پی ٹی آئی کی حواس باختگی


جے یوآئی کے متوقع دھرنے کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی ہے، توں توں حکمران جماعت کے وزرا اور کارکنوں کی قوت برداشت بھی جواب دے رہی ہے۔ اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے پی ٹی آئی اس مارچ کو خوش آمدید کہتی بلکہ اپنے قائد عمران خان کے مبینہ وعدے کا لاج رکھتے ہوئے، اسے ایک آدھ کنٹیر بھی فراہم کرتی، کیونکہ جس اسلام آباد میں تین سال پہلے یہ جماعت چند انتخابی حلقوں کے اوپر ایک سو چھبیس دن دھرنا دینا، اپنا حق سمجھتی تھی، اگر جے یو آئی یا کوئی دوسری جماعت دو ہزار اٹھارہ کے پورے انتخابی عمل کو متنازع قرار دے کر اُسی اسلام آباد میں دھرنے کا اہتمام کرتی ہے، تو اسے بغاوت سمجھنا یا اس کو دھمکانا کون سا انصاف ہے؟

چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ اپنی حکومت گرانے والوں کو ویلکم کہنا یا انہیں کنٹیر فراہم کرنا پی ٹی آئی والوں کے لئے ایک بڑا رسک ہے لیکن کیا بیس دن کی مسافت پر کھڑے مارچ کے خلاف آسمان سر پر اٹھانا ایک غیر اخلاقی اور غیر جمہوری عمل نہیں ہے؟

جے یو آئی کے متوقع آزادی مارچ کے خلاف پہلے صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ محمود خان میدان میں اترے اور دھمکی دے ڈالی کہ ”مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں نکلنے والے مارچ کو صوبہ خیبر پختون خوا سے گزرنے نہیں دیں گے“۔

پھر وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا ٹی وی پر نمودار ہوئے اور کہا کہ مولانا کو ایسا بٹھائیں گے کہ دوبارہ کبھی کھڑے نہیں ہوں گے، بلکہ یہ جملہ بھی کسا کہ ’’وزن کم کرنے کے لئے ان کے لئے اٹک جیل میں ایکسرسائز مشینیں بھی رکھ رہے ہیں‘‘۔

ان دھمکیوں کے بعد دو دن پہلے جے یو آئی کے لیٹر پیڈ پر سوشل میڈیا کے ذریعے ایک جعلی ہدایت نامہ وائرل کردیا گیا، جس پر ریفرنس نمبر اور نا ہی کوئی دستخط موجود تھے۔ ہدایت نامے میں جے یو آئی کے ورکروں سے دھرنے کے لئے چندے اور ضروری سامان لانے کی اپیل کی گئی تھی۔ جب کہ شق نمبرچھے میں، امیر کی اجازت سے ”ہم جنس پرستی“ کے نا جائز عمل کوجائز قرار دینے کا بھیانک الزام لگایا گیا تھا۔

اسی جعلی ہدایت نامے کو بعد میں پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اپنے ذاتی ٹویٹر اکاونٹ پر بھی پوسٹ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ فواد چودھری جیسے ذمہ دار لوگوں کو اس ہدایت نامے کے جعلی ہونے کا پورا یقین بھی تھا، لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے آگے پھیلایا۔ حدیث نبوی ۖ  یاد آئی کہ ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے بس یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے پھیلائے“۔ جے یو آئی مارچ کو کاونٹر کرنے کے لئے کل پی ٹی آئی حکومت کے ایک اور وفاقی وزیرعلی امین گنڈا پور نے بھی ایک پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے حریف جماعت اور اس کی قیادت کی خوب کلاس لی۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ مولانا فضل الرحمن موجودہ حکومت کا دھڑن تختہ کرنے میں حق بجانب ہیں یا یہ ایک غیر جمہوری اور غیر ضروری عمل ہے؟ یہاں بات کرنے کا مدعا یہ بھی نہیں کہ جے یو آئی کے اس مارچ کے نتائج آخر کیا نکلیں گے؟ سوال یہ پوچھنا مقصود ہے کہ کیا صرف اخلاقی حدود سے باہر رہ کر ایک سیاسی اور حکمران جماعت اپنی حریف جماعت کو اچھی طرح کاونٹر کر سکتی ہے یا اس میدان میں حسن خلق کا ہتھیار بہتر کار گر ثابت ہو سکتا ہے؟

سوال یہ بھی ہے، کہ ریاست کو مدنی ریاست کے خطوط پر استوار کرنے والی پی ٹی آئی کی قیادت آخر ایسے جعلی ہدایت ناموں، من گھڑت الزامات اور مغلظات سے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ ایسے ہی بے جا الزامات کے بارے میں مجھے پی ٹی آئی والوں اور ان کے ترجمانوں کا وہ اضطراب اچھی طرح یاد ہے، جب پچھلے سال یہ خبر چلی کہ بشری صاحبہ کی ایک بیٹی کو حکومت نے وزیر اعظم کی خصوصی معاون برائے خواتین مقرر کر دیا ہے۔ مجھے اس جماعت کی ان دنوں کی وہ پریشانی بھی یاد ہے، جس وقت وزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست ذوالفقار بخاری کی بہن ملیکا بخاری کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا چیئر پرسن بنانے کی خبر گردش میں تھی۔

اس وقت کے وزارت اطلاعات فواد چودھری ہی تھے، جنہوں نے ایسی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو بے نقاب کرنے کے لئے فیک نیوز بسٹر کے نام سے ایک آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ لانچ کیا تھا۔ اس اکاونٹ کی پہلی ٹویٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’’سوشل میڈیا کا مقصد معلومات، تعلیم اور علم کو بانٹنا ہے، اسے سچائی پر مبنی ہونا چاہیے اور اسے در پردہ مقاصد کے حصول کے لئے جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو پھیلانے کا باعث نہیں ہونا چاہیے، ورنہ اس پر اعتبار ختم ہو جائے گا‘‘۔ اسی وقت جب چودھری صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف من گھڑت اورجعلی خبریں پوسٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’سائبر لا کے تحت یہ ایک جرم ہے اور مجرموں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے“۔

ہاں تو بیس دن کی مسافت پر جے یو آئی کے آزادی مارچ کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم پی ٹی آئی قیادت اور وزرا کی بے جا حواس باختگی اور آہ و فغاں اس جماعت کی بوکھلاہٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دوسری طرف اپنے سیاسی حریف عمران خان کے عقیدے کو نشانہ بنانا یا ان کے اوپر یہودی ایجنٹ کا لیبل چسپاں کرنا بھی جے یو آئی کی سیاست کا ایک تاریک پہلو ہے، جو نہ صرف گناہ کے زمرے میں آتا ہے بلکہ یہ سنجیدہ اور با وقار سیاست کے منافی عمل بھی ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).