پاکستانی مسائل اور ان کا موسمیاتی حل


پاکستان کے بہت سے مسائل بھی موسمیاتی ہیں اور ان کے حل بھی۔ یعنی ایک وقت مقررہ پر یہ مسائل شروع ہوں گے۔ ایک وقت مقررہ پر خود ہی ختم بھی ہو جائیں گے۔ اسی لیے حکومت ان مسائل کو زیادہ سنجیدگی سے لیتی ہے نا ان کے حل یا تدارک پر زیادہ غور کیا جاتا ہے۔ عملی اقدامات کا مطالبہ کیا جائے تو جواب ملتا ہے :

”بس فلاں مہینہ گزرنے دو، فلاں موسم آنے دو سب کچھ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ “

دسمبر اور جنوری میں پہاڑوں پر پڑی برف جون جولائی میں پگھلتی ہے۔ یہ وہ مہینے ہیں جب مون سون کی بارشیں بھی غدر مچانے لگتی ہیں۔ ایسے میں بھارت بھی دریاؤں میں اضافی پانی چھوڑ دے تو سیلابی ریلے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کر دیتے ہیں۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی الگ ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے، تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے۔ عوام بھی اب اتنے سیانے ہو چکے ہیں کہ سیلاب سے تباہی پرکبھی واویلا نہیں مچاتے۔

خود ہی منجی بستر اٹھا، بچے کاندھے پر بٹھا کر گردن گردن سیلابی پانی پار کر کے محفوظ مقامات پر پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو حکومت کا اس میں کچھ زیادہ قصور ہے بھی نہیں۔ بارشیں زیادہ آنے سے سیلاب تباہی مچائے تو یہ قدرتی آفت ہے، انسان بیچارہ بے بس ہے کیا کر سکتا ہے۔ بھارت دریاؤں میں پانی زیادہ چھوڑ دے، تو یہ بھی عیار دشمن کی سازش ہے، حکومت کا اس میں بھی قصور نہیں۔ سخت گرمی کا موسم جائے گا، ساون کے بعد بھادوں آئے گا تو یہ مسئلہ بھی خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

سیلاب کا عذاب رخصت ہوتا ہے تو ڈینگی پورے پاکستان کو سر پر اٹھا لیتا ہے۔ اس میں بھی حکومت کا کوئی قصور ہے نا کسی ادارے کی نا اہلی۔ سیلاب کی طرح ڈینگی بھی تو قدرتی آفت ہی ہوئی نا۔ اس لیے پہلے سے کوئی تدارک سوچنا قانون فطرت میں دخل دینے کے مترادف ہے۔ پھر یہ پاکستان ایک آزاد جمہوری ملک ہے۔ جہاں انسانوں کی طرح مچھر کے بھی حقوق کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انہیں پھلنے پھولنے اور انسانوں کو کاٹنے کی پوری آزادی ہے۔

انسانوں کو بھی یہی سہولت دستیاب ہے، فائدہ اٹھانا نہ اٹھانا ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ پاکستانی چونکہ ازلی طور پر سہل پسند اور نرم دل واقع ہوئے ہیں، اس لیے مچھر کی آبادی پر تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، البتہ مچھر اور حکومت کی مشترکہ کاوشوں سے محکمہ بہبود آبادی کا بوجھ ضرور ہلکا ہو جاتا ہے۔ تعداد سیکڑوں میں ہی سہی لیکن کم تو ہوتی ہے۔ وہ تو کلموہی سردی آ کر سارا کام بگاڑ دیتی ہے اور مچھروں کو خود ہی دم دبا کر رخصت ہونا پڑتا ہے، ورنہ بہبود آبادی والے بغیر کسی اشتہاری مہم کے ہی مطلوبہ نتائج حاصل کر لیں۔

حکومت نے عوام کو تسلی دی ہے کہ جلد ہی پاکستانی ڈینگی سے بھی جان چھڑا لے گا (آئندہ سال تک) ۔ سردیاں سر پر آ گئی ہیں اور ڈینگی پھیلانے والے مچھر کے پاس اب اور کوئی چارہ نہیں کہ یا تو ڈینگی پھیلانا بند کرے، یا بوریا بستر اٹھا کر کونے کھدروں میں جا دبکے۔ ایسے میں عوام کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ سال کسی طرح برداشت کر لیں۔ اگلے سال تو صحت کارڈ کی بدولت علاج معالجے کی مکمل سہولت بھی دستیاب ہو گی۔ گویا اس سال کی ایک بڑی قدرتی آفت (سیلاب) سے تو اچھی طرح نمٹ لیا گیا۔ ڈینگی بھی اب دو چار دن کا مہمان ہے، یعنی دوسرا بڑا امتحان بھی کامیابی سے سر کر لیا گیا۔ اب تیسری آفت کا انتظار ہے۔

یہ آفت ہے اسموگ کی، بلکہ اسے سازش کہنا زیادہ مناسب ہے۔ یہ سازش ہے بھارتی کسانوں کی، جو مودی سرکاری کی ایما پر پہلے تو پاکستانی سرحد کے قریب دھان کی فصل اگاتے ہیں۔ پھر فصل تیار ہوتے ہی اسے کاٹ کر باقی بچے ٹھونٹھ کو آگ لگا دیتے ہیں۔ پاکستان دشمنی کا یہ حال ہے کہ ٹھونٹھ کو آگ لگانے کے بعد سارے کسان مل کر پھونکیں مارتے ہیں تا کہ دھواں پاکستان کی طرف ہی جائے۔ یوں پاکستان پر اسموگ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ عوام کا کھانس کھانس کر اور حکومت کا بھارت پر الزام لگا لگا کر برا حال ہو جاتا ہے۔ لیکن جب سیلاب اور ڈینگی سے نمٹ لیا تو اسموگ کیا بیچتی ہے۔ بس دو مہینے کی مار ہے۔ جیسے ہی سردی بڑھے گی اور فضا میں خشکی کی بجائے نمی کا تناسب بڑھے گا، اسموگ بھی اپنا سا منہ لے کے رہ جائے گی۔

اس لیے اے دوستو! پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اسموگ سے گھبرانا نہیں ہے کیوں کہ سردی کی صورت میں اس کے خاتمے کا تیر بہدف نسخہ موجود ہے۔ صرف دو مہینے تک منہ اور ناک پر ماسک لگا لیں۔ آنکھیں ٹھنڈے پانی سے دھوتے رہیں اور مکار دشمن کی اس سازش کا سینہ ٹھونک کر (کھانس کر بھی) مقابلہ کریں۔

اب شدید سردی میں برف پڑے گی تو پہاڑوں پر زندگی گزارنا عذاب تو ہو جائے گا، لیکن پہاڑوں پر لوگ ہی کتنے بستے ہیں۔ ویسے بھی جو پہاڑوں پر رہتے ہیں ان سے کس نے درخواست کی کہ اتنی اونچائی پر جا کر آشیانہ بناؤ۔ اب بھگتو۔ ”پہاڑوں پر رہنے والے“ ویسے بھی بڑے صاحبان کو زیادہ پسند نہیں اور وہ انہیں نیچے لانے کے یا اوپر بھیجنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).