امریکہ شام میں ترکی کی عسکری کارروائی پر رضامند نہیں تھا: مائیک پومپیو


ترک فوج

ترک فوج اور اس کے شامی اتحادی دریائے فرات کے مشرق کی جانب شامی علاقے میں داخل ہو چکے ہیں

امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکہ نے شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترک فوجی کارروائی پر رضامندی ظاہر نہیں کی تھی۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ ترک فوج نے شام میں اپنی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ترکی اِس علاقے میں ایک محفوظ زون بنانا چاہتا ہے جہاں کرد ملیشیا کا وجود نہ ہو اور جہاں ترکی آنے والے تقریباً 36 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو رکھا جائے۔

مزید پڑھیے

ترکی بمقابلہ شامی کرد: ماضی، حال اور مستقبل

ترکی کی شام میں زمینی کارروائی کا آغاز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ترکی کی جانب سے کرد پیشمرگہ فورسز پر شام میں کیے جانے والے حملوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک ’غلط اقدام‘ قرار دیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ترکی کو سنگین معاشی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ کارروائی صدر ٹرمپ کی جانب سے اس خطے سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی ہے اور اس اقدام کو دراصل حملے کی اجازت کے حربے کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔

انقرہ کا کہنا ہے کہ اس نے سرحدی علاقے میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے تاہم کردوں کا کہنا ہے کہ حملے میں شہری علاقوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔ ادھر ترک وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ توپخانے اور فضائی کارروائی کے بعد اب زمینی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

شمالی شام میں دھوئیں کے بادل دیکھے جا سکتے ہیں

شمالی شام میں دھوئیں کے بادل دیکھے جا سکتے ہیں

ترکی کے اس اقدام کی عالمی برادری کی جانب سے مذمت کی جا رہی ہے اور یورپی یونین نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ حملہ بند کرے۔

کرد پیشمرگاہ نے ترک فوج کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور کارروائی کے آغاز کے بعد سے ان کی ترک فوج سے جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

شام میں دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے میں کرد پیشمرگہ افواج امریکہ کی اہم اتحادی رہی ہیں۔

وہ ان جیلوں کی بھی حفاظت کرتی ہیں جہاں دولت اسلامیہ کے ہزاروں جنگجوؤں اور اُن کے رشتے داروں کو رکھا گیا ہے۔ اب یہ بھی واضح نہیں کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو اِن جیلوں کی حفاظت کیسے ہو گی۔

تاہم امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایسی ہی ایک جیل میں قید دولتِ اسلامیہ سے منسلک شفیع الشیخ اور الیگزنڈا کوٹے نامی دو برطانوی قیدیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے جو بیٹلز نامی گروپ کا حصہ تھے۔ یہ گروپ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے 30 کے قریب مغویوں پر تشدد یا ان کی ہلاکت میں ملوث رہا ہے۔

https://twitter.com/NewsHour/status/1182058849118904321

مائیک پومپیو نے کیا کہا؟

امریکی ٹی وی چینل پی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی وزیرِ خارجہ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی فوجی نکالنے کے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ ترکی کے حفاظتی خدشات حقیقی ہیں۔

’ترکی نے کردوں کو نشانہ بنایا تو معاشی طور پر تباہ کردیں گے‘

ترکی کی شامی مہاجرین کے یورپ داخلے پر تنبیہ

شامی مہاجرین پر ترکی میں عرصہ حیات تنگ

تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ اطلاعات کہ امریکہ نے ترکی کو عسکری کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی، صریحاً غلط ہیں۔

’ہم نے ترکی کو کوئی گرین لائٹ (اجازت) نہیں دی۔‘

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

ترکی کی جانب سے کارروائی کے آغاز کے بعد بدھ کو ترک طیاروں کی جانب سے شام کے کئی دیہات اور قصبوں پر بمباری اور گولہ باری کی گئی جس کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

کرد افواج کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے ہیں۔

ترک وزارتِ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ ترک فوج اور اس کے شامی اتحادی دریائے فرات کے مشرق کی جانب شامی علاقے میں داخل ہو چکے ہیں۔

ترکوں کے حامی ایک گروہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا حملے کا آغاز تل عبید نامی علاقے سے ہوا جو کرد پیشمرگاہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

ترکی

ترک فوج کی جانب سے بھی ٹوئٹر پر کہا گیا ہے کہ عسکری کارروائی کے دوران ’دہشت گردوں‘ کے 181 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اطلاعات کے مطابق ترک گولہ باری سے کوبانے اور قمشلی کے دیہات متاثر ہوئے ہیں۔

آپریشن کے آغاز سے قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ترک صدر نے کہا تھا کہ اس مشن کا مقصد ’جنوبی سرحد پر دہشت گردوں کی راہداریوں کو بننے سے روکنا اور علاقے میں امن لانا ہے۔

انھوں نے شام کی علاقائی جغرافیائی سالمیت کو محفوظ کرنے اور اس کے مکینوں کو دہشت گردوں سے آزاد کروانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

ادھر شامی کردوں کے رہنماؤں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ’ترکی سے متصل سرحد کا رخ کریں اور مزاحمت کے تاریخی لمحے کا حصہ بنیں۔‘

خیال کیا جا رہا ہے کہ شام میں تین برس میں ترکی کے تیسرے فوجی آپریشن میں ابتدائی طور پر تل عبید اور راس العین کے درمیانی 100 کلومیٹر علاقے پر توجہ مرکوز رہے گی جہاں زیادہ آبادی موجود نہیں۔

ترکی نے پہلی مرتبہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف سنہ 2016 میں اور دوسری مرتبہ کرد پیشمرگاہ کے خلاف سنہ 2018 میں کارروائی کی تھی تاکہ شامی باغی شمالی شام میں علاقے پر قبضہ کر سکیں۔

ترکی، شام

شام کے کئی دیہات اور قصبوں پر بمباری اور گولہ باری کی گئی جس کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں

عالمی ردعمل کیا ہے؟

یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ’ایک نام نہاد محفوظ علاقہ‘ پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے عالمی معیار پر پورا اترے۔ بیلجیئم، فرانس، جرمنی، پولینڈ اور برطانیہ نے اس سلسلے میں سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست بھی دی ہے۔

سلامتی کونسل کے 15 ارکان کا اجلاس جمعرات کو منعقد ہو گا جبکہ عرب لیگ نے بھی 12 اکتوبر کو قاہرہ میں اس معاملے پر ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل ہانس سٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ ترکی کے حفاظتی خدشات حقیقی ہیں لیکن وہ پرامید ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے گا اور یقینی بنائے گا کہ کوئی بھی اقدام متناسب اور نپا تلا ہو۔

ترکی وائی پی جی کو دہشت گرد کیوں سمجھتا ہے

ترکی وائی پی جی کو کردستان ورکرز پارٹی کی ایک شاخ سمجھتا ہے جس نے پچھلی تین دہائیوں سے ترکی میں کردش خود مختاری کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔

تاہم وائی پی جی نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔

ماضی میں ترکی نے امریکا کو وائی پی جی کی حمایت کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

نقشہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp