مولانا اور بے نظیر


ہماری سیاست کے دو جڑواں بچے تھے، چند برس ہوتے ہیں، ان میں سے ایک سیا سی کشمکش کی نذر ہو کر ہمیشہ کی نیند سو گیا اور اب ایک اپنی زندگی کی شاید سب سے مشکل اور پیچیدہ آزمائش سے نبرد آزما ہے۔ جان سے گزر جانے والی بے نظیر بھٹو تھیں جب کہ پیچھے رہ جانے والے مولانا فضل الرحمان ہیں جو تخت یا تختہ کرنے پر تلے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کی ان دو شخصیات کی مزاج، افتاد، نظریات اور مقاصدکے درمیان بعد المشرقین ہے، اس لیے ان کا ایک ساتھ ذکر اور اس سے بھی بڑھ کر جڑواں بچے قرار دینا بظاہربے جوڑ سا لگتا ہے لیکن حقیقت اس کے باوجود یہی ہے۔

مولانا ایک درویش صفت مولوی کے فرزند ارجمند ہیں جبکہ بے نظیر بھٹو انداز جہاں بانی اپنے خون میں لے کر پیدا ہونے والے سندھ کے ایک وڈیرے کے جگر کا ٹکڑا تھیں۔ یہ طبقاتی اور نظریاتی اختلاف واضح کرتا ہے کہ ان دونوں شخصیات کی دنیائیں الگ الگ اور قسمت جدا جدا ہونی چاہیے لیکن اگر ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور مزاج کا مطالعہ سنجیدگی سے کیا جائے تو دونوں میں حیرت انگیز مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ یہ مماثلت قدرت کے پیدا کردہ اتفاقات سے شروع ہوتی ہے اور سیاست کی بوالعجبیوں تک جا پہنچتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان ہوں یا بے نظیر بھٹو، اختیارات کے بہت سارے مظاہر پر کچھ کم یا کچھ زیادہ اختیار رکھنے کے باوجود یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہماری سیاست کے ان دونوں جڑواں بچوں کی پیدائش گزشتہ صدی کی نہ صرف یہ کہ ایک ہی دہائی بلکہ ایک ہی سال یعنی 1953 میں ہوئی۔ یہ اتفاق صرف یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا کیونکہ یہ دونوں پیدا بھی ایک ہی مہینے یعنی جون میں ہوتے ہیں۔ دوسرا اتفاق نہایت دل دکھانے والا لیکن ایک اعتبار سے دلچسپ بھی ہے کہ ان دونوں کے میدان سیاست میں متحرک ہونے کی وجوہات بھی کم و بیش ایک جیسی تھیں یعنی بے نظیر بھٹو کو اپنے بلند ہمت والد کی الم ناک موت کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے ان کی جگہ لینی پڑی۔

مولانا فضل الرحمان کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا۔ ان کے جلیل القدر والد جب اپنی سیاسی سرگرمیوں کے دوران ہی ایک روز اللہ کو پیارے ہوگئے تو جانشین کی حیثیت سے انھیں ان کی سیاسی وراثت سنبھالنی پڑی۔ گویا سیاست کی دنیا میں ان دونوں کی جلوہ آرائی حادثے یا اتفاق کی مرہون منت تھی لیکن اس حادثے سے بھی کیسے اتفاق نے جنم لیا کہ آنے والے ماہ و سال کے دوران میں ان دونوں کی زندگی میں ایک ہی طرح کے واقعات رونما ہوئے۔

بے نظیر بھٹو کے بارے میں خود ان کی جماعت سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ چونکہ ناتجربہ کار ہیں، اس لیے انھیں تادیر سہاروں کی ضرورت ہوگی لیکن دیکھا یہ گیا کہ پارٹی کی ذمہ داری سنبھالتے ہی انھوں نے اپنے تمام تر سرپرستوں اور انکلوں سے نجات حاصل کر کے اپنے نام کا سکہ جاری کیا۔ مولانا فضل الرحمان کی تاریخ بھی ہمیں کچھ ایسا ہی بتاتی ہے۔ ان دونوں جڑواں بچوں کے دشمنوں کی خواہشات اورتوقعات یہی تھیں کہ جماعتی دھڑے بندیاں اور اختلافات ان کی سیاست کو لے ڈوبیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ میدان عمل میں یہ دونوں نو آموز اپنے انداز سیاست کی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہے۔

دوسرا خدشہ یہ تھا کہ چونکہ دونوں نوجوان ہیں اور اپنے اپنے نظریات و خیالات میں پختہ بھی ہیں، اس لیے یہ سیاست میں شدت اور تلخی کے فروغ کا باعث بنیں گے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ اپنے والد کی الم ناک موت کے دکھ کی وجہ سے بے نظیر کے رگ و پے میں بھری نفرت کی چنگاریاں سب کچھ بھسم کردیں گی۔ اسی طرح کے خدشات مولانا فضل الرحمن سے بھی لاحق تھے کہ مولانا علمائے دیوبند کی کی مزاحمتی روایت کے امین کی حیثیت سے وہ بھی اگرحکمرانوں سے دو دو ہاتھ کرنے پر مصر ہوگئے تو نہ جانے کیا ہوجائے؟

لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ بے نظیر اور مولانا دونوں اپنے ماضی کی تمام تر تلخیوں اور دکھوں کے باوجود مفاہمت اور ہم آہنگی کے سفیر بن کر ابھرے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان دونوں نے ملک کی پیچیدہ تاریخ، مسائل اور پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاست کے ایک ایسے اسلوب کی بنیاد رکھی جسے صرف اور صرف عملیت پسندی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ مولانا اور بے نظیر کی عملیت پسند سیاست ہی کا فیضان ہے کہ تاریخ کے ایک بھرے پرے دور پر ان کی چھاپ نہایت گہری اور ہمیشہ یاد رکھی جانے والی ہے۔

بے نظیر بھٹو کا دوبار وزیر اعظم بننا اور اپنی موت کے بعد بھی اپنی جماعت کو ایوان اقتدار میں پہنچا دینا ان کی سیاست کے اسی کامیاب پہلو کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ جو مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دور کوئی بھی ہو اور حکومت کسی کی بھی ہو، ایوان اقتدارکی رونقیں ان ہی کے دم قدم سے ہیں۔ اس پس منظر میں ان کے مخالفین جو چاہیں سوچیں اور جو کہنا چاہیں کہیں لیکن سیاست کا مقصد اگر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر اپنے نظریات کے مطابق عوام کے دکھ درد کی بات کرنا ہے تو کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس میں ناکام رہے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بے نظیر ہوں یا مولانا، دونوں کی عملیت پسندی نے ہمیشہ انھیں بار آور کیا اور ناکامی سے محفوظ رکھا۔ جنرل مشرف کے ساتھ پیپلز پارٹی کا این آر او ہو یا اسی عہد میں سابق صوبہ سرحد میں مولانا کی حکومت، دونوں کی نوعیت کئی اعتبار سے ایک سی ہی تھی۔

یوں سیاست عملیت پسندی ہی کا دوسرا نام ہے لیکن یہی حکمت عملی کبھی کبھی سیاست دان کے لیے گالی بھی بن جاتی ہے جیسے ان دنوں مولانا فضل الرحمان کے لیے بنی ہوئی ہے، یعنی جس کے منہ میں آتا ہے، انھیں اقتدار کا حریص قرار دینے سے نہیں چوکتا۔ کہنے والے کچھ ایسی باتیں بے نظیر کے لیے بھی نہایت آسانی کے ساتھ کہہ لیتے ہیں لیکن بے نظیر ہوں یا مولانا، ان دونوں کو اتنی آسانی کے ساتھ اقتدار کا حریص قرار دے کر تاریخ کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ان کی سیاست کے ساتھ انصاف کیا جاسکتا ہے۔

کسی عہد کو سمجھنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ زبان خلق کو سمجھنے کی اہلیت اپنے اندر پیدا کی جائے۔ بے نظیر پاکستان واپسی کے بعد اپنی موت سے قبل سیاست میں متحرک ہوئیں تو دیکھنے اور سننے والوں نے کہا کہ اس بار ان کی ملاقات ایک مختلف بے نظیر سے ہورہی ہے، میری اہلیہ نے انھیں ملنگنی کہنا شروع کردیا تھا۔ آوازخلق بھی یہی تھی کہ اب سود وزیاں کے بارے میں اس خاتون کا انداز فکر پہلے جیسا نہیں۔ بے نظیر دنیا سے کوچ کرگئیں اور ان کا جوڑی دار تنہا رہ گیا۔

زندگی کی حفاظت کرنے والی تو اللہ کی ذات ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیاست میں تنہا رہ جانے والا بچہ موجودہ صورت حال میں خود کواس سے مختلف صورت حال میں نہیں پاتا، 2007 ء میں جس سے بے نظیر دوچار تھیں۔ کیا اس معرکے میں مولانا فضل الرحمن سرخرو نکلیں گے یا کھیت رہیں گے؟ کس کی مجال ہے کہ وہ قدرت کے مخفی فیصلوں کا سراغ پاسکے، البتہ ایسے معاملات کے بارے میں وسطی ایشیا کے جادو بیان ادیب رسول حمزہ توف نے ایک بات کہہ رکھی ہے کہ بہادر وہ نہیں جو تلوار سونت کر گھوڑے پر بیٹھے اور میدان جنگ کی طرف روانہ ہوجائے، اس کے بعد سوچے کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا مولانا فضل الرحمان یہ راز نہیں جانتے ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).