شانتی نگر، نگر بے اماں کیوں


یہ داستان غم ہے، شانتی نگر کے بے اماں مکینوں کی۔ انہی میں ایک متاثرہ فرد کی داستان آپ کے گوش گزار کروں گا، تا کہ پھر پاکستان میں سانحہ شانتی نگر نہ دہرایا جا سکے۔ چک نمبر 31۔ 10 R مسیحی گاؤں کے سکونتی ڈاکٹرجوشو اولیرو پاکستان سے زراعت میں ایم ایس سی آنر، جرمنی سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ گریجوایٹ تک اعلی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے زرعی سائنسدان ہیں۔ اخبارات میں کالم لکھتے ہیں اور ان کی تین کتابیں بھی مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر جوشو، نوجوان نسل کی آگاہی و فلاح، امن و انصاف جیسے بنیادی حقوق کی سربلندی کے لئے مختلف پلیٹ فارمز پر نمایاں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اسی مشن کے تحت وہ 10 اگست 2019 کو جرمنی سے لندن تشریف لائے اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں سے امن پراجیکٹ کے حوالے سے میٹنگز ابھی جاری ہی تھیں، کہ 16 اگست کو ڈاکٹر جوشوا کو اندوہناک خبر ملی کہ پاکستان میں کسی نے ان کے والد محترم کو گولی مار کر قتل کر دیا ہے۔

ان کے والد مسیحی چک 31۔ 10 R کے ہر دل عزیز نمبر دار اور ریٹائرڈ فوجی تھے۔ ڈاکٹر جوشوا صدمے سے نڈھال تمام میٹنگز چھوڑ کر پاکستان چلے آئے۔ چند دن پہلے ہی پاکستان سے لندن گئے تو ہم ان کے والد مرحوم کی تعزیت کرنے پہنچے۔ میں نے ان سے ان کے والد محترم کے اندوہناک قتل کے متعلق جاننا چاہا تو یقین جانیے ڈاکٹر صاحب کی داستان غم سن کر مجھے انتہائی ذہنی صدمہ پہنچا۔ قارئین! یقیناً جب آپ بھی اس نوجوان ڈاکٹر جوشواؤ لیرو کے والد مرحوم کے بارے میں پڑھیں گے تو آپ کو میری طرح بہت بڑا دھچکا لگے گا کہ ایک شریف النفس نمبردار کو بنا کسی وجہ کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جیسے کسی بھی انسان کی جان لینا کوئی بڑی بات ہے ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ امن عامہ کی صورت احوال مخدوش ہے۔

محکمہ پولیس میں رد و بدل کرنے کے باوجود حکومتی پالیسیاں تا حال عوام کے جان و مال کو مکمل تحفظ فراہم کرنے میں نا کام نظر آتی ہیں۔ سوچتا ہوں کہ اکثریت کا اگر یہ حال ہے تو اقلیتوں کا پرسان حال کون ہو گا؟ پولیس کا رویہ غریب اقلیتی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بد تر ہے۔ ان کے نمایندے کٹھ پتلیاں ہیں، جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی قوم کے حقوق کا تحفظ اورانصاف دلا سکیں۔ ڈاکٹرجو شوا کے والد چودھری اصغر فضل کو سانحہ شانتی نگر کے خلاف آوازاٹھانے کی پاداش میں زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔

یاد رہے کہ 17 جنوری 1997 کو پولیس نے شراب کی غیر قانونی فروخت کے الزام میں جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال کے گاؤں شانتی نگر میں راج مسیح کے گھر چھاپا مارا۔ لیکن شراب کی بوتل تک برآمد نہ ہو سکی۔ پولیس نے انجیل مقدس کی بے حرمتی کی جس پر مسیحیوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ بدلے میں کچھ پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی سے معطل کرنے کی خانہ پری کی گئی، پولیس والوں نے مسیحیوں کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے الزامات واپس نہ لیے تو انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

تین ہفتے بعد 5 فروری 1997 میں شانتی نگر کے گرد و نواح کے 14 دیہاتوں سے تقریباً بیس ہزار افراد نے مسیحیوں کے دو دیہات شانتی نگر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گھر، دکانیں، سینٹ جوزف چرچ، اسکول اور اس سے ملحق ہاسٹل اور ڈسپنسری کو آگ لگا دی۔ درجنوں عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ اس سانحے کو 21 سال گزر چکے ہیں مگر آج بھی شانتی نگر کے گرد و نواح کے مسیحی گاؤں اس آگ میں سلگ رہے ہیں۔ اس وقت فوج نے مداخلت کی اور کرفیو لگا کر حالات کو کنٹرول کیا۔ اس وقت پاک آرمی کے افسران نے ڈاکٹر جوشوا کے والد چودھری اصغر فضل سے ملاقات کی اورانہیں تحفظ کا یقین دلایا۔

انہوں نے مدد خان نیازی اور دیگر شدت پسندوں کو سرزنش کی۔ وقتی طور پر خطرہ تو ٹل گیا لیکن جارحانہ سوچ اندر ہی اندر پنپتی اور دلوں میں شدید نفرت موجود رہی، اس لئے ہمیشہ کوئی نہ کوئی مسئلہ چلتا رہا۔ مقامی مسیحی آبادی میں خوف تھا۔ جب کہ دوسری طرف حملہ آوروں کو ہم خیالوں نے ہیرو قرار دیا۔ قانون اور انصاف کی امید لگائے متاثرین نے عدالتوں کا رخ کیا۔ نظام حرکت میں آنے کے باوجود کسی ایک کو بھی سزاوار نہیں ٹھہرایا۔

آخر کارعدالت نے 29 جون 2019 کو تمام حملہ آوروں کو آزاد کر دیا۔ ان کے ساتھ ہی ہلاکت میں نام زد مسیحیوں کو بھی رہا کر دیا گیا۔ نیازی خاندان کو یہ فیصلہ نا گوار گزرا۔ انہوں نے گاؤں کے مسیحیوں، خصوصی طور پر نمبردار کو دھمکیاں دیں۔ 16 اگست 2019 کی دوپہرجب چودھری اصغر فضل اپنے کھیتوں سے واپس اپنے گھرجانے کی غرض سے کار کی طرف بڑھ رہے تھے تو دو موٹر سائیکل سوار جو پہلے ہی سے دھاک لگائے بیٹھے تھے نے ان پر حملہ کر دیا۔

مبینہ طور پر موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے مدد خان نیازی کے بیٹے عزیز الرحمن نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ واضح رہے کہ عزیز الرحمن کے جرائم کا ریکارڈ خاصا ہائی ہے۔ ایک گولی نمبردار کے سر پر لگی، جس سے وہ موقع ہی پر شہید ہو گئے اور قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پہلے تو پولیس نے اسے ایکسیڈنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر کھیتوں میں کام کرنے والوں نے گواہی دی کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ اسی شام کو عزیز الرحمن کے 17 سالہ بیٹے شاہد نے باپ کو بچانے کی غرض سے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا کہ یہ قتل اس نے کیا ہے۔

گاؤں میں خوف کی فضا تا حال قائم ہے اور چودھری اصغر فضل کے خاندان کو قاتلوں سے خطرات لاحق ہیں۔ نیازی خاندان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر گاؤں والوں اور مسیحی قیادت کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ملزمان کو سیاسی قیادت اور شدت پسند تنظیموں کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے گرفتاری تو دے دی ہے لیکن ابھی تک اس گرفتاری کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ قانون سے امید کے باوجود تحفظات موجود ہیں۔

اس ضمن میں انسانی حقوق کے وزیر اعجاز عالم آگسٹین نے تعاون کی مکمل یقین دہانی کروائی ہے، سیاسی رہنما میری گل اور دیگر مسیحی رہنماؤں نے اس واقعہ کی پر زور مذمت کی ہے۔ اس طرح اور بہت سے مسیحی اور رحم دل مسلمان دوست اور ساتھی کیس کو آگے بڑھانے میں اپنے اپنے تیئں بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔ مجرمان کو سزا ملے گی تو متاثرین کا ریاست پر اعتماد بڑھے گا اور مسیحیوں کو احساس تحفظ ملے گا۔ شدت پسندی میں کمی آئے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو شانتی نگر کی راکھ سے چنگاریاں نکلتی رہیں گی، مسیحی آبادیاں بھسم اور مسیحی قائدین شہید ہوتے رہیں گے توق ومی اتحاد اوراقلیتوں کے تحفظ کے دعوے جھوٹے پڑتے رہیں گے۔

چک نمبر 31۔ 10 R کو قیام پاکستان سے پہلے مسیحیوں نے آباد کیا۔ پھر وہاں نیازیوں کو منتقل کیا گیا۔ نیازیوں کے بیشتر خاندان تو مقامی پنجابی مسیحی آبادی کے ساتھ گھل مل گئے لیکن چند خاندان ناجائز اسلحہ، سود اور نشہ بیچنے کا دھندا کرتے ہیں اورانہی جرائم پیشہ عناصر نے مقامی لوگوں سمیت زمینوں کے مالکان مسیحیوں کو ڈرا دھمکا کر بھگانے کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔ یہی وجہ کے گاؤں کی مسیحی آبادی پچاس فی صد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ چک نمبر 31۔ 10 R کے مسیحیوں کی سیاسی اور سماجی قیادت ان کے نمبردار چودھری اصغر فضل کر رہے تھے۔ وہ بیس سال تک سینٹ جوزف ہائی اسکول اور ہاسٹل خانیوال کے منتظمین اعلی بھی رہے۔ انہوں نے ملک بھر سے ہزاروں طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا، جو دنیا بھر میں ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ اس سانحے کا آغاز 2013 میں ایک مسیحی کی دکان کے باہر رکھی چارپائی سے ہوا۔ نیازیوں نے چارپائی کی پیندوں کی سمت کی نشان دہی کی اور مذہبی جذبات مجروح ہونے کا بہانہ بنا کر گاؤں جلانے کی دھمکی دی۔ اگلے دن وہ پوری تیاری سے آ ئے اور پولیس کی موجودگی میں مسیحی آبادی پر حملہ کر دیا، پہلے پتھراؤ اور پھر فائرنگ کے تبادلے کے دوران میں، ان کا اپنا ہی ایک ساتھی فائرنگ کی زد پر آ کر ہلاک ہو گیا۔ نمبردار چودھری اصغر فضل مقامی فادر صاحب کے ساتھ حملہ آوروں کے خاندان کے گھر تعزیت کے لئے گئے اور صلح کی کوششوں کا آغاز کیا۔ مقامی مذہبی قیادت خصوصی طور پر بشپ قمر عزیز اور منیر ساجد نے بھی امن اور صلح کے لئے بھرپور جدوجہد کی لیکن مثبت جواب نہ ملا اور یوں نیازیوں نے مسیحیوں کے خلاف قانونی محاذ کھول دیا۔

چودھری اصغر فضل کا نیازیوں سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا لیکن وہ مسیحیوں کی نڈر قیادت اور موثر آواز تھے جسے ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیا گیا جب کہ حسب روایت مقامی سیاسی قیادت ملزمان کے ساتھ کھڑی ہے۔

پولیس نے آغاز ہی سے ملزمان کی ہر ممکن مدد کی اور متاثرہ خاندان کو دباؤ میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ نیازیوں کی طرف سے متاثرہ خاندان اور مسیحی آبادی کو دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس کی تفتیشی رپورٹ یک طرفہ طور پر ملزمان کا موقف بیان کرتی ہے۔ جب کہ متاثرہ خاندان کے موقف کو کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ ملزمان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے 28 ستمبر 2019 کو عبادت پر جاتے مسیحیوں کی بس پر راستے پر فائرنگ کی گئی اور گاؤں میں خوف ہراس کو بڑھاوا دیا گیا۔ غیر قانونی سرگرمیاں عروج پر ہیں، خوف ہراس سے مسیحی گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہیں اور سیاسی قیادت، پولیس، نمبردار چودھری اصغر فضل کے قاتلوں کو تحفظ دینے میں مصروف ہے۔

دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی مسیحیوں میں ان واقعات پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور چیف جسٹس پاکستان سے گزارش ہے کہ مسیحیوں کو تحفظ اور نمبردار چودھری اصغر فضل کے قاتلوں کو سزا دیں۔ اقوامی متحدہ سے اپیل ہے کہ متاثرہ خاندان اور گاؤں کے مسیحیوں کو فوری طور پر پناہ دی جائے۔ تا کہ ڈاکٹر جوشوا کے خاندان کو انصاف فراہم کر کے قانون کی بالا دستی ثابت کی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).