پاکستان میں ڈینگی: مہلک بخار سے بچیں کیسے اور ہو جائے تو کریں کیا؟


پاکستان کے مختلف شہر ایک مرتبہ پھر ڈینگی کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ مرض وبائی شکل اختیار کر چکا ہے اور کراچی سے لے کر پشاور تک متعدد شہروں میں ہزاروں افراد اس کا شکار بن چکے ہیں۔

کچھ اطلاعات کے مطابق اب تک اس مرض سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پاکستان کے قومی ادارۂ صحت میں وبائی امراض کے ماہر اور ڈینگی سیل کے سربراہ ڈاکٹر رانا محمد صفدر کے مطابق رواں برس اس سے پوٹھوہار کا خطہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

ان کے مطابق ملک میں ڈینگی سے اب تک کم از کم 20 افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

ڈینگی کا مرض کیسے پھیلتا ہے، اس کے لیے احتیاطی تدابیر کیا ہیں اور مرض لاحق ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے، اس حوالے سے بی بی سی نے طبی ماہرین کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

ڈینگی کیسے پھیلتا ہے؟

پاکستان اور پوری دنیا میں ڈینگی پھیلانے والا مچھر ایڈیِز ایجپٹی ہے۔ دھبے دار جلد والا یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد ستمبر سے لے کر دسمبر تک موجود رہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ مچھر 10 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں پرورش پاتا ہے اور اس سے کم یا زیادہ درجۂ حرارت میں مر جاتا ہے۔

ڈینگی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ نر سے ملاپ کے مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔

ایڈیِز ایجپٹی مچھر کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے جس کے لیے موافق ماحول عام گھروں کے اندر موجود ہوتا ہے۔

احتیاطی تدابیر

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ ملیریا اور ڈینگی میں فرق اس مرض کا مہلک ہونا ہی ہے جبکہ اس کے لیے ماسوائے احتیاطی تدابیر کوئی مخصوص علاج موجود نہیں ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی جگہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ مچھر دانیوں اور سپرے کا استعمال لازمی کرنا چاہیے کیونکہ ایک مرتبہ یہ مرض ہوجائے تو اس وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں دو سے تین ہفتوں تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بارش کے بعد اگر گھروں کے آس پاس یا لان، صحن وغیرہ میں پانی جمع ہو تو اسے فوراً نکال کر وہاں سپرے کرنے سے ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا تھا کہ ’صفائی کو قائم رکھ کر اگر مچھروں کی افزائش کا ماحول ہی ختم کر دیا جائے تو اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے اور ترقی یافتہ ممالک نے اسی طرح اس مرض پر قابو پایا ہے۔‘

ڈینگی کی تصدیق کیسے ہو؟

ڈاکٹر ندا ابرار کے مطابق ڈینگی بخار کی تصدیق این ایس ون یا پی سی آر نامی خون کے تجزیوں سے ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتال عموماً این ایس ون ٹیسٹ کرتے ہیں جبکہ پی سی آر ٹیسٹ مہنگا ہونے کی وجہ سے عام طور پر نہیں کیا جاتا۔

ڈینگی بخار کی علامات

ڈاکٹر ندا کے مطابق اس مرض کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ جسم خصوصاً کمر اور ٹانگوں میں درد اور شدید سر درد شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مریض کو متلی اور قے کی شکایت ہوتی ہے، جسم پر سرخ نشان پڑ جاتے ہیں اور اس کے مسوڑھوں یا ناک سے خون بھی آ سکتا ہے۔

بخار کے دوران ڈینگی کے مریض پر غنودگی طاری ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

ڈینگی کا وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے اور اس سے فشارِ خون یا بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

ڈینگی ہو جائے تو کیا کیا جائے؟

1۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈینگی کے مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہیے

2۔ مریض کو پانی وافر مقدار میں استعمال کروایا جائے۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس کے نتیجے ہسپتال میں داخل لوگوں کی تعداد میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ آپ پانی کے علاوہ پھلوں کے جوس، او آر ایس وغیرہ پی سکتے ہیں۔ تاہم کاربونیٹڈ ڈرنکس کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔

3۔ خون پتلی کرنے والی ادویات ایسپرن، آئبوپروفن اور اینسیڈ کے استعمال سے اجتناب کریں۔

4۔ مریض کو سی بی سی اور ایف بی سی ٹیسٹ دہرانے چاہیں۔ ان کو کتنی مرتبہ دہرانہ ہے اس بات کا تعین مریض پہلے خون کے ٹیسٹ کے بعد خون میں سفید خلیوں یعنی وائٹ بلڈ سیلز، پلیٹلیٹس اور ہیماٹوکرٹ کی مقدار کیا جاتا ہے۔

ان ٹیسٹوں کو دہرانے سے آغاز میں سیٹ کیے گئے لیولزکے حساب سے علاج کا تعین کیا جاتا۔ اگر مرض پہلے مرحلے میں ہو تو اس مریض کو یہ ٹیسٹ روزانہ کی بنیادوں پر دہرانے کا کہا جاتا ہے۔

ڈینگی سے کیسے بچا جائے

روم کولر کا استعمال کم کریں اور اس میں کھڑا پانی فوری طور پر خشک کر دیا جائے۔ آرائشی گملوں، گاڑی کے خراب ٹائر، پارکس یا چھتوں پر کسی بھی برتن وغیرہ میں پانی نہ کھڑا ہونے دیا جائے۔

بارش کا پانی کسی بھی جگہ جمع نہ ہونے دیا جائے جبکہ ایئرکنڈیشنر سے خارج ہونے والے پانی کی نکاسی کا مناسب بندوبست کیا جائے

مچھر مار سپرے کروایا جائے خصوصی طور پر کونوں کھدروں اور فرنیچر کے نیچے سپرے لازمی کروایا جائے۔ مچھر دانیوں اور مچھر بھگانے والے لوشن کا استعمال کریں

ڈینگی

پانی کے برتن جیسے کہ بالٹی، لوٹا، ٹینکی، گلدان، پرنالوں، نالیوں، پرانے ٹائروں اور صاف پانی کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھا جائے یا پانی انڈیل دیا جائے۔

ڈینگی کے بارے میں مفروضے اور حقائق

ڈینگی ایک متعدی مرض ہے؟

یہ بات صرف مفروضہ ہے کیونکہ ڈینگی مچھروں کے ذریعے ہی پھیلتا ہے یہ کسی فرد سے براہِ راست نہیں لگ سکتا۔

تاہم اگر کوئی عام مچھر کسی ڈینگی کے مریض کو کاٹے تو اس میں بھی ڈینگی وائرس منتقل ہو جاتا ہے اور یہ مچھر ایک ڈینگی مچھر جتنا ہی موذی ثابت ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کو خاص طور پر مچھر دانیوں میں رکھا جاتا ہے۔

پلیٹ لٹس میں کمی کا مطلب ڈینگی ہے؟

یہ بات صرف مفروضہ ہے۔ اس حوالے سے متعدد عارضے ہیں جو اسی قسم کی تصویر پیش کرتے ہیں۔

تاہم کیونکہ ڈینگی ہماری معاشرے میں وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے، اس لیے پلیٹ لیٹس میں کمی کے حوالے سے ایک حد تک شک کرنا صحیح ہے۔

ڈینگی

8. مچھر مار سپرے کروایا جائے خصوصی طور پر کونوں کھدروں اور فرنیچر کے نیچے سپرے لازمی کروایا جائے

ڈاکٹر ندا ڈار بتاتی ہیں کہ پیلٹ لیٹس کی مقدار کم ہونے کے باوجود زیادہ تر مریضوں میں اس کی ٹرانسفیوژن یعنی انھیں مصنوعی طور پر پلیٹ لیٹس نہیں دی جاتیں۔

ٹرانسفیوژن صرف مندرجہ ذیل صورتحال میں دی جاتی ہے:

1 . جب ان کی تعداد 10 ہزار سے کم ہو جائے

2 .جب پلیٹ لیٹس کی تعداد 10 سے 20 ہزار کے درمیان ہو اور جسم کے کسی حصے سے خون آنے لگے۔

3 . جسم کے کسی بھی حصہ سے بہت زیادہ خون آنے لگے چاہے لیٹلیٹس کی مقدار جتنی بھی ہو

پپیتے کا جوس ڈینگی کا علاج ہے؟

ڈاکٹر ندا ڈار اس بات کو صرف ایک مفروضہ گردانتی ہیں اور کہتی ہیں کہ پپیتے کے جوس سے ڈینگی کا علاج ممکن نہیں ہے۔

تاہم کیونکہ ڈاکٹروں کی جانب سے ڈینگی کے مریض کو جوس اور پانی زیادہ مقدار میں پینے کا کہا جاتا ہے اس لیے یہ مفروضہ ہمیں اس جسم میں پانی کی ایک مخصوص مقدار برقرار رکھنے میں مدد کر تا ہے۔

ڈینگی زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے؟

نہیں، یہ غلط ہے۔ ڈینگی وائرس کی چار مختلف اقسام ہیں

یہ سچ ہے کہ اگر کسی کو ایک قسم کا ڈینگی وائرس حملہ آور ہوا ہے تو اس بات کا امکان کم ہو گا کہ آپ دوبارہ اسی قسم کے وائرس کا شکار ہوں

تاہم ساتھ ہی ڈینگی وائرس کی کسی دوسری اور زیادہ خطرناک قسم کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp