مولانا اور آزادی مارچ


پاکستانی سیاست میں حزب اختلاف جماعتیں ہمیشہ جلسہ، جلوس اور احتجاج کرتی آئی ہیں جوکہ ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور آئین پاکستان نے ہر شخص کو آزادی رائے اور احتجاج کی آزادی دی ہے۔ پاکستانی سیاست میں وہ نواز شریف کا وکلا بحالی لانگ مارچ تھا یا ڈاکٹر طاہر القادری کا جنوری 2013 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف نظام انتخاب میں اصلاحات کا دھرنا تھا یا پھر 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری کے ایک بار پھر لانگ مارچ و دھرنے تھے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

2014 کے دھرنے کے دوران عمران خان صاحب دھاندلی کا الزام لے کر نواز شریف صاحب کے استعفیٰ کے لیے اسلام آباد چڑھ دوڑے تھے۔ الغرض اس سے قبل الیکشن ٹربیونل تھا یا الیکشن کمیشن ہر دروازے کو کھٹکھٹایا اور بالآخر 14 اگست کو اسلام آباد روانہ ہوے۔ اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہیدوں کی ایف۔ آئی۔ آر اور شہباز شریف صاحب کے استعفیٰ کے لیے اسلام آباد روانہ ہوے۔ اگر دھرنوں کی بات کی جائے تو کون کس کا استعفیٰ لے کر آیا یہ قوم ہی بہتر جانتی ہے۔

البتہ ہر بار کی طرح 2018 کے عام انتخابات کو مولانا فضل الرحمن صاحب کے علاوہ مسّلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی و دیگر اتحادی جماعتوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا مگر مولانا کے مارچ کا ساتھ دینے میں اپوزیشن جماعتیں اس طرح اکٹھی نظر نہیں آتیں۔ 2018 کے انتخابات میں فضل الرحمن، علی امین گنڈاپور سے ڈیرہ اسماعیل خان سے شکست کھا بیٹھے تھے اور 2002 کے بعد پہلی بار قومی اسمبلی سے باہر ہوے۔ الغرض مولانا صاحب 10 سال کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے مگر کوئی عملی اقدامات نا تھے۔

مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) نے 27 اکتوبر 2019 کو اسلام آباد پڑاؤ ڈالنے کا اعلان کیا خیر اب 31 اکتوبر کو مولانا کا آزادی مارچ اسلام آباد داخل ہوگا، بہر حال 27 تاریخ کے روز مارچ و احتجاج کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہوگا۔ اگر مولانا کی سیاست کی بات کی جائے تو ایم۔ ایم۔ اے کے اتحاد میں شمولیت سے لے کر ہر سیاسی رہنما بے نظیر بھٹو شہید، نواز شریف، آصف زرداری کے اقتدار میں کرسی حکمرانی پر براجمان رہے اور وزارت ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاست کی بات کی جائے تو اس میں مذہبی کارڈ کا استعمال زیادہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دھرنے میں بھی مدارس کے بچوں کا استعمال ہونے کا خدشہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ تحفظ ناموس رسالت ﷺ کا عنوان بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ سب سے اہم چیز 27 اکتوبر کی تاریخ ہے جوکہ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ 27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا تھا تب سے پاکستان و کشمیری اس دن کو یوم سیاہ مناتے ہیں، بے شک یہ وہ وقت ہے جب دنیا کشمیر کی جانب اور پاکستان کی جانب دیکھ رہی ہوگی بہرحال مولانا صاحب نے تاریخ میں تبدیلی کا بہت مثبت فیصلہ کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا مولانا کو 27 اکتوبر کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا؟

27 اکتوبر کو کشمیری یوم سیاہ منائیں گے دوسری جانب بھارت میں اسی روز دیوالی کی خوشیاں منائی جارہی ہوں گیں۔ میری ذاتی رائے میں جمیعت علمائے اسلام (ف) غلط وقت میں غلط قدم اٹھانے جا رہی تھی جو جماعت اور ملک کی سالمیت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتی تھی مگر تاریخ کی تبدیلی خاطر خواہ مثبت قدم ہے۔ عمران خان صاحب کے دھرنے کی بات کی جائے تو 2014 میں پی۔ ٹی۔ آئی الیکشن کمیشن اور ٹربیونلز الغرض ہر سطح پر گئی اور آخری حربہ لانگ مارچ و دھرنا کا استعمال کیا مگر مولانا سیدھا دھرنا کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں۔

2014 میں جیسے فضل الرحمن صاحب نے دھرنوں کو حرام قرار دیا سوال یہ ہے کہ دھرنا اب کیسے حلال ہوگیا؟ یقیناً مولویوں اور مولانا کے لیے سب کچھ حلال ہے۔ جیسے عمران خان کے دھرنا کے دوران چینی صدر کا دورہ پاکستان متاثر ہوا ویسے ہی مولانا کا دھرنا کشمیر سمیت افغان امن کے لیے کی گئیں کاوشوں کوضائع کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ ملک اور مولانا کو فائدہ ہو نا ہو مگر دشمن ملک کو بہت فائدہ ہوگا کیونکہ میڈیا سے لے کر دنیا کا فوکس کشمیر کی بجاے مولانا پر ہوگا۔

اطلاعات کے مطابق 4 بلٹ پروف کنٹینر تیار کیے گئے ہیں اور بڑی سیاسی قوت کے ساتھ لانگ مارچ میں شمولیت ہوگی۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان صاحب کو کیے گئے وعدے کے مطابق کنٹینر و خوراک مہیا کرنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب حکومت وقت سے استعفیٰ و نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیے بیٹھے ہیں یہ وہ جماعت ہے جس کا اپنا ووٹ 2 فیصد رہا۔ اب سوال یہ ہی کہ 2 فیصد ووٹ لینے والا شخص کیسے 98 فیصد افراد پر مسلط ہو سکتا ہے۔

اگر یہی رواج چلتا رہا تو کل 1 فیصد ووٹ والے لوگ بھی ملکی سیاست و حکومت کو ہلا دیں گے۔ البتہ مجھے حکومت جاتے نظر نہیں آتی اور آخر میں مولانا کے بھی سیاسی غبارے سے ہوا نکلتی نظر آتی ہے۔ کیا ہی خوب ہوتا مولانا فضل الرحمن صاحب! اس کرپٹ انتخابی نظام کے خلاف اٹھتے جو اس ملک میں حقیقی تبدیلی لانے میں رکاوٹ ہے۔ وہ انتخابی نظام جس میں پڑھا لکھا، غریب، مزدور و عام آدمی انتخابات جیت تو کیا لڑ ہی نہیں سکتا۔

وہ انتخابی نظام جس میں جاگیردار، وڈیرے اور سرمایا دار ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں اور اقتدار انہی لوگوں کے اردگرد گھومتا ہے۔ دھاندلی کا رونا تو ہر اپوزیشن جماعت ہر انتخاب کے بعد روتی آئی ہے مگر آج تک کسی نے الیکشن کمیشن کو مزید طاقتور اور مضبوط کرنے کے متعلق کام یا آواز نہیں اٹھائی۔ مولانا! کو ایسے ایجنڈا پر میدان میں اترنا ہوگا کہ تمام محب وطن لوگ فرقہ پسندی سے باہر آکر ان کا ساتھ دیں اور نسلیں مولانا کو یاد کریں۔

مولانا اگر انتخابی نظام جو اصل دھاندلی کی جڑ ہے کو تبدیل کروانے میں کامیاب ہوگئے تو تاریخ آپ کو سنہرے حروف میں یاد رکھے گی مگر بدقسمتی سے مولانا خود اسی کرپٹ انتخابی نظام میں 2002 سے 2013 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں اور شاید کبھی انتخابی نظام میں اصلاح کے لیے بات نہیں کریں گے۔ اگر مذہب کے نام پر ایک جماعت دوسری جماعت کے اقتدار کو ختم کرتی رہی تو اس ملک میں عدم استحکام اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہوگا۔

اس طرح یقیناً نا ملک چل سکے گا نا ہی چلنے دیا جائے گا۔ صرف حکومت گرانے سے نا قوم کا مستقبل بدلے گا نا ہی روٹی، کپڑا و مکان سستا ہوگا بلکہ عدم استحکام ضرور ہوگا۔ سرحدی حالات کو دیکھتے ہوے یقیناً اس وقت ملک کسی لانگ مارچ یا شارٹ مارچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اسلام آباد کی جانب ضرور رخ کرے گا، حکومتی مشینری آزادی مارچ کو ہر حال میں روکے گی اور اگر نا روک سکی تو میرے خیال میں اس دہائی کا سب سے بڑا اور تاریخی دھرنا مولانا کا ہوگا، جسے حکومت وقت کو بعد ازاں سنمبھالنا مشکل ہوگا۔

بہر حال ملک پہلے کم بحران سے نہیں گزرا اور ہمیشہ غریب کا بچہ ہی سیاستدانوں کی سیاست کے لیے جان قربان کرتا آیا ہے حکومت کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا اور اب ملک کو اندرونی و بیرونی دونوں سطحوں پر محفوظ بنانا بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہوچکی ہے۔ بے شک ملک سرحدی محاذ اور کشمیر محاذ پر مختلف مشکلات میں ہے اور ملکی ادارے قومی سلامتی کی خاطر ہر محاذ پر کھڑے ہیں، ان حالات میں ملک کو اندرونی سطح پر وحدت کی ضرورت ہے نا کہ انتشار کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).