ظاہر ہے کہ کچھ مکڑیوں پر اس بات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مغربی ممالک میں آپ نے شاید ’سیاہ بیوہ مکڑی، یا ’جعلی بیوہ مکڑی‘ کے نام سنے ہوں۔ یہ مکڑیوں کی وہ اقسام ہیں جو آپ کو کاٹ سکتی ہیں۔

لیکن یہ مکڑیاں بھی اس وقت تک حملہ آور نہیں ہوتیں جب تک آپ انھیں زچ نہ کر دیں۔

’یہ مکڑیاں آپ کی انگلی پر کاٹ سکتی ہیں، لیکن صرف اسی وقت جب آپ انھیں اپنے انگوٹھے اور انگلی کے درمیان دبا کر پکڑیں تو۔‘

مکڑا

پلیٹ الٹ کر چاہے آپ اسے گلاس میں ڈال کر باہر پھینک دیں، لیکن موقع ملتے ہی یہ واپس گھر میں آ جائے گا

رچرڈ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کے سامنے کوئی مکڑی دوڑتی ہوئی جا رہی ہے، اور آپ اسے اپنی ہتھیلی پر چڑھا لیتے ہیں، تو مکڑی کو ڈر نہیں لگتا۔ انھیں یہ نہیں لگتا کہ ان پر حملہ ہو چکا ہے، اسی لیے وہ آپ کو نہیں کاٹتیں۔‘

مکڑیوں کے کاٹنے کے واقعات بہت کم ہی ہوتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم صوفے کے نیچے جتنا چاہیں جھاڑو پھیر لیں یا ویکیوم کلینر سے صفائی کر لیں، ہمارے گھروں میں بہت سے ایسے مکڑے موجود رہیں گے جو کونوں کھدروں سے باہر نکل کر آپ کے فرنیچر کے نیچے، صاف پلیٹوں کے پیچھے، جہاں جگہ ملے گی اپنی جنسی تسکین حاصل کرنے سے پہلے سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔

’میرا خیال ہے صاف ترین گھروں میں بھی 20 سے 40 مکڑیاں ضرور ہوں گی۔‘

شاید ہم میں سے اکثر لوگ بیس چالیس کو برداشت کر لیں، لیکن اگر آپ کسی پرانے مکان میں رہ رہے ہیں، تو وہاں اس قسم کے آٹھ ٹانگوں والے ہزاروں مہمان مزے کی زندگی گزار رہے ہوں گے۔

رچرڈ کہتے ہیں کہ ’میں وکٹورین دور کے ایک پرانے گھر میں رہتا ہوں، جس میں بے شمار سوراخ ہیں اور دراڑیں پڑی ہوئی ہیں، تو مجھے یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہو گی کہ میرے گھر میں ہزاروں مکڑیاں موجود ہوں گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp