ایک سچا محب وطن شخص اور اس کا عقیدت مند صحافی


انسان فانی ہے۔ جو اس جہان میں آیا ہے اسے ایک دن واپس جانا ہے۔ کوئی برسوں کی بیماری کاٹ کر بھی جیتا رہتا ہے اور کوئی قابلِ رشک صحت اور چھوٹی عمر کا مالک ہو کر بھی سب کو اپنی ناگہانی موت سے اداس کر جاتا ہے۔ حضرت معمارِ ملت بھی نہ رہے اور یکایک داغ جدائی دے گئے۔ شدت غم سے اب عالم یہ ہے کہ ”شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے، دل ہوا ہے چراغ مفلس کا“۔

معمار صاحب متحدہ ہندوستان میں تحریک خلافت کے دنوں میں پیدا ہوئے اور اپنی طویل خدمات سے قوم کو سرفراز کر کے گزشتہ ہفتے وفات پا گئے۔ ایک معمولی محنت کش سے وہ ارض پاک کے امیر ترین آدمی بنے۔ جہاں ایک طرف انہوں نے وطن عزیز میں کروڑوں مساجد تعمیر کیں، وہاں وہ سیاست کے میدان میں قوم کو فکری راہنمائی بھی فراہم کرتے رہے۔

معمارِ ملت ہندوستان کے شہر کان پور میں ایک ایسے غریب ترین گھرانے میں پیدا ہوئے جس میں ایک وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوتے تھے۔ رات بھوکے پیٹ سوتے تو یہ علم نہیں ہوتا تھا کہ صبح ناشتہ ملے گا بھی یا نہیں۔ تقسیم کے زمانے میں ان کو ایک رئیس کے ہاں چوکیدار کی ملازمت ملی۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہنگامے پھوٹ پڑے۔ معمارِ ملت ایک رات گھر کے دروازے کو باہر سے تالا لگا کر اس کے سامنے چارپائی ڈالے سو رہے تھے، صبح اٹھے تو سب کو مرا پایا۔ بس معمارِ ملت ہی زندہ بچے تھے۔ سچ ہے کہ جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے۔ انہوں نے غل مچا کر محلے والوں کو بلایا تو انہیں معلوما ہوا کہ اس رئیس کے گھر پر رات کو بلوائیوں نے ایک شدید حملہ کر کے تمام نفوس کو قتل کر دیا ہے اور گھر کا تمام مال و دولت لوٹ کر لے گئے۔

اس سانحے کے بعد معمار صاحب کا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا اور اسی رات وہ خاموشی سے کئی نسلوں کا جمع کیا گیا بے شمار مال و دولت لے کر کانپور چھوڑ کر ملتان سدھارے۔ بعد میں کان پور شہر کے لوگوں نے انہیں بہت یاد کیا اور بہت ڈھونڈتے پھرے۔ ایک تھانیدار تو سنا ہے کہ ڈھونڈتا ڈھونڈتا لاہور تک آ گیا تھا۔ کلیم کے کاغذات کے بدلے، جو کہ انہیں کانپور کی اس بدقسمت رات میں اپنی چارپائی کے تکیے کے نیچے پڑے ہوئے ملے تھے، وہ کئی مربعے نہری زمینیں الاٹ کروا کر فکر معاش کے لیے خاندانی زیورات بیچ بیچ کر بھٹہ خشت چلانے لگے۔

ان کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ غریب ہاریوں کو بلا معاوضہ اپنے بھٹے پر رہائش فراہم کرتے تھے اور دن بھر میں اس مفلس کنبے کے ہر فرد کو ایک ڈیڑھ روٹی پیاز کے ساتھ کھانے کے لیے مفت میں دیتے تھے۔ کوئی بھٹے کی رہائش چھوڑ کر جانے کی کوشش کرتا تو پیار محبت سے اسے زبردستی روک لیتے، ہرگز نہ جانے دیتے۔ خواہ اس مقصد کے لیے اس غریب کو اس کے خاندان سمیت محبت کی آہنی بیڑیاں ڈال کر کوٹھڑی میں ہی کیوں نہ بند کرنا پڑے، وہ اسے روک لیتے تھے۔ دوسری طرف وہ افراد معمارِ ملت کے احسان سے اس قدر مغلوب ہوتے تھے کہ دعائیں دیتے نہ تھکتے اور سارا سارا دن کوئی معاوضہ وصول کیے بغیر ان کے لیے خشت سازی کرتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی احسان فراموش لالچی شخص پیسوں کا تقاضہ کرتا تو بجائے اس کو اس قبیح حرکت پر لعن طعن کرنے کے، معمار صاحب اپنی حویلی میں جا کر گڑگڑا گڑگڑا کر خدا سے رحم کی دعا مانگتے تھے۔ معمارِ ملت مقبولِ بارگاہِ خداوندی تھے، ان کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ ان کی دعاؤں کے صدقے کبھی ایسا نہ ہوا کہ بھٹے کے منشی کے ہاتھوں کسی شریر مزدود کی ہڈی پسلی ٹوٹی ہو اور وہ مہینے دو مہینے کے لیے خشت سازی چھوڑ کر بستر سے جا لگا ہو۔

وقت پلٹا تو انہوں نے خشت سازی سے ترقی کرتے کرتے تعمیرات کا کاروبار شروع کیا۔ معمارِ ملت نے سرکار دربار میں اپنی ایمانداری اور کارگزاری سے اتنا اعتبار جمایا کہ علاقے کی ساری سرکاری تعمیرات انہیں کے ادارے کو ملنے لگیں۔ انہوں نے روپے پیسے کا کبھی لالچ نہیں کیا۔ سرکار دربار میں ان کی ایمانداری ضرب المثل بن گئی کہ جس افسر کا جتنا حق بنتا تھا، وہ کسی تقاضے کے بغیر خود بخود اس کے گھر پر پہنچا آتے تھے۔ صدر ایوب کے زمانے میں بڑے تعمیراتی کام شروع ہوئے اور ساتھ ساتھ ہی بنیادی جمہوریت آئی۔ اپنی کارگزاری سے سب کو متاثر کر کے معمارِ ملت صوبائی کابینہ تک جا پہنچے۔ سچ ہے کہ وہ زمانہ جوہر شناسی کا تھا۔

تاشقند معاہدے کے بعد حکومت سے دل اچاٹ ہوا تو ایوب خان سے الگ ہو گئے اور جنرل یحیی کے ساتھ جا ملے جو اس وقت قوم کو متحد رکھنے کے لیے خون پسینے کی طرح بہا رہے تھے۔ لیکن اکہتر کے سانحے کے بعد ان کا دل جنرل یحیی سے بھی پھر گیا۔ غریب پرور تو شروع سے ہی تھے، اور اب بھی اپنے درجن بھر بھٹہ خشت میں غربا کو مفت قیام و طعام کی سہولت دیتے تھے، لیکن اب وہ اسلامی سوشلزم کے بھی داعی ہو گئے اور بھٹو کے ساتھ مل گئے اور صدق دل سے سمجھتے رہے کہ بھٹو غریبوں کے دن پھیر دے گا۔ لیکن پھر تحریکِ نظام مصطفیؐ چلی اور جنرل ضیا نے ملک کو بچانے کے لیے اقتدار سنبھالا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ دنیا فانی ہے، بندے کو ابدی دنیا کی فکر پہلے کرنی چاہیے۔

چنانچہ جنرل ضیا کی مجلس شوری میں شامل ہوئے۔ انہیں دنوں افغان جہاد شروع ہوا اور ڈالروں اور ریالوں کی بارش شروع ہوئی تو حضرت معمارِ ملت نے مساجد و مدارس کی تعمیر کی طرف توجہ کی۔ نیت نیک تھی، جلد ہی کامیابی نصیب ہوئی۔ اللہ نے عرب شیخوں کو توفیق دی کہ اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حضرت معمارِ ملت کا ہاتھ بٹائیں۔ پہلے جو بے شمار غریب بچے ان کے بھٹہ خشت میں مفت قیام و طعام سے فائدہ اٹھا کر انہیں دعائیں دیتے تھے، اب ان کے مدارس میں داخل ہوئے اور کفار سے لڑنے افغانستان جانے کی سعادت پا گئے۔ اپنے نام کی لاج رکھنے والا یہ شخص واقعی ملک کی عمارات کا معمار بھی بنا اور ذہنوں کا بھی۔

سوویت یونین کی مجاہدین کے ہاتھوں شکست فاش کے بعد بھی انہوں نے دینی خدمات پر توجہ مرکوز رکھی اور سیاست میں بھی اسی پر زور دیتے رہے۔ لیکن وہ دین کی طرف اپنی ساری توجہ کے باوجود اپنے سے مخالف نظریہ رکھنے والوں کے لیے بھی سراپا شفقت و محبت تھے۔ کبھی بھی انہوں نے نظریاتی اختلاف کو ذاتی اختلاف نہیں بنایا۔ پچاس کی دہائی میں وہ مغرب کی طرف ذہنی جھکائو کے باوجود وہ قریبی مساجد کے علما کی سرپرستی کرتے رہے اور سال کے سال قریبی مساجد میں قربانی کی کھالیں بھجواتے رہتے تھے اور نذر نیاز کی تقریبات کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں مارشل لا حکومت کا حامی ہونے کے باوجود وہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کے واقعات اپنی زندگی کے آخری برسوں میں بیان کرتے رہے ہیں۔ ستر میں کٹر سوشلسٹ ہونے نے انہیں کبھی مولانا مفتی محمود کے صوبہ سرحد میں موجود اراکین حکومت سے اچھے ذاتی اور کاروباری تعلقات برقرار رکھنے سے نہیں روکا۔ اسی کی دہائی میں وہ ہدایت پا کر کٹھ ملائی اسلامی ذہن کے حامل ہو چکے تھے اور افغانستان میں روس کے خلاف جہاد جاری رکھتے ہوئے بھی انہوں نے روسی ساز و سامان کی فروخت میں کافی نام کمایا۔ امریکہ کی وار آن ٹیرر نے انہیں دلی صدمہ پہنچایا اور وہ امریکہ کے ایک بڑے مخالف بن کر ابھرے۔ اس امریکہ دشمنی میں وہ اس حد تک بڑھ گئے کہ نیویارک میں مقیم اپنے تمام خاندان کو انہوں نے خاص ہدایت فرمائی کہ وہ اس جنگ کی حمایت مت کریں اور اس سے دور رہیں۔

بلاشبہ حضرت معمارِ ملت کی یہ بے وقت رحلت قوم کے محب وطن حلقوں کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے۔ خود بتاتے تھے کہ وطن عزیز سے جتنی محبت ان کو ہے، کسی اور کو نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ انتہائی محبت کرنے والا دل رکھنے کے باوجود وہ وطن کی خاطر ہی دشمنی پالتے تھے۔ ان کے ذاتی دشمنوں کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو وہ سب ہی اول درجے کے غدار، بد باطن، یہود و ہنود کے ایجنٹ اور معمولی پیسوں کے لئے بک جانے والے دکھائی دیتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے محض چند پیسوں کی خاطر اپنا ضمیر بیچ دینے والوں پر۔

لکھنے والوں سے حضرت معمارِ ملت کو خاص محبت تھی اور سرِ شام ہی ان کے ڈرائینگ روم میں ملک کے جانے مانے اخبار نویس دکھائی دیتے تھے۔ ویسے تو حضرت معمارِ ملت ہر لکھنے والے سے محبت سے پیش آنے کے عادی تھے لیکن اس عاجز سے وہ خاص شفقت برتتے تھے۔ راقم الحروف کی تحریر نظر آ جاتی تو اوپر رکھے پکوڑے ایک طرف ہٹاتے تھے اور اخبار کے پارچے پر لکھا ہوا سارا مضمون پڑھ جاتے تھے۔ اس کے بعد وہ پاس بلا کر اچھے مضمون پر تعریف کرتے تھے اور اپنی ذات کے بارے میں کئی مزید اچھی چیزیں بتاتے تھے۔ اگر مضمون طبع سلیم پر ناگوار گزرتا تھا تو ماتھے پر کوئی شکن ڈالے بغیر ایک دوستانہ سا شکوہ کرتے تھے اور اس فقیر کو گلے مل کر رخصت کرتے تھے کہ ناراضگی کا کوئی شائبہ نہ گزرے۔ واپس گھر پہنچ کر جیبیں ٹٹولنے پر ہی احقر کو پتہ چلتا تھا کہ مرحوم چھوٹوں کو گھر سے خالی ہاتھ نہ لوٹانے کی رسمِ اسلاف پر سختی سے کاربند رہنے کے عادی ہیں۔

ان کی ناوقت رحلت بلاشبہ امت کے لیے ایک بڑا سیاسی، دینی اور مالی نقصان ہے۔ ان کی ناوقت وفات سے طاری ہونے والا خلا مدتوں دور نہ ہو گا۔ لیکن ان کے جانشین بھی اچھی روایات کے امین لگتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ بھی رسم اخلاف پر کاربند رہیں گے اور راقم الحروف بھی ان سے ملنے میں ہرگز بھی کوتاہی نہیں کرے گا۔  خاکسار یقین دلاتا ہے کہ جس طرح ملکی تاریخ کے ہر نازک موڑ پر راقم الحروف نے حضرت معمارِ ملت سے مل کر محب وطن حلقوں کی جانب سے جنگ لڑی ہے، وہ روایت ویسے ہی قائم رہے گی۔
Oct 10, 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments