افغان پرچم کا تنازع: پشاور کی افغان مارکیٹ کا اصل مالک کون ہے؟


افغان پرچم

اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کی جانب سے بدھ کی شام جاری ہونے والے ایک بیان میں سفیر شکراللہ عاطف مشعل کی جانب سے متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اب پشاور میں واقع افغان مارکیٹ پر لہرائے جانے والے افغان پرچم کو ہٹایا گیا تو احتجاجاً پشاور میں افغان قونصل خانہ بند کریا جائے گا۔

اس بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ منگل کو پولیس اور پاکستانی حکام نے اس مارکیٹ کو غیر قانونی طور پر قبضہ مافیا کے حوالے کرنے کی کوشش کی، مارکیٹ کی دکانوں کو تالے لگوائے اور وہاں سے افغان جھنڈے کو اُتار لیا گیا۔

افغان سفارت خانے کے بیان کے مطابق افغان سفیر نے پشاور جا کر میڈیا کو افغان حکومت کے موقف سے آگاہ کیا ہے اور مارکیٹ پر افغان پرچم دوبارہ لہرا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

پشاور میں افغان پرچم لہرانے پر افغان نوجوان گرفتار

اس بیان میں افغان سفیر کے حوالے کہا گیا ہے کہ ’اس مسئلے کو افراد کے درمیان نہیں بلکہ دو ملکوں کے درمیان مسئلے کی نظر سے دیکھا جائے اور اگر پاکستانی حکام نے یہ قدم دوبارہ اُٹھایا تو پشاور میں قونصلیٹ کو احتجاجاً بند کر دیں گے۔‘

افغان مارکیٹ پشاور کس کی ملکیت ہے؟

پشاور کے علاقے فردوس میں جناح پارک کے ساتھ واقع افغان مارکیٹ پر کئی دہائیوں سے پشاور کے ایک شہری نے دعوی کیا ہوا ہے کہ یہ جگہ اُن کی ملکیت ہے۔

ادھر افغان سفارتخانے کے حکام کے مطابق یہ بازار افغان حکومت نے تقسیم ہند سے پہلے خریدا تھا اور آج تک افغان نیشنل بینک کی ملکیت ہے۔

افغان مارکیٹ کی انجمن دوکانداران کے چیئرمین خان سید مومند نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس مارکیٹ پر سید زوار حسین کے نامی شخص کی جانب سے ملکیت کا دعوی کیا گیا لیکن خود اس شخص کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہے۔

خان سید مومند کے مطابق سید زوار کے نام پر قبضہ مافیا اس مارکیٹ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

افغان پرچم

’میں آج بھی یہ کہتا ہوں کہ وہ میرے سامنے سید زوار حسین کو پیش کریں، ہم یہ مارکیٹ خالی کریں گے‘۔

اُن کے مطابق 1971 سے اس بازار پر مذکورہ شخص اور افغان حکومت کے درمیان پاکستان کے مختلف عدالتوں میں مقدمات چلے، لیکن جنوری 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سید زوار حسین کے حق میں فیصلہ دیا، جو افغان حکومت تسلیم نہیں کرتی۔

اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کے حکام کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ یکطرفہ ہے دوسری جانب شوکت جمال کشمیری جس کے پاس مدعی کا مختارنامہ ہے کہتے ہیں کہ سید زوار حسین کے والد کو یہ جگہ 1989 میں اُس جائیداد کے بدلے میں الاٹ کی گئی جو اُنھوں نے پاکستان بننے کے بعد انڈیا میں چھوڑی تھی۔

خان سید مومند کے مطابق منگل کی شام کو انتظامیہ نے زبردستی اس مارکیٹ کو خالی کرنے کی کوشش کی، کچھ دوکانوں کو تقصان بھی پہنچایا اور مارکیٹ کو تالے لگائے۔

ان کے مطابق ’اُسی رات کو پشاور میں مقیم افغان قونصل جنرل کے کہنے پر ہم نے تالے توڑ کر اپنی دکانیں سنبھال لیں اور بدھ کی صبح سے ہم واپس آ گئے ہیں۔‘

حکومت کا کیا موقف ہے؟

جمعرات کو پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں جب ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل سے اس بارے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پشاور میں افغان مارکیٹ کا ایک قانونی کیس تھا، سپریم کورٹ نے اس میں فیصلہ کیا ہے اور وہ فیصلہ ظاہر ہے کہ لاگو کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سلسلے میں اگر کوئی غیر سفارتی سرگرمی ہوئی ہے تو وہ ہمارے نوٹس میں ہیں اور اُس پر کارروائی کریں گے۔‘

سوشل میڈیا پر ردعمل

بدھ کی شام افغان مارکیٹ کی چھت پر لہراتے افغان جھنڈے کی تصاویر جب افغانستان اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو جہاں افغان عوام کی جانب سے اسے اس پیغام کے ساتھ شیئر کیا جانے لگا کہ یہ بات باعثِ فخر ہے کہ افغان پرچم ایک بار پھر وہیں لہرا دیا گیا جہاں سے اسے اتارا گیا تھا۔

ادھر پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین نے ان تصاویر اور ویڈیوز پر غصے کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ ’پاکستانی سرزمین پر افغان پرچم کیوں لہرایا جا رہا ہے؟‘

صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان سفیر نے زبردستی یہ پرچم لہرایا ہے اور اس اقدام پر حکومت کو افغان حکام کو طلب کر کے باقاعدہ احتجاج کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp