طالبات سے بھری کالج بس پہ حملہ اور ہمارے بچوں کا مستقبل


اصل واقعہ

سوموار 7 اکتوبر کا واقعہ یے۔ کھاریاں کے ایک نجی کالج کی بس حسب معمول چھٹی کے بعد طالبات کو لئے ڈنگہ کی جانب رواں دواں تھی۔ جس میں چند طلبہ بھی سوار تھے۔ دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب جونہی یہ بس اتووالہ نہر کے پل پر پہنچی تو وہاں پہلے سے گھات لگائے لڑکوں کے ایک جتھے نے ڈرائیور کو زبردستی رکنے پر مجبور کیا۔ کم و بیش دس بارہ لڑکے جو ڈنڈے سوٹوں سے مسلح تھے بس میں گھس گئے۔ اس جتھے کی کمان موضع جانی چک کا ایک نوجوان کر رہا تھا۔

انہوں نے بس میں موجود طلبہ کو زدوکوب کیا تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ اور تسلی کر لینے کے بعد وہاں سے چلتے بنے۔ ڈرائیور نے فوری طور پر کالج انتظامیہ کو مطلع کیا۔ جبکہ بس میں سوار کچھ خواتین اساتذہ نے بھی کالج کے پرنسپل کو اس بارے میں فون پر اطلاع دے دی۔ پرنسپل صاحب نے ریسکیو 15 سے رجوع کرنے کو کہا لیکن اس دوران حملہ آور جتھا وہاں سے جا چکا تھا۔ اور بس ڈنگہ کی جانب رواں دواں۔

میڈیا رپورٹس

میڈیا پہ اس واقعے کے متعلق یہ رپورٹ کیا گیا کہ طالبات کی بس کو کچھ لڑکوں نے زبردستی روکا۔ بس میں داخل ہوئے۔ طالبات کی ویڈیوز اور تصاویر بنائیں۔ طالبات کے ساتھ دست درازی پر اتر آئے اور نازیبا حرکات شروع کر دیں۔ جب اس بس میں موجود طلبہ نے انہیں اس حرکت سے روکنے کی کوشش کی تو حملہ آور گروپ نے ان طلبہ پر تشدد کیا اور انہیں بری طرح زدو کوب کرتے رہے۔ بعد ازاں طالبات کی چیخ پکار سن کر راہگیروں نے مداخلت کی اور ان کے چنگل سے آزاد کرایا۔

پس منظر

اس واقعہ کا پس منظر کچھ یوں ہے۔ کہ طلبہ کے گروہوں کے بیچ پرانا جھگڑا چلا آ رہا ہے۔ ایک سال قبل ڈنگہ کے ایک طالب علم اسامہ جو اس وقت سرکاری کالج میں زیر تعلیم تھا اس کا جھگڑا موجودہ واقعے کے مرکزی کردار علی رضا سے ہوا۔ اسامہ نے کالج تبدیل کر کے اب اس نجی کالج میں داخلہ لے رکھا یے۔ سابقہ رنجش کو بنیاد بنا کر ڈنگہ ہی کے علی رضا جو کہ سرکاری کالج کا طالب علم یے نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اتووالہ کے قریب اس نجی کالج کی بس کو روکا۔

انہیں پکی خبر تھی کہ طالبات سے بھری اس بس میں ان کا ٹارگٹ اسامہ نامی نوجوان بھی موجود ہے۔ بس کو روکتے ہی علی رضا اور اس کے ساتھی بس میں سوار ہوئے اور اسامہ پر تشدد شروع کر دیا۔ اسے لاتوں اور گھونسوں کی زد پر رکھ لیا۔ گھسیٹ کر اسے بس سے نیچے اتارنے کی پوری کوشش کی۔ اس دوران ان کے منہ سے مغلظات ابلتی رہیں یہ لحاظ کیے بنا کہ بس میں طالبات اور خواتین اساتذہ بھی موجود تھیں۔ اس واقعے کی جو ویڈیوز دستیاب ہیں ان کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ واقعہ رنجش مٹانے کی ایک انتقامی کارروائی تھی۔ اور مرکزی کردار اپنے ٹارگٹ کو پیٹتے ہوئے جو کلمات ادا کرتا ہے وہ کچھ اس طرح تھے۔

گالیاں

کچھ یاد آیا اسی جگہ تم نے ہمیں اتارا تھا۔
جڈی بے بے ہووے اوڈا ای بین کری دا اے۔

گالیاں

یہ ڈائیلاگ ظاہر کرتے ہیں کہ اسامہ مذکور نے بھی حملہ آور کو ماضی میں ایسے ہی سلوک سے نوازا تھا۔ اور آج اسے اس کا نیوندرا وصول ہو گیا۔

ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب حملہ آور اسامہ کو مارتے ہوئے غلیظ گالیاں دیتے ہیں تو اسامہ ان کو واسطے دیتا رہ گیا کہ بس میں بچیاں بھی سوار ہیں۔ ان کا کچھ خیال کرو گالیاں مت دو۔

شرمناک پہلو۔

بظاہر یہ واقعہ لا ابالی لڑکوں کی آپس کی لڑائی کا شاخسانہ لگتا یے۔ جو مکمل طور پر ایک انتقامی کارروائی تھی۔ لیکن اگر حملہ آور گروہ نے بدلا ہی لینا تھا تو اسامہ کو وہ کہیں اور بھی گھیر سکتے تھے۔ وہ کہیں بھی ان کے نرغے میں آ سکتا تھا۔ انہیں اس طرح طالبات اور اساتذہ سے بھری بس کو سر راہ روک کر اس انداز میں حملہ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ ان کا یہ فعل سراسر قابل مذمت، شرمناک، افسوسناک اور المناک ہے۔

یہ قدم اٹھاتے ہوئے ایک پل بھی ان نے یہ سوچا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ کہیں ان کے گھرانے کی بیٹیاں بھی کسی کالج سکول یا یونیورسٹی کی بس میں محو سفر ہوں گی۔ ان کے اس عمل سے بس میں موجود طالبات پر کیا گزری ہو گی؟ جو بے ہودہ زبان ان نے خواتین کے سامنے استعمال کی کیا اس سے بہن بیٹیوں کی روح تک چھلنی نہییں ہوئی ہو گی؟ خوف اور دہشت بھری اس غنڈہ گردی کے بارے میں جان کر وہ تمام والدین کلیجے تھام کر نہیں رہ گئے ہوں گے جن کی بیٹیاں روزانہ حصول علم کی خاطر سفر کرتی ہیں۔

کہتے ہیں بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں تو آپ نے یہ کیا کر دیا؟ آپ اپنے انتقام کی آگ کسی اور موقعے پر بھی ٹھنڈی کر سکتے تھے۔ اس طرز عمل نے ہماری معاشرتی اقدار پر کاری ضرب لگائی ہے۔ ان بپھرے ہوئے لڑکوں نے کالج بس پر نہیں ہماری اخلاقی قدروں پر حملہ کیا ہے۔ ان کے اس عمل نے ان کے والدین کے سر شرم سے جھکا دئئے ہیں۔

انتظامیہ کا کردار

اس واقعے کی خبر ہوتے ہی انتظامیہ حرکت میں آئی۔ ڈی پی او اور ڈی ایس پی کھاریاں نے مذکورہ کالج کے پرنسپل سے رابطہ کر کے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اور آج اس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی۔

پرنسپل صاحب کی رائے

نجی کالج کے پرنسپل کے لئے یہ واقعہ کڑی آزمائش تھا۔ اس طرح کا کوئی بھی واقعہ جہاں ادارے کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ وہاں طالبات کے والدین کا پریشان ہونا بھی فطری امر ہے۔ لیکن مجھے خوشی ہوئی ان کا موقف جان کر کہ ان کی سوچ خالصتا ایک استاد کی سوچ کا مظہر تھی جس کی نظر میں سارے شاگرد سگی اولاد کی مانند ہوتے ہیں۔ جس کا مستقبل اسے ہر شے سے عزیز ہوتا ہے۔ جناب پرنسپل صاحب کا کہنا تھا کہ مجھے بڑا قلق ہے کہ ان لڑکوں نے جو کیا بہت برا کیا۔ پولیس کو میں نے دو دن سے ایف آئی ار چاک کرنے سے روکا ہوا تھا کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ذمہ دار بچوں کا مستقبل اس ایف آئی ار سے داغدار ہو۔ آخر کو وہ بھی ہمارے بچوں جیسے ہیں۔ آج وہ اصلاح احوال کر لیں تو ان کا مستقبل بچ جائے گا۔ ہم کسی کے نقصان پر راضی نہیں ہیں۔

تازہ ترین

اب تک کی صور تحال کے مطابق فریقین کے بیچ صلح ہو چکی ہے۔ اب بس مجبوری یہ ہے کہ ایف آئی ار کالج انتظامیہ کی جانب سے ہے۔ مدعی بھی وہی ہیں۔ ان کی رسمی اجازت ضروری ہے۔ گویا میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔

ایک تلخ سوال ہے کہ جب اتنے عرصہ سے ان بچوں کے بیچ جگھڑا چلا آ رہا تھا تب والدین کے کان کیوں کھڑے نہیں ہوئے؟ ان نے اس وقت صلح کیوں نہیں کروائی۔ سچ پوچھیں تو بچوں سے زیادہ ان کے والدین قصور وار ہیں۔

والدین کی ذمہ داریاں اور بچے

کیا کبھی والدین نے بچوں کو کالج بھیج کر یہ پتہ کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ وہ دن بھر کہاں ہوتے ہیں۔ کالج کے نام پر کیا کرتے پھرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں کیا ہیں۔ کن لوگوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا یے۔ آپ کے بچوں کی دوستیاں کس قماش کے لوگوں کے ساتھ ہیں؟ آپ نے ان کو کھلی ڈھیل کیوں دے رکھی ہے؟

کاش والدین اپنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع اپنی اولاد کو اس طرح تباہی کے راستے کا راہی بننے سے روک لیں
تحریر عامر عثمان عادل سابق ایم پی اے گجرات۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).