بوزینا اینٹونیار: 24 سیکنڈ میں حریف کو ناک آؤٹ کرنے والی مارشل آرٹسٹ


ایم ایم اے

میانمار کی بوزینا اینٹونیار کو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اپنے قدامت پسند والدین سے دوری اختیار کرنا پڑی۔ وہ مکسڈ مارشل آرٹس کو اپنا کریئر بنانا چاہتی تھیں اور اس کے لیے انھوں نے اپنے والدین کی ایک نہ سنی۔

بوزینا کا یہ فیصلہ اس وقت درست ثابت ہوا جب انھوں نے اپنی پہلی ایم ایم اے فائٹ میں حریف کو 24 سیکنڈ میں ناک آؤٹ کر کے ریکارڈ قائم کر ڈالا۔

سولہ برس کی عمر میں بوزینا نے چوری چھپے میانمار کے ’لیتھوی‘ نامی مارشل آرٹ کی تربیت حاصل کرنا شروع کی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میرے والدین نے کبھی کسی لڑکی کے لیتھوی میں جانے کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ مجھے ان سے کہنا پڑا کہ میں فٹ بال کھیل رہی ہوں۔‘

ایم ایم اے

بوزینا نے اس سفر میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آخرکار سنگاپور میں ہونے والے ایشیا کے سب سے بڑے ’ون چیمپیئن شپ‘ مقابلے میں سب سے تیز ایم ایم اے باؤٹ کا ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔

محض چوبیس سیکینڈ کے اندر ان کی حریف کو سر پر مسلسل نو مکوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ ناک آؤٹ ہو گئیں۔

ایم ایم اے

بوزینا کو ٹوٹو نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ وہ رنگون کے ایک مقامی جم میں ٹریننگ کرتی ہیں اور ان کے کوچ کے لیے بھی تربیت کے دوران ان کے مکوں کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔

جکارتہ میں ہونے والے ون چیمپیئن شپ مقابلے میں ان کا سامنا انڈونیشیا کی سٹار مکےباز پرسکیلا ہرتاتی لومبان گول سے ہونے والا ہے جس کے لیے ان کا بہترین فارم میں ہونا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔

ایم ایم اے

بوزینا کا تعلق میانمار کی کایا ریاست سے ہے جہاں خواتین کا لیتھوی جیسے کھیلوں میں حصہ لینا تصور سے باہر سمجھا جاتا ہے۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں خواتین کا اپنی گردن کو صراحی دار شکل دینے کے لیے گردن کے گرد پیتل کے چھلے پہننا عام ہے۔

مکےبازی کے اس کھیل کو دنیا کے بے حد جارحانہ کھیلوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

اس میں حصہ لینے والے ہاتھوں پر دستانوں کی پتلی پرت پہنتے ہیں اور اس میں سر پر وار کرنے کی اجازت بھی ہوتی ہے۔

ایم ایم اے

کایا میں رہنے والے دیگر خاندانوں کی طرح بوزینا کا خاندان بھی کاشتکاری کرتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’میرے والدین گزارے لائق ہی کماتے ہیں اور اسی وجہ سے مجھ میں کامیاب ہونے کی جستجو پیدا ہوئی۔‘

میانمار کے کھلاڑی بغیر دستانے لڑی جانے والی ایم ایم اے کے مقابلوں میں بہتر سمجھے جاتے ہیں۔ بوزینا نے بتایا کہ انھیں بھی انھی کھلاڑیوں سے حوصلہ ملا۔

بوزینا کے ہیرو آنگ لا سانگ ہیں۔ ون چیمپیئن شپ کے ’مڈل ویٹ‘ اور ’لائٹ ویٹ‘ خطاب اپنے نام کرنے والے اس کھلاڑی کو ’برمی اژدھے‘ نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

انھیں لاس ویگس میں ہونے والے ورلڈ ایم ایم اے ایوارڈز میں سن 2019 کے ’انٹڑنیشنل فائٹر آف دی ایئر‘ کے لیے بھی چنا گیا ہے۔

ایم ایم اے

ابھی تو بوزینا کے کریئر کا آغاز ہی ہے۔ لیکن ماہرین کی نظر میں وہ بہترین کھلاڑیوں میں اپنا شمار کروا چکی ہیں۔ جولائی میں ویتنامی امریکی کھلاڑی بی نیوگن کے خلاف ایک مشکل مقابلے میں ججوں نے بوزینا کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔

میانمار میں ان کی چاہت بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اب جب میں میچ کھیلتی ہوں تو میرے گھر پر میچ دیکھنے والے مقامی خاندانوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔‘

سماجی دباؤ کے علاوہ بوزینا خواتین کے اس کھیل میں شرکت کرنے میں روکاوٹ بننے والی دیگر وجوہات کو بھی کم ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ مرد کھلاڑیوں کو تو بہت آسانی سے سپانسرشپ اور بڑے میچ مل جاتے ہیں لیکن خواتین کے ساتھ اب بھی ایسا نہیں ہے۔

ایم ایم اے

ان کا خیال ہے کہ خواتین کے ساتھ صنف کی بنیاد پر مختلف سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

تمام چیلینجز کے باوجود وہ اپنے سفر کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہاں میں ان دنوں کو بھی یعد کرتی ہوں جب میں دوسری لڑکیوں کی طرح سج دھج کر خوبصورت دکھنے کے جتن کرتی تھی، لیکن میں نے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ میرے لیے زیادہ ضروری ہے۔‘

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp