شام میں ترکی کی عسکری کارروائی دولتِ اسلامیہ کی واپسی کی وجہ بن سکتی ہے؟


اہلحول کیمپ شمالی وزیرستان

اہلحول کیمپ میں ستر ہزار داعش کے جنگجوؤ اور ان کے اہلخانہ قید ہیں۔

شام کے شمال مشرقی علاقے سے امریکی فوج کی واپسی اور شام کے سرحدی علاقوں میں ترک فوج کی کارروائیوں نے سرحد سے متصل علاقوں میں آباد کردوں اور ان کے زیر انتظام قید خانوں اور کیمپوں میں زیرِ حراست شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ہزاروں جنگجوؤں کے مستقبل کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔

شام میں سرحدی علاقے سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ترک افواج نے بدھ سے وہاں موجود کرد پیشمرگاہ کے خلاف وہ عسکری کارروائی شروع کر دی ہے جس کا انقرہ ایک طویل عرصے سے انتظار کر رہا تھا۔

اس علاقے میں ترکی کی فوجی مداخلت کا مقصد شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقے سے کردوں کی بالادستی کو ختم کرنا ہے۔

شام میں دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے میں کرد پیشمرگہ افواج امریکہ کی اہم اتحادی رہی ہیں۔ وہ ان جیلوں کی بھی حفاظت کرتی رہی ہیں جہاں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ہزاروں جنگجوؤں اور اُن کے رشتہ داروں کو رکھا گیا ہے۔

اب یہ بھی واضح نہیں کہ اگر باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تو اِن جیلوں کی حفاظت کیسے ہو گی اور دولت اسلامیہ کے ہزاروں قیدیوں کا کیا بنے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ ترک فوج کی شامی سرزمین پر پیش قدمی کے بعد ان قیدیوں کی ذمہ داری اٹھانا بھی ترکی کی ہی ذمہ داری ہو گی۔

تاہم امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ترک کارروائی کے بعد اس نے ایسی ہی ایک جیل میں قید دولتِ اسلامیہ سے منسلک شفیع الشیخ اور الیگزنڈا کوٹے نامی دو برطانوی قیدیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے جو بیٹلز نامی گروپ کا حصہ تھے۔

یہ گروپ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے 30 کے قریب مغویوں پر تشدد یا ان کی ہلاکت میں ملوث رہا ہے۔

پیٹھ میں چھرا

دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کو اس علاقے میں شکست سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے دی جو مختلف ملیشیاؤں پر مشتمل تھی جن میں اکثریت کرد جنگجوؤں کی تھی۔

ترک صدر رجب طیب اردوگان

ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے اس علاقے میں ’سیف زون‘ بنانے کا اعلان کیا تھا۔

دولت اسلامیہ کے خلاف ایس ڈی ایف امریکی فوج کی قریبی اتحادی تنظیم تھی اور اسے امریکہ سے ہتھیاروں کے علاوہ، فوجی تربیت اور عسکری رہنمائی بھی حاصل تھی۔ یہی نہیں بلکہ دولت اسلامیہ کے خلاف معرکوں میں انھیں امریکہ اور اس کے دیگر مغربی اتحادیوں کی طرف سے فضائی مدد بھی فراہم کی جاتی تھی۔

شامی کرد جنھیں دولت اسلامیہ کو اس علاقے سے بے دخل کرنے کے عوض یہاں خودمختاری حاصل ہونے کی امید ہو چلی تھی، انھیں ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد اپنی بقا کے بارے میں خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ یہ خطرہ ترک افواج کے حملے سے پیدا ہوا ہے۔

شامی کرد ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

ترکی شامی کرد فورسز کو ایک خطرہ تصور کرتا ہے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔

ترکی کا کہنا ہے کہ ایس ڈی ایف کے ترکی میں سرگرم کرد تنظیم ’پی کے کے‘ سے روابط ہیں جو کئی دہائیوں سے ترکی کے خلاف جدوجہد کرتی رہی ہے۔

ترکی کی ذمہ داری

جو چیز ابھی تک واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ ترک حکام صدر ٹرمپ کی اس بات سے کس حد تک متفق ہیں کہ شام کے شمالی علاقوں میں قید دولت اسلامیہ کے جنگجو اب ترکی کی ذمہ داری ہیں اور وہ اس ذمہ داری کو کسی طرح پورا کریں گے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ دولت اسلامیہ سے لڑنے اور ان کو زیر کرنے کے لیے شامی کردوں کی مالی اور فوجی مدد کے لیے اپنے حصے سے زیادہ کر چکا ہے۔

ایس ڈی ایف

ایس ڈی ایف جس میں کرد جنگجوؤں کی اکثریت تھی وہ داعش کے خلاف جنگ میں صف اول میں رہے

صدر ٹرمپ نے اپنے مغربی اتحادیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کے قیدیوں کے بارے میں اپنا حصہ پوری طرح ادا نہیں کیا جن میں ایک اچھی خاصی تعداد یورپ سے شام میں آ کر لڑنے والے یورپی شہریوں کی ہے۔

کرد رہنما مغربی ممالک سے اپنے شہریوں کو واپس لینے کے بارے میں کہتے رہے ہیں لیکن ان کی بات ابھی تک کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔

ترک تجزیہ کار فہیم تستکن کا کہنا ہے کہ روس، قزاقستان، ازبکستان، تاجکستان اور کوسوو دولتِ اسلامیہ جنگجوؤں کے ساتھ شام جا کر لڑنے والے اپنے شہریوں کو واپس لے رہے ہیں لیکن مغربی ملکوں کی پالیسی یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو شامی قید خانوں اور کیمپوں ہی میں رکھیں۔

ان ملکوں کے علاوہ جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے دولتِ اسلامیہ کے پکڑے جانے والے ہزاروں جنگجو ایسے بھی ہیں جن کا تعلق مختلف اسلامی ملکوں مصر، تیونس ،یمن اورعراق سے ہے۔ دولتِ اسلامیہ میں بہت سے مقامی شامی شہری بھی شامل تھے۔

کرد فورسز کا ابھی تک یہ کہنا ہے کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے لیکن اس کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ ترک فوج اس علاقے میں کتنی اندر تک پیش قدمی کرتی ہیں۔

الحول

یورپی ممالک شام جا کر داعش میں شامل ہونے والے اپنے شہریوں کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

کیمپ اور قید خانے

ترکی کا کہنا ہے کہ وہ شام کے اندر ترکی کی سرحد کے ساتھ ساتھ 20 میل چوڑی ایک محفوظ پٹی بنانا چاہتی ہے جس کو کرد جنگجوؤں سے پاک کر دیا جائے گا۔

ترکی جس علاقے میں یہ محفوظ پٹی یا سیف زون بنانا چاہتا ہے اس میں دو کیمپ قائم ہیں جہاں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے اہلخانہ زیر حراست ہیں۔ ان میں سے ایک کیمپ کا نام روج ہے جہاں 1700 خواتین اور بچے جبکہ دوسرے کا نام عین عیسی ہے جہاں 1500 خواتین اور بچے موجود ہیں۔

الحول نامی کیمپ جو عراق کی سرحد کے قریب اور ترکی سے 60 کلومیڑ جنوب میں واقع ہے، سب سے بڑا کیمپ ہے۔

الحول میں 17000 افراد زیرِ حراست ہیں جن میں نوے فیصد خواتین اور بچے ہیں اور 11000 کے قریب غیر ملکی ہیں۔

اس کے علاوہ 12000 کے قریب مشتبہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو جن میں ایک تہائی کا تعلق بیرونی ممالک سے ہے مزید جنوب میں رقہ کے قریب سات کیمپوں میں قید ہیں۔

ترکی کی پیش قدمی شام کی سرحد کے اندر اتنی دور تک متوقع نہیں ہے لیکن ترکی کی فوجی مداخلت سے ان کیمپوں کی نگرانی اور انتظام کمزور پڑ جانے کا خطرہ ہے۔

ایس ڈی ایف کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر ترک فوج نے ان کے علاقے میں پیش قدمی کی تو اس صورت میں وہ اپنے دفاع پر مجبور ہو جائیں گے اور انھیں جیل کی نگرانی پر مامور اپنے اضافی فوجیوں کو واپس بلانا پڑے گا اور دولتِ اسلامیہ سے خالی کرائے گے علاقوں پر ان کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔

الحول کیمپ

ہزاروں بچے بھی ان کیمپوں میں موجود ہیں

اس سے یہ خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ کہیں جہادی اور ان کے خاندان وہاں سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو جائیں اور واپس اپنے ملکوں میں پہنچ جائیں۔ لیکن یورپی ملکوں کی طرف سے اس بارے میں زیادہ پریشانی کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔

دولتِ اسلامیہ کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ

اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا کہ کیا ترکی کے پاس اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قید رکھے اور کیا اس کا ایسا کرنے کا ارادہ بھی ہے۔

ایسی صورت حال میں کہ ایس ڈی ایف ان قید خانوں اور کیمپوں کی نگرانی اور چلانے کے قابل نہ رہے تو کیا ترکی اس خلا کو پر کر پائے گا؟

امریکہ کے عراق اور شام کے خلاف مہم کے سابق امریکی سفیر بریٹ میکگرک ایسا نہیں سوچتے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ترکی کا نہ تو ارادہ نہ خواہش اور نہ ہی صلاحیت ہے کہ وہ دسیوں ہزار قیدیوں کو الحول کیمپ میں رکھے۔

سکیورٹی خطرات کے علاوہ قیدیوں کے انسانی حقوق کے بارے میں بھی خدشات موجود ہیں۔

بچوں کے حقوق کی عالمی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کا کہنا ہے کہ 40 سے زیادہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بچے ان کیمپوں میں موجود ہیں جن کا انحصار صرف اور صرف انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد پر ہے۔

اس تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ ان کیمپوں کو چلانا پہلے ہی کافی مشکل کام ہے اور ان کے انتظام میں کسی بھی قسم کے خلل سے ان بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

نقشہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32539 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp